Qurbani+ke+Fazail+o+Masail - Roshan Worlds

knowledge islamic quotes articles poims islamic education tips and tricks apps and games for pc android apps latest news for information technology

google Search

Saturday, July 17, 2021

Qurbani+ke+Fazail+o+Masail























قربانی کی فضیلت اوراحکام ومسائل

حلال جانور کو بہ نیتِ تقرب ذبح کرنے کی تارِیخ حضرت آدَم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل وقابیل کی قربانی سے ہی شروع ہوجاتی ہے، یہ سب سے پہلی قربانی تھی، حق تعالیٰ جلَّ شانُہ کا اِرشاد ہے:
 وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ م اِذْقَرَّ بَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ“۔
ترجمہ:۔”اور آپ اہلِ کتاب کو آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ صحیح طور پر پڑھ کر سنا دیجیے، جب ان میں سے ہرایک نے اللہ کے لیے کچھ نیاز پیش کی تو ان میں سے ایک کی نیاز مقبول ہوگئی، اور دُوسرے کی قبول نہیں کی گئی“۔
علامہ اِبن کثیر رحمہ اللہ نے اِس آیت کے تحت حضرت اِبن عباس رَضی اللہ عنہما سے رِوایت نقل کی ہے کہ ہابیل نے مینڈھے کی قربانی کی اور قابیل نے کھیت کی پیداوار میں سے کچھ غلہ صدقہ کرکے قربانی پیش کی، اُس زمانے کے دستور کے موافق آسمانی آگ نازل ہوئی اور ہابیل کے مینڈھے کو کھا لیا، قابیل کی قربانی کو چھوڑ دِیا۔(۲)
اِس سے معلوم ہوا کہ قربانی کا عبادت ہونا حضرت آدَم علیہ السلام کے زمانے سے ہے اور اس کی حقیقت تقریباً ہرملت میں رہی؛ البتہ اس کی خاص شان اور پہچان حضرت اِبراہیم و حضرت اِسماعیل علیہما السلام کے واقعہ سے ہوئی، اور اسی کی یادگار کے طور پراُمتِ محمدیہ پر قربانی کو واجب قرار دیا گیا۔

