اولاد کی شادی کے متلعق چند اھم گزارشات
مناسب رشتے کی تلاش
بچے کی شادی میں تاخیر بالعموم اس لیے ہوتی ہے کہ مناسب رشتہ نہیں مل پاتا ۔ آپ کی یہ خواہش اور کوشش بالکل بجا ہے کہ آپ کے بیٹے یا بیٹی کے لیے مناسب رشتہ ملے بلکہ یہ فکر وجستجو آپ کا فرض ہے۔ اسلامی تعلیمات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ آپ مناسب رشتے کے لیے پوری جدوجہد کریں۔
اسلام کا مطالبہ آپ سے یہ ہرگز نہیں ہے کہ آپ کو جو بھلا برا رشتہ مل جائے، آنکھ بند کرکے بس اسے قبول ہی کرڈالیں ، اور اس معاملے میں کچھ غور وخوض نہ کریں۔ شادی نہایت اہم معاملہ ہے، پوری زندگی کا مسئلہ ہے۔ نہ صرف دنیا کے بننے بگڑنے تک اس کے اثرات محدود ہیں بلکہ آخرت کی زندگی پر بھی اس کے اثرات پڑ سکتے ہیں ۔
یہ معاملہ نہایت سنجیدہ ہے۔ شریک حیات کے انتخاب میں سوچ بچار لازمی ہے۔
سوچنے کی بات صرف یہ ہے کہ آپ کی سوچ بچار اسلام کی روشنی میں ہو۔انتکاب کا جو معیار اسلام نے بتایا ہے وہی آپ کے پیش نظر ہو۔ اس کا جائزہ لینا ضروری ہے اپنی اولادکے لیے شریک حیات کے انتخاب میں ان ہی بنیادوں کو سامنے رکھیئے جن کو پیش نظر رکھنے کی اسلام نے ہدایت دی ہے۔بے لاگ جائزہ لیجئے کہ بچے کی شادی میں کہیں اس لیے تو تاخیر نہیں ہورہی ہے کہ آپ نے لڑکی یا لڑکے کے انتخاب میں کچھ ایسی باتوں کو اہمیت دے رکھی ہے جن کی دین میں کوئی اہمیت نہیں ہے، آپ اور باتوں کو اس لیے اہمیت دے رہے ہیں کہ سماج میں عام طور پر انہی باتوں کو اہمیت دی جارہی ہے یا آپ کو اس لیے ان پر اصرار ہے کہ آپ نے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ اس سلسلے میں اسلام کی تعلیمات وہدایات کیا ہیں۔
شریک حیات کے انتخاب کا معیار
شریک حیات کے انتخاب میں عام طور پر پانچ باتیں پیش نظر رہتی ہیں:
(۱)مال ودولت (۲)حسب ونسب (۳)حسن وجمال
(۴)دین واخلاق (۵)تعلیم
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ پانچوں باتیں اپنی جگہ اہم ہیں ۔ مال ودولت کی اہمیت سے کون انکار کرسکتا ہے ۔ بالخصوص اس دور میں خاندان اور حسب ونسب بھی بعض پہلوئوں سے نظر انداز کردینے کے قابل نہیں ہیں۔بعض خاندان یا برادریاں جو عرصہ دراز سے پس ماندہ ہیں ان میں بعض معاشرتی، ذہنی اور اخلاقی کمزوریاں ضرور ہوتی ہیں اور طرز معاشرت ، انداز فکر اور سلوک وبرتائو کا فرق بعض اوقات اس درجہ اثر انداز ہوتا ہے کہ خوش گوار ازدواجی زندگی کی توقع ہی نہیں کی جاسکتی ۔
انتخاب میں حسن وجمال کو بھی بنیادی اہمیت حاصل ہے اور لڑکی کے انتخاب میں تو خاص طور پر یہی چیز فیصلہ کن ہوتی ہے ۔ اس سے انکار کی کیا گنجائش ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو ذوق جمال دیا ہے اور خوبصورتی پسند کرنے ہی کی چیز ہے ۔
تعلیم کی اہمیت اور ضرورت بھی مسلم ہے اور دور حاضر میں تو تعلیم اور ڈگری کا رشتے کے معاملے میں خصوصی خیال رکھا جانے لگا ہے ۔ یہ واقعہ ہے کہ اونچی تعلیم حوصلوں کو بلند کرتی ہے ۔ تہذیب سے آراستہ کرتی ہے، عزت واحترام کا ذریعہ بنتی ہے، خوشحال زندگی اور سماج میں وقعت وعظمت کا سبب بنتی ہے۔
رہا دین واخلاق کا معاملہ تو ظاہر ہے مسلمان کے نزدیک اس کی اہمیت اور قدر تو ہونی چاہیے۔ مسلمان ماں یہ کیسے گوارا کر سکتی ہے کہ وہ زیر تجویز فرد میں سب کچھ تو دیکھے لیکن اس پہلو کو نظر انداز کردے یا اسے کوئی اہمیت ہی نہ دے۔
آپ کی خواہش ،آرزو اور کوشش اگر یہ ہے کہ آپ کی بیٹی یا بیٹے کو ایسا شریک زندگی ملے جو ان پانچوں خوبیوں میں معیاری ہوتو آپ کی تمنا بھی مبارک، آپ کی آرزو بھی درست اور آپ کی کوشش بھی حق بجانب۔کون نہیں چاہے گا کہ اس کے جگر گوشے کو ایسا ہی جوڑا ملے جو ان پانچوں خوبیوں سے آراستہ ہو۔
