گھوڑا بِدکنے لگا
ایک صحابیِ رسول رضیَ اللہُ عنہ ایک رات سورۂ بقرہ کی تلاوت کررہے تھے۔ قریب ہی گھوڑا بندھا ہوا تھا اورگھوڑے کے قریب ہی ان کا بیٹا یحییٰ سورہا تھا۔ قراءت جاری تھی کہ اچانک گھوڑا بِدکنے لگا صحابیِ رسول نے پڑھنا بند کیا تو گھوڑا بھی ٹھہر گیا ، انہوں نے پڑھنا شروع کیا تو گھوڑا پھر کُودنے لگا ، دوبارہ چپ ہوئے تو گھوڑا بھی ٹھہر گیا تیسری مرتبہ پھر تلاوت شروع کی تو گھوڑا پھر اُچھلنےلگا، کہیں گھوڑا بچے کو کچل نہ دے اس لئے بچے کے قریب آکر اسے اٹھایا تو نظر آسمان کی جانب اٹھ گئی دیکھا کہ سائبان کی مانند کوئی چیز ہے جس میں بہت سے چراغ روشن ہیں۔ پھر صبح کو بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر واقعہ بیان کیا تو رحمتِ عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ فرشتوں کی مقدس جماعت تھی جو تمہاری قراءت (سننے) کی وجہ سے قریب آگئی تھی اگر تم تلاوت کرتے رہتے تو صبح ہوجاتی اور لوگ انہیں دیکھ لیتے اور فرشتے بھی ان سے نہ چھپتے۔
*(بخاری،ج 3،ص408، حدیث: 5018 ملخصاً)
*
یہ صحابیِ رسول حضرت سیدنا اُسَیْد بن حُضَیْر اَنصاری رضیَ اللہُ عنہ تھے۔
*(معجم کبیر،ج1،ص203، حدیث:547)*
آپ حضرت سیدنا مُصْعَب بن عُمیر رضیَ اللہُ عنہ کے ہاتھ پر اسلام لائے تھے، حضرت مُصْعب بن عُمیر رضیَ اللہُ عنہ سے ملاقات پر ان سے ابتداءً سخت قسم کی باتیں کیں کہ تم یہاں کس لئے آئے ہو ؟ ہمارے کمزوروں کو بے وقوف بنانے کے لئے ؟ اگر تمہیں زندگی پیاری ہے تو یہاں سے چلے جاؤ۔
حضرت مُصْعب بن عمیر رضیَ اللہُ عنہ نے نرمی سے کہا: ذرا بیٹھ کر میری بات تو سُن لو، اگر میری بات سمجھ میں آجائے تو اسے مان لینا اور اگر پسند نہ آئے تو ہم تمہیں مجبور نہیں کریں گے ۔ یہ سُن کر آپ نے کہا: یہ بات تو میرے فائدے کی کہی ہے !اور اپنا نیزہ زمین پر گاڑ کر حضرت مُصْعب رضیَ اللہُ عنہ کے پاس بیٹھ گئے۔ حضرت سیدنا مُصْعب بن عمیر رضیَ اللہُ عنہ نے آپ کو اسلام کے بارے میں بتانا شروع کیا اور قراٰن پڑھ کر سنایا تو آپ کے چہرے پر قبولِ اسلام پر آمادگی کے آثار نمودار ہوئے اور کہنے لگے: کیا ہی اچھا اور پسندیدہ دِین ہے،پھر اسلام قبول کرلیا۔
*(البدایۃ والنھایہ،ج3،ص186)*
رسولُ اللہ سے بیعت اعلانِ نبوت کے بارھویں سال حج کے موقع پر عقبہ کی گھاٹی میں نبیِّ کریم ﷺ کے دستِ اقدس پر بیعت ہوگئے۔
*(استیعاب،ج 1،ص185)*
ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ نے کسی موقع پر خوش طبعی کی تو پیارے آقا ﷺ نے آپ کے پہلو میں ایک چھڑی چبھوئی، آپ نے اس کا بدلہ لینا چاہا تو جانِ عالَم ﷺ اس پر راضی ہوگئے ، لیکن آپ نے عرض کی: آپ کے بدن پر کُرتا ہے، حالانکہ میرے بدن پرکُرتا نہیں تھا، سرورِ عالم ﷺ نے کُرتا بھی اٹھادیا، کُرتے کا اُٹھانا تھا کہ آپ رضیَ اللہُ عنہ حضور ﷺ سے لِپَٹ گئے، کروٹ کو بوسہ دیا، اور عرض کیا: یَا رسولَ اللہ ! میرا مقصد یہی تھا۔
*(ابوداود،ج 4،ص456، حدیث: 5224 مفہوماً)*
آپ نے سن 20 ہجری ماہِ شعبان المعظم میں اس دنیا سے آخرت کا سفراختیار فرمایا،
*(معجم کبیر،ج 1،ص203، حدیث: 549)*
امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضیَ اللہُ عنہ آپ کا جنازہ اٹھانے والوں میں شامل تھے یہاں تک کہ جنازہ جنت البقیع میں رکھ دیا گیا پھر فاروقِ اعظم رضیَ اللہُ عنہ نے آپ کی نماز ِجنازہ ادا کی۔
*(طبقات ابن سعد،ج3،ص455)*
No comments:
Post a Comment