قربانی کی حقیقت قرآنِ کریم کی روشنی میں

قرآنِ کریم میں تقریباً نصف دَرجن آیاتِ مبارکہ میں قربانی کی حقیقت ، حکمت اور فضیلت بیان کی گئی ہے۔ سورة حج میں ہے:
۱-۲: وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰھَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ لَکُمْ فِیْھَا خَیْرٌ فَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْھَا صَوَآفَّ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُھَا فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ط کَذٰلِکَ سَخَّرْنٰھَا لَکُمْ لَعْلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ(۳۶) لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْط کَذٰلِکَ سَخَّرَھَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ ط وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ(۳)۷․
ترجمہ:۔”اور ہم نے تمہارے لیے قربانی کے اُونٹوں کو عبادتِ اِلٰہی کی نشانی اور یادگار مقرر کیا ہے، ان میں تمہارے لیے اور بھی فائدے ہیں، سو تم اُن کو نحر کرتے وقت قطار میں کھڑا کرکے اُن پر اللہ کا نام لیا کرو اور پھر جب وہ اپنے پہلو پر گر پڑیں تو اُن کے گوشت میں سے تم خود بھی کھانا چاہو تو کھاوٴ اور فقیر کو بھی کھلاوٴ، خواہ وہ صبر سے بیٹھنے والا ہو یا سوال کرتا پھرتا ہو، جس طرح ہم نے اِن جانوروں کی قربانی کا حال بیان کیا، اِسی طرح اُن کو تمہارا تابع دار بنایا؛ تاکہ تم شکر بجالاوٴ! اللہ تعالیٰ کے پاس ان قربانیوں کا گوشت اور خون ہرگز نہیں پہنچتا؛ بلکہ اس کے پاس تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے ، اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو تمہارے لیے اِس طرح مسخر کردِیا ہے؛ تاکہ تم اس احسان پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی کرو کہ اس نے تم کو قربانی کی صحیح راہ بتائی، اور اے پیغمبر! مخلصین کو خوش خبری سنا دیجیے“۔
سورة حج ہی میں دوسرے مقام پر اسے شعائر اللہ میں سے قرار دیتے ہوئے اس کی عظمت بتائی گئی اورقربانی کی تعظیم کو دل میں پائے جانے والے تقویٰ خداوندی کا مظہر قرار دِیا ہے۔
۳:- ”وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ(۳۲)“۔(۴)
ترجمہ:”اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی نشانیوں اور یادگاروں کا پورا احترام قائم رَکھے تو ان شعائر کا یہ احترام دِلوں کی پرہیزگاری سے ہواکرتا ہے“۔
سابق انبیاء کرام علیہم السلام کی شریعتوں میں قربانی کا تسلسل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت تک پہنچتاہے، جس کا طریقہ یہ تھا کہ قربانی ذبح کی جاتی اور وقت کے نبی علیہ السلام دُعا مانگتے اور آسمان سے خاص کیفیت کی آگ اُترتی اور اُسے کھاجاتی جسے قبولیت کی علامت سمجھا جاتا تھا، قرآنِ کریم میں ہے:
۴:- ”اَلَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ عَھِدَ اِلَیْنَآ اَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُوْلٍ حَتّیٰ یَاْتِیَنَا بِقُرْبَانٍ تَاْکُلُہُ النَّارُ“۔(۵)
ترجمہ:۔”یہ لوگ ایسے ہیں جو یوں کہتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں حکم دے رکھاہے کہ ہم کسی رسول کی اُس وقت تک تصدیق نہ کریں؛ جب تک وہ ہمارے پاس ایسی قربانی نہ لائے کہ اُس کو آگ کھاجائے“۔
قربانی کی تارِیخ پہلے اِنسان ہی سے شروع ہوجاتی ہے:
۵:-”وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ م اِذْقَرَّ بَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ“۔(۶)
ترجمہ:۔”اور آپ اہل کتاب کو آدَم کے دو بیٹوں کا واقعہ صحیح طور پر پڑھ کر سنا دیجئے، جب اُن میں سے ہرایک نے اللہ کے لیے کچھ نیاز پیش کی تو اُن میں سے ایک کی نیاز مقبول ہوگئی، اور دُوسرے کی قبول نہیں کی گئی“۔
۶:- ”قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۱۶۲)“(۷)
آیت بالا کے تحت امام جصاص رَازی لکھتے ہیں:
”ونسکی: الاضحیة، لانہا تسمی نسکاً، وکذلک کل ذبیحة علی وجہ القرابة إلی اللّٰہ تعالیٰ فہی نسک، قال اللّٰہ تعالی: ففدیة من صیام و صدقة و نسک“۔(۸)
ترجمہ:۔”نسک“ سے مراد قربانی ہے؛اس لیے کہ اُس کا نام ”نسک“ بھی ہے، اِسی طرح ہر وہ جانور جو اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کیا جائے وہ ”نسک“ کہلاتا ہے، ا رشادِ بارِی تعالیٰ ہے: ”فَفِدْیَةٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَةٍ اَوْ نُسُکٍ“۔(۹)
قربانی کے اس حکم کو اللہ تعالیٰ نے ایک اور انداز سے نماز کے تتمے کے طور پر یوں ذِکر فرمایا”فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ“ اِبن کثیر اِس آیت کے تحت رَقمطراز ہیں:
”قال ابن عباس وعطاء ومجاہد وعکرمة والحسن: یعنی بذلک نحر البدن ونحوہا، وکذا قال قتادة ومحمد بن کعب القرظی، والضحاک والربیع وعطاء الخراسانی والحکم وإسماعیل بن أبی خالد وغیر واحد من السلف“۔(۱۰)
”حضرت اِبن عباس رَضی اللہ عنہما، حضرت عطاء، مجاہد، عکرمہ رحمہم اللہ سمیت متعدد مفسرین فرماتے ہیں کہ ”وانحر“ سے اُونٹ کا ”نحر“ ہی مطلوب ہے جو قربانی کے لیے جانے والے جانور میں سے بڑا جانور ہے“۔
اِس سے فقہاء نے مسئلہ بھی اخذ فرمایا ہے کہ عید الاضحی پڑھنے وَالے لوگوں پر لازم ہے کہ وہ نماز عید پہلے ادا کرلیں، اس کے بعد قربانی کریں، جن لوگوں پر عید کی نماز فرض ہے، اگر اُنہوں نے عید سے پہلے قربانی کردِی تو اُن کی قربانی نہیں ہوگی۔
۸:- ”لِّیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَھُمْ وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَةِ الْاَنْعَامِ․ فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُوا الْبَآئِسَ الْفَقِیْرَ(۲۸)“۔ (۱۱)
ترجمہ:۔”تاکہ یہ سب آنے وَالے اپنے اپنے فائدوں کی غرض سے پہنچ جائیں اور تاکہ قربانی کے مقررَہ دِنوں میں خدا کا نام لیں جو خدانے ان کو عطاء کیے ہیں، سوائے اُمت محمدیہ! تم ان قربانیوں میں سے خود بھی کھانا چاہو تو کھاوٴ اور مصیبت زدہ محتاج کو کھلاوٴ“۔
اِس آیت میں بھی قربانی ہی کا ذِکر ہے۔ ہرقوم میں نسک اور قربانی رَکھی گئی، جس کا بنیادِی مقصد خالق کائنات کی یاد، اس کے احکام کی بجاآورِی اس جذبے کے ساتھ کہ یہ سب کچھ اللہ کی عطا اور دین ہے، یہاں بھی اِنسان کی قلبی کیفیت کا ایسا اِنقلاب مقصود ہے کہ وہ مال ومتاع کو اپنا نہ سمجھے؛ بلکہ دِل وجان سے اس عقیدے کی مشق کرے کہ حق تعالیٰ ہی اس کا حقیقی مالک ہے، گویا قربانی کا عمل فتنہٴ مال سے حفاظت کا دَرس دیتا ہے۔
۹:-” وَلِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَةِ الْاَنْعَامِ۔“(۱۲)
ترجمہ:۔”اور ہم نے ہر اُمت کے لیے اس غرض سے قربانی کرنا مقرر کیا تھا کہ وہ ان چوپایوں کی قسم کے مخصوص جانوروں کو قربان کرتے وَقت اللہ کا نام لیا کریں، جو اللہ نے ان کو عطا کیے تھے“۔