اسلام آپ کی اس خواہش ، تمنا اور کوشش کی ہرگز ناقدری نہیں کرتا۔ وہ آپ کے ان جذبات کا احترام کرتا ہے۔
اگر آپ کو ایسا جوڑا مل جائے جس میں یہ ساری خوبیا ں موجود ہوں تو یقین کیجئے کہ یہ خدا کی خصوصی نوازش ہے ، مگر عام حالات میں یہ انتہائی مشکل ہے کہ ہر رشتے کے لیے آپ کو یہ ساری خوبیاں یکجا مل جائیں۔ کسی میں کچھ خوبیاں ملیں گی تو کچھ خرابیاں بھی ہوں گی۔ دراصل اسی میں آپ کا امتحان ہے کہ آپ انتخاب میں اسلامی نقطہ نظر اپنے سامنے رکھیں اور ان ہی خوبیوں کو وجہ ترجیح بنائیں جن کو اسلام نے ترجیح دی ہے۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت
رسول خدا ﷺ کی ہدایت یہ ہے کہ آپ انتخاب کرتے وقت دین واخلاق کو اولین اہمیت دیں۔ دین واخلاق کے ساتھ دوسری چار چیزوں میں سے جو بھی میسر آجائیں اس پر خدا کا شکر ادا کریں اور پھر بے وجہ ٹال مٹول نہ کریں۔ہاں وہ رشتہ آپ کے لیے ہرگز قابل قبول نہ ہونا چاہیے جس میں ساری خوبیاں تو ہوں مگر دین واخلاق کی طرف سے مایوسی ہو۔ مسلمان ماں باپ کے لیے دیکھنے کی اولین چیز دین واخلاق ہے ، جو شخص اس سے کورا ہے وہ دوسری تمام چیزوں میں مثالی ہو تو بھی اس لائق نہیں کہ آپ اپنے جگر گوشے کے لیے اس کا انتخاب کریں۔ اسے اپنے گھر کی بہو بنائیں یا اپنا داماد بنائیں ۔ دوسری تمام چیزوں کے نقص کی تلافی تو دین واخلاق سے ہوسکتی ہے ، یا یوں کہیے دین واخلاق کی خاطر دوسری کمزوریوں کو گوارہ کیا جاسکتا ہے لیکن کسی بڑی سے بڑی خوبی کی خاطر بھی دین واخلاق سے محرومی کو گوارہ نہیں کیا جاسکتا ، دین واخلاق کی تلافی کسی دوسری خوبی سے نہیں ہوسکتی ۔ خدا کے رسول ﷺ کی ہدایت ہے:
’’نکاح کے لیے عام طور پر عورت میں چار چیزیں دیکھی جاتی ہیں (۱)مال ودولت (۲)خاندانی شرافت(۳)حسن وجمال(۴) دین واخلاق ۔ تم دین دار عورتوں سے شادی کرو تمہارا بھلا ہو۔‘‘
یہ حدیث آپ کو بتاتی ہے کہ آپ اپنے بیٹے کے لیے ایسی بہو بیا ہ کر لائیں جو دین دار ہو اور اسلامی اخلاق سے آراستہ ہو۔ ایسی بہو کے ذریعے ہی آپ کے گھر اسلام کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ اور ایسی بہو سے ہی یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اس کو گود سے ایسی نسل اٹھے جو دین و ایمان اور اسلام کے لیے جذبہ اشاعت وجہاد سے سرشار ہو۔
اسی طرح داماد اور بہو کے انتخاب کے لیے بھی آپ ﷺ کی ہدایت ہے کہ دین واخلاق ہی کو بنیادی، اہمیت دینی چاہیے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ جب تمہارے یہاں کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام بھیجے جس کے دین واخلاق سے تم مطمئن ہو اور خوش ہو تو اس سے اپنے جگر گوشے کی شادی کردو۔ اگر تم ایسا نہ کروگے تو زمین میں زبردست فساد پھیل جائے گا۔‘‘
یہ حدیث آپ کو فیصلہ کن انداز میں بتاتی ہے کہ جب آپ کے یہاں کسی لڑکے کا پیغام آجائے جس کے دین واخلاق کی طر ف سے آپ کو اطمینان ہو، آپ کی یقینی معلومات یہ ہوں کہ یہ خدا ترس ، دین دار صوم وصلوٰۃ کا پابند اور اسلامی اخلاق سے آراستہ ہے تو پھر بلاوجہ تاخیر اور ٹال مٹول کرنا کسی طرح صحیح نہیں ۔ خدا کے بھروسے پر اس کے ساتھ ہی شادی کردیجئے اور خیر کی توقع رکھیئے ۔ اس لیے کہ رشتہ نکاح میں مسلمان کے لیے اولین اہمیت کی چیز دین وایمان ہی ہے اور جس سماج میں دین وایمان کو نظر انداز کرکے دوسری چیزوں کو اہمیت دی جائے یا مال ودولت اور حسن وجمال کو دین واخلاق پر ترجیح دی جائے تو ایسے سماج میں فتنہ وفساد کا طوفان اٹھ کررہے گا اور دنیا کی کوئی طاقت ایسے سماج کو اس طوفان سے بچا نہ سکے گی۔
No comments:
Post a Comment