معصوم بچی کا حسرت ناک واقعہ
قبیلہ بنو تمیم میں بچیوں کو زندہ دفن کرنے کا ظالمانہ رواج کچھ زیادہ تھا۔ اس قبیلے کے سردار قیس بن عاصم جب اسلام لائے تو انہوں نے اپنی معصوم بچی کو اپنے ہاتھوں سے دفن کرنے کا حسرت ناک واقعہ سناتے ہوئے کہا:
’’یارسول اللہ ﷺ !میں گھر سے باہر سفر پر گیا ہوا تھا۔ میرے بعد میرے گھر میں ایک بچی پیدا ہوئی۔ میں گھر میں ہوتا تو اس کی آواز سنتے ہی اس کو مٹی میں دبا کر ہمیشہ کے لیے خاموش کردیتا۔ ماں جیسے تیسے اس کو چند روز پالتی رہی، مگر چند دن پالنے کی وجہ سے ماں کی ممتا نے کچھ ایسا جوش مارا کہ وہ اس تصور سے لرزاٹھتی کہ باپ آکر اس فرشتے کو مٹی میں زندہ دبادے گا۔ چنانچہ میرے ڈر سے اس نے اپنی پیاری بچی کو اس کی خالہ کے یہاں بھیج دیا کہ وہاں پرورش پاکر جب بڑی ہوجائے گی تو باپ کو بھی رحم آجائے گا۔ میں جب سفر سے واپس آیا تو معلوم ہوا کہ میرے یہاں مرا ہوا بچہ پیدا ہوا تھا۔ اور بات آئی گئی ہوگئی،بچی اپنی خالہ کے زیر سایہ پلتی رہی یہاں تک کہ کافی بڑی ہوگئی، خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک دن کسی ضرورت سے گھر سے باہر گیا ۔ ماں نے یہ سوچا کہ آج بچی کا باپ گھر پر نہیں ہے کیوں نہ اس کو بلالوں اور ماں نے اس کو بلالیا۔ شامت اعمال ، کچھ دیر کے بعد میں بھی گھر میں پہنچ گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ نہایت خوبصورت بنی سنوری پیاری سی بچی گھر میں ادھر ادھر دوڑتی پھر رہی ہے میرے دل میں ایک انجانی محبت نے جوش مارا۔ بیوی نے بھی میری نگاہوں کا اندازہ بھانپ لیا کہ پدری محبت جاگ اٹھی ہے اور خون کااثر رنگ لے آیا ہے۔ میںنے بیوی سے پوچھا : نیک بخت! یہ کس کی بچی ہے؟بڑی پیاری بچی ہے۔
اور بیوی نے سار ا قصہ سنادیا۔ میں نے بے اختیار بچی کو گلے سے لگایا۔ ماں نے اس کو بتایا کہ یہ تیرے باپ ہیں اور وہ مجھ سے چمٹ گئی۔ باپ کا پیار پاکر وہ تو کچھ ایسی خوش ہوئی کہ ابا!ابا! کہتے اس کا منہ سوکھتا تھا۔اور جب ابا!ابا! کہہ کر دوڑ کر آتی تو میں اسے گلے لگا کر عجیب سکو ن محسوس کرتا۔
اس طرح دن گزرتے گئے اور لڑکی پیار ومحبت کے سائے میں ہر فکر سے بے پرواہ پرورش پاتی رہی۔ مگر اس کو دیکھ دیکھ کر میں کبھی کبھی سوچتا تھا کہ اس کی وجہ سے مجھے داماد والا بننا پڑے گا۔ مجھے یہ ذلت بھی برداشت کرنا ہوگی کہ میری لڑکی کسی کی بیوی بنے گی۔ میں لوگوں کے سامنے کیا منہ دکھائوں گا۔ میری تو ساری عزت خاک میں مل جائے گی۔ اورآخر کا ر میری غیرت نے مجھے جھنجوڑا۔ میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ اور میں نے طے کرلیا کہ اس ذلت کے سامان کو دفن کر کے ہی دم لوں گا۔ اور میں نے بیوی سے کہا : بچی کو تیار کردو، ایک دعوت میں ساتھ لے جائوں گا۔ بیوی نے اس کو نہلا یا دھلایا، صاف ستھرے کپڑے پہنائے اور بنا سنوار کر تیار کردیا ۔ بچی خوشی سے چہک رہی تھی کہ ابا جان کے ساتھ جارہی ہے۔ اور میں اسے لے کر ایک سنسان جنگل کی طرف روانہ ہوگیا۔بچی کودتی پھاندتی میرے ساتھ چل رہی تھی اور مجھ سنگ دل پر یہ جنون سوار تھا کہ جلد از جلد اس شرم کی پوٹلی کو مٹی میں دبادوں۔
بچی کو کیا خبر تھی ، معصوم بچی خوشی میں کبھی میرا ہاتھ پکڑتی ، کبھی مجھ سے آگے آگے دوڑتی ، کبھی پیاری زبان میں باتیں کرتی۔ یہاں تک کہ میں ایک جگہ جا کر رک گیا۔ پھر میں نے زمین میں ایک گڑھا کھودنا شروع کیا۔ بچی حیران تھی کہ ابا جان یہاں سنسان جنگل میں یہ گڑھا کیوں کھود رہے ہیں اور پوچھتی :ابا یہ کیوں کھود رہے ہیں؟اسے کیا خبر تھی کہ ظالم باپ اس چہکتی پھول سی بچی کے لیے قبر کھودرہا ہے تاکہ ہمیشہ کے لیے اسے خاموش کردے۔
گڑھاکھودتے ہوئے جب میرے پیروں او ر کپڑوں پر مٹی آتی تو معصوم بچی اپنے چھوٹے چھوٹے ، پیارے اور نازک ہاتھوں سے مٹی جھاڑتی اور توتلی زبان میں کہتی : ابا آپ کے کپڑے خراب ہورہے ہیں۔جب میں گہرا گڑھا کھودلیا تو ایک دم اس بے گناہ ہنستی کھیلتی بچی کو اٹھا کر اس گڑھے میں پھینک دیا اور جلدی جلدی اس پر مٹی ڈالنے لگا۔ بچی مجھے حسرت سے دیکھتے ہوئے چیختی رہی، ابا جان!میرے ابا جان! یہ کیا کررہے ہو؟ابا آپ کیا کررہے ہو؟ابا میں نے کچھ بھی تو نہیں کیاہے۔ ابا آپ مجھے کیوں مٹی میں دبا رہے ہیں؟ اور میں بہرا اندھا اور گونگا بنا اپنا کام کرتا رہا۔یارسول اللہ!مجھ سنگدل اور ظالم کو ذرا بھی تو رحم نہ آیا۔ بچی کو زندہ دفن کر کے اطمینان کی سانس لیتا ہوا واپس آگیا۔‘‘
معصوم بچی کی مظلومیت، بے بسی کا یہ حسرت ناک واقعہ سن کر رحمت عالمﷺ کا دل بھر آیا، آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو رواں ہوگئے، آپ رورہے تھے اور کہہ رہے تھے :’’یہ انتہائی سنگ دلی ہے ، جو دوسروں پر رحم نہیں کھاتا خدا اس پر کیسے رحم کھائے گا۔‘‘
No comments:
Post a Comment