قربانی کی فضیلت

عن عائشۃرضی اﷲ تعالیٰ عنہا قالت قال رسول اﷲصلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم ماعمل ابن اٰدم من عمل یوم النحرأحب إلی اﷲمن إھراق الدم وإنہ لیأتی یوم القیامۃ بقرونھاوأشعارھاوأظلافھاوإن الدم لیقع من اﷲقبل أن یقع بالأرض فطیبوابھانفسا۔(سنن ترمذی،ج:۱،ص:۲۷۵)
ترجمہ:…حضرت عائشہ رضی اﷲعنہاسے روایت ہے کہ جناب رسول اﷲصلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایاکہ :ذی الحجہ کی دسویں تاریخ یعنی عیدالاضحی کے دن فرزند آدم کاکوئی عمل اﷲتعالیٰ کوقربانی سے زیادہ محبوب نہیںاورقربانی کاجانورقیامت کے دن اپنے سینگوں،بالوںاورکھروںکے ساتھ زندہ ہوکرآئے گا اورقربانی کاخون زمین پرگرنے سے پہلے اﷲتعالیٰ کی رضااورمقبولیت کے مقام پرپہنچ جاتاہے، پس اے اﷲکے بندو!دل کی پوری خوشی کے ساتھ قربانی کیاکرو۔حضوراکرم صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم کاارشادہے کہ قربانی کے جانورکے بدن پرجتنے بال ہوتے ہیںایک ایک بال کے بدلے قربانی کرنے والے کونیکی ملتی ہے۔

عن زید بن ارقم رضی اللہ عنہ قال: قال أصحاب رسول اللّٰہ: یا رسول اللّٰہ! ما ہذہ الأضاحی؟ قال: سنة أبیکم إبراہیم علیہ السلام، قالوا: فما لنا فیہا یا رسول اللّٰہ؟ قال: بکل شعرة حسنة، قالوا: فالصوف؟ یا رسول اللّٰہ! قال: بکل شعرة من الصوف حسنة“۔(۱۴)
ترجمہ:۔”حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ راوِی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رَضی اللہ عنہم نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! یہ قربانی کیا ہے؟ فرمایا: تمہارے باپ اِبراہیم علیہ السلام کا طریقہ (یعنی اُن کی سنت) ہے، صحابہ نے عرض کیا کہ پھر اس میں ہمارے لیے کیا (اجر وثواب) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وَسلم نے فرمایا: (جانور کے) ہر بال کے بدلے ایک نیکی، اُنہوں نے عرض کیا کہ (دُنبہ وَغیرہ اگر ذبح کریں تو اُن کی) اُون (میں کیا ثواب ہے؟) فرمایا: کہ اُون کے ہربال کے بدلے ایک نیکی“۔
عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی یوم اضحیٰ: ما عمل آدمی فی ہذا الیوم افضل من دم یہراق إلا أن یکون رحماً توصل“۔(۱۵)
ترجمہ:۔”حضرت اِبن عباس سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وَسلم نے عید الاضحی کے دِن اِرشاد فرمایا: آج کے دِن کسی آدمی نے خون بہانے سے زیادَہ افضل عمل نہیں کیا، ہاں! اگر کسی رِشتہ دار کے ساتھ حسن سلوک اس سے بڑھ کر ہو تو ہو“۔
۴:- ”عن أبی سعید رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یا فاطمة! قومی إلی أضحیتک فاشہدیہا، فإن لک بأول قطرة تقطر من دمہا أن یغفرلک ما سلف من ذنوبک․ قالت: یا رسول اللّٰہ! ألنا خاصة أہلَ البیت أو لنا وللمسلمین؟ قال: بل لنا وللمسلمین“۔
ترجمہ:۔”حضرت ابو سعید رَضی اللہ عنہ سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی بیٹی حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے) فرمایا: اے فاطمہ! اُٹھو اور اپنی قربانی کے پاس رہو (یعنی اپنی قربانی کے ذبح ہوتے وقت قریب موجود رہو) کیونکہ اس کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرنے کے ساتھ ہی تمہارے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے، حضرت فاطمہ رَضی اللہ عنہا نے عرض کیا! اللہ کے رسول! یہ فضیلت ہم اہل بیت کے ساتھ مخصوص ہے یا عام مسلمانوں کے لیے بھی ہے؟ آپ … نے فرمایا ہمارے لیے بھی ہے اور تمام مسلمانوں کے لیے بھی“۔
۵:- ”عن علی رضی اللہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: یا فاطمة! قومی فاشہدی ضحیتک، فإن لک بأول قطرة تقطر من دمہا مغفرة لکل ذنب، ما انہ یجاء بلحمہا ودمہا توضع فی میزانک سبعین ضعفا۔ قال ابو سعید: یا رسول اللّٰہ! ہذا لآل محمد خاصة، فانہم اہل لما خصوا بہ من الخیر، و للمسلمین عامة؟ قال: لآل محمد خاصة، وللمسلمین عامة“۔(۱۶)
ترجمہ:۔”حضرت علی رَضی اللہ عنہ سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وَسلم نے (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے) فرمایا: اے فاطمہ! اُٹھو اور اپنی قربانی کے پاس (ذبح کے وقت) موجود رہو؛ اِس لیے کہ اس کے خون کا پہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی تمہارے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے، یہ قربانی کا جانور قیامت کے دِن اپنے گوشت اور خون کے ساتھ لایا جائے گا اور تمہارے ترازو میں ستر گنا (زیادہ) کرکے رَکھا جائے گا، حضرت ابوسعید نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ فضیلت خاندانِ نبوت کے ساتھ خاص ہے جو کسی بھی خیر کے ساتھ مخصوص ہونے کے حق دار ہیں یا تمام مسلمانوں کے لیے ہے؟ فرمایا: یہ فضیلت آلِ محمد کے لیے خصوصاً اور عموماً تمام مسلمانوں کے لیے بھی ہے“۔
۶:-”عن علی رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: یا أیہا الناس! ضحوا واحتسبوا بدمائہا، فان الدم وإن وقع فی الأرض، فإنہ یقع فی حرز اللّٰہ عز وجل۔“(۱۷)
ترجمہ:۔”حضرت علی رَضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! تم قربانی کرو اور ان قربانیوں کے خون پر اجر وثواب کی اُمید رَکھو؛ اِس لیے کہ (اُن کا) خون اگرچہ زمین پر گرتا ہے؛ لیکن وہ اللہ کے حفظ وامان میں چلاجاتاہے“۔
۷:- ”عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما انفقت الورق فی شییٴٍ حب إلی اللّٰہ من نحر ینحر فی یوم عید“۔(۱۸)
ترجمہ:۔”حضرت اِبن عباس رَضی اللہ عنہ سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وَسلم نے فرمایا: چاندی (یا کوئی بھی مال) کسی ایسی چیز میں خرچ نہیں کیا گیا جو اللہ کے نزدِیک اُس اُونٹ سے پسندیدہ ہو جو عید کے دِن ذبح کیا گیا“۔
۸:- ”عن ابی ہریرة رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من وجد سعة لان یضحی فلم یضح، فلایحضر مصلانا“۔(۱۹)
ترجمہ:۔”حضرت ابو ہریرہ رَضی اللہ عنہ سے رِوَایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص قربانی کرنے کی گنجائش رَکھتا ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہمارِی عیدگاہ میں نہ آئے“۔
۹:- ”عن حسین بن علی رضی اللہ عنہما قال:قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من ضحی طیبة نفسہ محتسباً لاضحیتہ کانت لہ حجاباً من النار۔“(۲۰)
ترجمہ:۔”حضرت حسین بن علی رَضی اللہ عنہ سے مروِی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وَسلم نے فرمایا: جو شخص خوش دِلی کے ساتھ اجر وثواب کی اُمید رَکھتے ہوئے قربانی کرے گا تو وہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے رُکاوَٹ بن جائے گی“۔

قربانی نہ کرنے پروعید

عن أبی ہریرۃرضی اﷲتعالیٰ عنہ أن رسول اﷲصلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم قال من کان لہ سعۃ ولم یضح فلایقربن مصلانا۔
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:جس کے پاس گنجائش ہواوراسکے باوجووہ قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ جائے۔

تصحیح نیت:

ارشادخداوندی : لَنْ  یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا  وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ  یَّنَالُہُ  التَّقْوٰی مِنْکُمْ
ترجمہ:…اﷲتعالیٰ کوان کاگوشت اورلہونہیںپہنچتالیکن پہنچتاہے تمھاری طرف سے تقوی۔(الحج:۳۷)
صحیح بخاری کی پہلی حدیث مبارکہ ہے فرمایاکہ:تمام اعمال کادارومدارنیتوںپرہے، قربانی ایک بہت بڑی عبادت ہے جس میںنیت کادرست ہوناضروری ہے تاکہ قربانی درست ہوسکے۔

قربانی کس پرواجب ہے؟

قربانی ہرمسلمان مردعورت پرواجب ہے،جوعاقل بالغ مقیم اورنصاب کامالک ہو۔

وجوب قربانی کا نصاب

قربانی ہر اُس عاقل، بالغ، مقیم، مسلمان پر واجب ہوتی ہے جو نصاب کا مالک ہو یا اس کی ملکیت میں ضرورتِ اصلیہ سے زائد اِتنا سامان ہو جس کی مالیت نصاب تک پہنچتی ہو اور اس کے برابر ہو، نصاب سے مراد یہ ہے کہ اس کے پاس ساڑھے سات تولہ صرف سونا یا ساڑھے باوَن تولہ چاندی یا اُس کی قیمت کے برابر نقد رَقم ہو یا ضرورَتِ اصلیہ سے زائد اِتنا سامان ہو جس کی قیمت ساڑھے باوَن تولہ چاندی کے برابر ہو۔
وَاضح رہے کہ ضرورتِ اصلیہ سے مراد وہ ضرورت ہے جو اِنسان کی جان یا اس کی عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے ضروری ہو، اُس ضرورت کے پورا نہ ہونے کی صورت میں جان جانے یا ہتک آبرو کا اندیشہ ہو، مثلاً کھا نا، پینا، رہائش کا مکان، پہننے کے کپڑے، اہل صنعت و حرفت کے اوزار، سفر کی گاڑِی، سوارِی وَغیرہ، نیز اس کے لیے اُصول یہ ہے کہ جس پر صدقہ فطر واجب ہے اُس پر قربانی بھی واجب ہے یعنی نصاب کے مال کا تجارَت کے لیے ہونا یا اُس پر سال گزرنا ضروری نہیں؛ چونکہ نصاب کے لیے ضرورَتِ اصلیہ سے زائد مال کا اعتبار ہوتا ہے؛ اِس لیے یاد رکھنا چاہیے کہ بڑی بڑی دیگیں، بڑے فرش، شامیانے، ریڈیو، ٹیپ رِیکارڈر، عام رِیکارڈر، ٹیلی وِیژن، وِی سی آر یہ ضرورت میں دَاخل نہیں، اگر ان کی قیمتیں نصاب تک پہنچ جائیں تو بھی ایسے شخص پر قربانی واجب ہوگی۔
اگر کسی کے پاس مالِ تجارت، مثلاً: شیئرز، جیولری کا کام، فریج، گاڑیاں، پنکھے وَغیرہ کسی طرح کا مال ہو اور بقدرِ نصاب یا اس سے زیادَہ ہو تو اُس پر بھی قربانی وَاجب ہے۔ اگر کوئی فقیر آدمی قربانی کے ایام میں سے کسی دِن بھی صاحب نصاب ہوگیا تو اُس پر قربانی وَاجب ہوجائے گی۔ اگر کوئی صاحب نصاب کافر قربانی کے ایام میں مسلمان ہوجائے تو اُس پر قربانی لازم ہوگی۔ اگر عورَت صاحب نصاب ہو تو اُس پر بھی قربانی وَاجب ہے، بیوی کی قربانی شوہر پر لازم نہیں، اگر بیوی کی اِجازت سے کرلے تو ہوجائے گی۔
بعض لوگ نام بدل کر قربانی کرتے رہتے ہیں، باوجود یہ کہ دونوں میاں بیوی صاحب نصاب ہوتے ہیں، مثلاً: ایک سال شوہر کے نام سے، دوسرے سال بیوی کے نام سے، تو اس سے قربانی ادا نہیں ہوتی؛ بلکہ ہر صاحب نصاب میاں، بیوی پر علیحدہ علیحدہ قربانی ہوتی ہے۔
اگر بیوی کا مہر موٴجل (یعنی اُدھار) ہے جو شوہر نے ابھی تک نہیں دِیا اور وہ نصاب کے برابر ہے تو اس پر قربانی واجب نہیں ہے۔ اور اگر مہر معجل (یعنی فورِی طور پر نقد) ہے اور نصاب کے برابر یا اُس سے زیادَہ ہے تو اس پر بھی قربانی وَاجب ہے۔ اگر مشترک کارُوبار کی مالیت تقسیم کے بعد ہرایک کو بقدرِ نصاب یا اُس سے زائد پہنچتی ہو تو سب پر زکوٰة واجب ہوگی۔ اگر کاشت کار، کسان کے پاس ہل چلانے اور دُوسری ضرورَت سے زائد اِتنے جانور ہوں جو بقدرِ نصاب ہوں تو اُس پر قربانی ہوگی اور اگروہ جانور نصاب کی مقدار کے برابر نہ ہوں تو واجب نہ ہوگی۔ اگر کسی کے پاس کتب خانہ ہے اور مطالعہ کے لیے کتب رکھی ہیں تو اگر وہ خود تعلیم یافتہ نہیں اور کتابوں کی قیمت نصاب تک پہنچی ہوئی ہے تو اُس پر قربانی واجب ہے اور اگر صورَتِ مذکورَہ میں وہ تعلیم یافتہ ہے تو قربانی وَاجب نہیں ہوگی۔ ہر سرکارِی وغیر سرکارِی ملازم جس کی تنخواہ اِخراجات نکالنے کے بعد نصاب کے بقدر یا اس سے زائد بچ جائے تو اس پر قربانی واجب ہے۔

قربانی کاوقت

عن البراء رضی اﷲ تعالیٰ عنہ قال خطبنارسول اﷲ صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم یوم النحروقال :أومانبدأبہ فی یومناھذاأن نصلی،ثم نرجع فننحرفمن فعل ذلک فقدأصاب ومن ذبح قبل أن نصلی فإنماھوشاۃلحم عجلہ لأھلہ لیس من النسک فی شیئ۔(بخاری ومسلم)
ترجمہ:…حضرت براء رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے قربانی کی عیدکے خطبہ دیااس میں ارشادفرمایا:آج کے دن کے خاص کاموںمیںسے پہلاکام یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ کے حضورمیںنمازاداکریںپھر وہاں سے لوٹ کرقربانی کریںجواس طرح کرے گاوہ ہمارے طریقے کے مطابق ٹھیک قربانی کرے گا،اورجس نے نمازسے پہلے قربانی کرڈالی اس کی قربانی بالکل نہیں ہوئی،بلکہ اس نے اپنے اہل خانہ کے گوشت کھانے کے لئے بکری(قربانی کا جانور)ذبح کرلیاہے،اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔(معارف الحدیث،ج:۳،ص:۴۱۶)

قربانی کے جانوراوران کی عمریں

بھیڑ،بکری،اوردنبہ ایک سال کاہوتواس کی قربانی جائزہے،البتہ جودنبہ سال سے کم ہولیکن اتناموٹاتازہ ہوکہ دیکھنے میںسال بھرکامعلوم ہوتاہوتواس کی بھی قربانی کی جاسکتی ہے،اورگائے ،بیل اوربھینس کی قربانی کم ازکم دوسال کی عمرمیں جائز ہے، جبکہ اونٹ کی قربانی کے لئے ضروری ہے کہ اس کی عمرکم ازکم پانچ سال ہو۔

جانورکے مسائل

 (1)حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم (قربانی کے جانور کے) آنکھ اور کان کو خوب اچھی طرح دیکھ لیں (کہ کوئی ایسا عیب اور نقصان نہ ہو جس کی وجہ سے قربانی درست نہ ہو اور یہ حکم بھی دیا ہے کہ) ہم اس جانور کی قربانی نہ کریں جس کا کان اگلی طرف سے یا پچھلی طرف سے کٹا ہوا ہو اور نہ اس جانور کی جس کی لمبائی پر چرے ہوئے اور گولائی میں پھٹے ہوئے ہوں۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی، دارمی وابن ماجه وَانْتَھَتْ رِوَایَة ابن ماجه اِلَی قَوْلِهٖ وَالاذُنَ)
(2)- ایک دوسری روایت میں نقل کرتے ہیں کہ ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے منع فرمایا ہے کہ ہم ایسے جانور کی قربانی کریں جس کے سینگ ٹوٹے ہوئے اور کان کٹے ہوئے ہوں۔ (ابن ماجہ)
(3)- حضرت قتادہ رحمہ اللہ ابن کلیب رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے عضبائے قرن و اذن کی قربانی سے منع فرمایا ہے، قتادہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن المسیب رحمہ اللہ سے پوچھا کہ یہ عضبائے اذن کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ جس کا کان آدھا یا آدھے سے زیادہ کٹا ہوا ہو۔(طحاوی)
(4)- حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ راویت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ سے پوچھا گیا کہ کیسے جانور قربانی کے لائق نہیں؟ تو آپ ﷺ نے ہاتھ کی انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ چار طرح کے جانور قربانی کی قابل نہیں ہیں :(١) لنگڑا جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو یعنی جو چل نہ سکے۔(٢) کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو یعنی آنکھ سے بالکل دکھائی نہ دیتا ہو یا تہائی یا تہائی سے زیادہ روشنی جاتی رہی ہو۔(٣) بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو یعنی جو بیماری کی وجہ سے گھاس نہ کھا سکے۔(٤) ایسا دبلا کہ جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔(مالک، احمد، ترمذی)
ان روایات کی روشنی میں فقہائے کرام نے جانور کے عیوب کے بارے میں یہ تفصیل بیان کی ہے کہ :

سینگ

○ جس جانور کے پیدائشی سینگ نہ ہوں یا بعد میں ٹوٹ گئے ہوں تو اس کی قربانی جائز ہے، ہاں! اگر بالکل جڑ سے ٹوٹ گئے ہوں تو جائز نہیں۔○ اگر سینگ تھے مگر ٹوٹ گئے تو صرف اُوپر سے خول اُترا ہے، اندر کا گودا باقی ہے تو قربانی دُرست ہے، اگر جڑ ہی سے نکل گئے ہوں تو اس کی قربانی کرنا دُرست نہیں۔

مغز

 ایسے جانور کی قربانی درست نہیں جس میں مغز نہ رہا ہو۔ ○ نہ ایسے جانور کی جو صرف نجاست خور ہو۔

کان

 جس جانور کے چھوٹے چھوٹے کان ہوں اس کی قربانی  جائز ہے اور اگر ایک یا دونوں کان پیدائشی نہ ہوں یا ایک کان پورا کٹا ہوا ہو تو جائز نہیں ہے۔ جس جانور کے دونوں کان تھوڑے تھوڑے کٹے ہوئے ہوں یا کان میں کئی سوراخ ہوں جو جمع کرنے سے تہائی سے زیادہ ہوجاتے ہوں تو احتیاط یہ ہے کہ اس جانور کی قربانی  نہ کرے، اسی طرح کان تہائی سے زیادہ کٹا ہو تو  قربانی  ناجائز ہے۔البتہ جس جانور کا کان لمبائی میں یا اس کے منہ کی طرف سے پھٹ جائے اور لٹکا ہوا ہو یا پیچھے کی طرف پھٹا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے اگرچہ بہتر نہیں۔

آنکھ

 جو جانور اندھا ہو یا اس کی ایک آنکھ کی بینائی تہائی سے زیادہ جاتی رہے تو اس کی قربانی جائز نہیں اور اگر آنکھ کی نگاہ ترچھی ہو تو  قربانی  جائز ہے۔ کانے جانور کی قربانی ناجائز ہے۔

ناک

 جس جانور کی ناک کٹی ہوئی ہو اس کی قربانی  ناجائز ہے۔

دانت

 جس جانور کے دانت بالکل نہ ہوں اس کی قربانی  ناجائز ہے اور اگر اس قدر باقی ہیں کہ گھاس وغیرہ چرسکتا ہے تو جائز ہے۔ اگر جانور کے دانت گھس گھس کر مسوڑھوں سے جاملے لیکن گھاس کھانے پر قادر ہے تو قربانی جائز ہے اور اگر قادر نہیں تو جائز نہیں۔

 زبان

 جس جانور کی زبان تہائی سے زیادہ کٹی ہوئی ہو اس کی قربانی جائز نہیں اسی طرح ایسے کٹی ہوئی زبان والےجانور کی قربانی درست نہیں جو چارہ گھاس نہ کھاسکے۔

دم

 جس جانور کی دم تہائی سے زیادہ کٹی ہوتو اس کی  قربانی  ناجائز ہے، البتہ دنبہ کی چکتی کے نیچے ایک چھوٹی سی دم رہتی ہے، اگر یہ ٹوٹ جائے یا پوری دم کٹی ہوئی ہو تو اس کی قربانی جائز ہے کیونکہ دنبے کی دم کا اعتبار نہیں۔

پاؤں

 جس جانور کا پاؤں کٹا ہوا ہو اس کی قربانی جائز نہیں۔○ جو جانور ایسا لنگڑا ہو کہ فقط تین پاؤں سے چلتا ہو، چوتھا پاؤں زمین پر نہیں رکھ سکتا یا رکھ سکتا ہے مگر اس کے بَل چل نہیں سکتا تو اس کی قربانی  جائز نہیں اور اگر چوتھا پاؤں ٹیک کر چل سکتا ہے تو جائز ہے۔

 دبلا اور کمزور

ایسے دُبلے کمزور جانور کی قربانی  ناجائز ہے جس کی ہڈی میں گودا نہ رہا ہو، اگر اتنا کمزور نہ ہو تو جائز ہے۔

رسولی والا جانور

 جس جانور کے رسولی ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔

مجنون جانور

مجنون جانور اگر چل پھر کر چرسکے تو اس کی قربانی  جائز ہے اور اگر اتنا کمزور ہو  کہ جنون (باؤلے پن) کی وجہ سے کھا پی نہ سکتا ہو تو اس کی قربانی درست نہیں۔

خارشی جانور 

جس جانور کو خارش (کھجلی) ہو مگر اتنا موٹا ہو کہ خارش کا اثر گوشت تک نہ پہنچے تو اس کی قربانی  جائز ہے اور اگر خارش اور بیماری کا اثر گوشت تک پہنچ گیا یا بیماری کی وجہ سے اتنا کمزور ہوگیا کہ ان کی ہڈی میں گودا نہ رہا ہو تو اس قربانی  جائز نہیں ہے۔

بال کاٹنا

جس جانور کے بال کاٹ لئے گئے ہوں تو اس کی قربانی درست ہے، البتہ جانور خریدنے کے بعد بال کاٹنا جائز نہیں، اگر کسی نے ایسا کرلیا تو اس کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے۔

جنسی بیماریاں

 مخنث جانور کی قربانی جائز نہیں۔جس جانور کا آلۂ تناسل کٹا ہوا ہو اور جماع کرنے سے عاجز ہو اس کی قربانی  ناجائز ہے۔خصّی جانور کی قربانی  درست ہے بلکہ افضل ہے، اسی طرح بانجھ جانور کی قربانی بھی درست ہے کیونکہ اس پر کوئی ممانعت وارد نہیں ہوئی۔

زیادہ عمر والا ایسا جانور

 جو جانور زیادہ عمر ہونے کی وجہ سے بچہ دینے کے قابل نہیں ہے یا جس کو کھانسی ہو تو ان کی قربانی  جائز ہے۔
تھن کٹا ہوا ہو یا تھن خشک ہوجائے
جس جانور کے تھن بالکل کٹے ہوئے ہوں یا ایک تھن تہائی سے زیادہ کٹا ہوا ہو، اس کی قربانی  جائز نہیں اور اگر بیماری کی وجہ سے بھیڑ،بکری کا ایک تھن یا گائے،بھینس اور اُونٹنی کے دوتھن سوکھ گئے ہوں تو  قربانی  جائز نہیں البتہ اگر گائے،بھینس اور اُونٹنی کا ایک تھن سوکھ جائے تو قربانی درست ہے۔

حاملہ جانور

 حاملہ جانور کی قربانی جائز ہے البتہ جان بوجھ کر قریب الولادة جانور کو ذبح کرنا مکروہ ہے، اگر ذبح کے بعد بچہ زندہ نکلے تو اس کو ذبح کرکے کھالیا جائے اور اگر مردہ نکلے تو اس کا کھانا حرام ہے۔ اگر اس بچے کو ایام قربانی میں ذبح نہ کیا تو اس کو زندہ صدقہ کردیا جائے اور اگر ایام قربانی کے بعد ذبح کیا تو اس کی قیمت صدقہ کردی جائے۔

داغ دیا ہوا جانور

 داغ دیئے ہوئے جانور کی قربانی جائز ہے کیونکہ داغ صحت کے لئے دیا جاتا ہے اور اس سے گوشت پر اثر نہیں پڑتا البتہ بے داغ جانور کی قربانی افضل ہے۔

جانور کا عیب سے خالی ہونا افضل ہے

 مستحب یہ ہے کہ قربانی  کے جانور میں جائز عیبوں میں سے بھی کوئی عیب نہ ہو۔جانور خریدنے کے بعد عیب دار ہوگیا تو ! اگر قربانی  کے جانور کو خریدنے کے بعد کوئی ایسا عیب لگ گیا کہ جس سے قربانی نہیں ہو سکتی تو  قربانی کرنے والا اگر غنی ہے جس پر قربانی  واجب ہے تو دوسرا جانور خرید کر قربانی کرے اور اگر غریب ہے تو اسی کو ذبح کردے۔
○ اگر خریدتے وقت وہ جانور عیب دار تھا تو غریب کے لیے اسی حالت میں اس کی قربانی  جائز ہے اور امیر کے لیے اس وقت جائز ہے جب کہ اس کا عیب جاتا رہا ہو مثلاً  پہلے بہت کمزور اور لاغر تھا بعد میں موٹا ہوگیا ہو۔جانور ذبح کے وقت عیب دار ہوجائے تو جانور پہلے تو صحیح سالم تھا مگر ذبح کرتے وقت جب اس کو لٹایا تو اس کی وجہ سے اس میں کچھ عیب پیدا ہوگیا تو اس کا کچھ حرج نہیں، اس کی قربانی دُرست ہے۔

مزیدبرآں:

۱…زبان کٹی ہوئی جانورجوچارہ نہ کھاسکتاہو۔۲…بھیڑ،بکری اوردنبی کہ ایک تھن سے دودھ نہ آتاہو۔۳…بھینس گائے اوراونٹنی کے تھنوںسے دودھ نہ آتاہو۔ ۴…جوجانور اندھا ہو یا کاناہو،یااس کی ایک آنکھ کی تہائی روشنی یااس سے زیادہ جاتی رہی ہویاایک کان تہائی سے زیادہ کٹ گیاہویادم تہائی یاتہائی سے زیادہ کٹ گئی ہو۔۵…ایساجانورجودبلاپتلالاغربالکل مریل ہوکہ اسکی ہڈیوںسے گوداختم ہوگیا ہو،یاجوجانورذبح کی جگہ چل کرنہ جاسکتاہو۔۶…جس جانورکے دانت بالکل نہ ہو۔۷…جس کے سینگ جڑسے ٹوٹ گئے ہوں۔۸…جس کی ناک کٹی ہوئی ہو ان سب جانوروںکی قربانی درست نہیںہوگی۔

ذبح کاطریقہ

قربانی کے جانورکوذبح کرنے کاطریقہ یہ ہے کہ اس کوقبلہ رولٹایاجائے پھرذبح کرنے والاخودبھی قبلہ کی طرف رخ کرکے بسم اﷲاکبرپڑھتاہواجانورکے گلے پرتیزدھاری والی چھری پھیردے کہ خوراک اورسانس کی نالیاںاورخون کی رگیںکٹ جائیںاورپوری گردن نہ کاٹی جائے۔

اسلامی ذبیحہ کی شرائط

۱…ذبح کرنے والامسلمان ہو۔۲…ذبح کے وقت اﷲکانام لینا(بسم اﷲاﷲاکبرپڑھنا) ۳…شرعی طریقہ پرخوراک ،سانس اورخون کی نالیاں کاٹنا۔

گوشت کی تقسیم

قربانی کے گوشت کوتین حصوںمیںتقسیم کرنامستحب اورافضل ہے،ایک حصہ اپنے اہل وعیال کے لئے،ایک حصہ رشتہ داروںکے لئے،اورایک حصہ فقراء ومساکین میںبانٹنے کے لئے اورتمام گوشت اپنے استعمال میںلانابھی جائزہے۔

نوٹ

جب شرکاء آپس میںگوشت تقسیم کرناچاہیںتووزن کرکے تقسیم کرناضروری ہے اٹکل سے نہ بانٹیں ورنہ کمی بیشی کی صورت میں سود کا گناہ ہوگا۔
جانورکے درج ذیل اجزاحرام ہیں:
۱…بہنے والاخون۲…پیشاب کی جگہ۳…پاخانے کی جگہ۴…فوطے ۵…غدود ۶…مثانہ۷…پتہ۸…حرام مغز



No comments:

close