تُبّع حِمیَری
تبع اسعد ابو كرب الحميری۔ ان کی کنیت اور ان کا نام اسعد تھا، انصار بنی
حیرہ اسی کی طرف منسوب ہیں، حیرہ کوفہ کے قریب ایک شہر ہے۔ان کو اسعد الکامل بھی
لکھا جاتا ہے۔ انہوں نے یہودیت کو ترک کرکے اسلام قبول کیا تھا۔
عبد الرزاق وابن المنذر نے ابن عباس سے روایت
کیا کہ چار آیات ہیں اللہ کی کتاب میں سے جن کے بارے میں مجھے علم نہیں کہ ان کا
کیا معنی ہے۔ یہاں تک کہ میں نے ان کے بارے میں کعب احبار سے پوچھا ” قوم تبع“ اور تبع کا ذکر نہیں فرمایا کہ وہ کون تھا تو
انہوں نے کہا کہ تبع ایک بادشاہ تھا اور اس کی قوم کاہن تھی اور اس کی قوم میں کچھ
لوگ اہل کتاب سے بھی تھے اور کاہن اہل کتاب پر
حملہ کرتے تھے۔ اور ان کی تابعداری کرنے والے کو قتل کرتے تھے اہل کتاب نے تبع سے
کہا کہ وہ لوگ ہم کو جھٹلاتے ہیں تو تبع نے کہا اگر تم سچے ہو تو ایک قربانی پیش
کرو تم میں سے جو افضل ہوگا اس کی قربانی کو آگ کھاجائے گی اہل کتاب اور کاہنوں نے
قربانی پیش کی آگ آسمان سے نازل ہوئی اہل کتاب کی قربانی کو کھاگئی تبع نے اہل
کتاب کی تابعداری کی اور اسلام لے آیا اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کو قوم کا قرآن
مجید میں ذکر فرمایا اور تبع کا ذکر نہیں فرمایا۔
حضّور صلّی اللّہ عَلیہ وَسّلم سے ایک ہزار سال
پیشتر یمن کا بادشاہ تُبّع حمیری تھا، ایک مرتبہ وہ اپنی سلطنت کے دورہ کو نکلا،
بارہ ہزار عالم اور حکیم اور ایک لاکھ بتیس ہزار سوار، ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ
اپنے ہمراہ لئے ہوئے اس شان سے نکلا کہ جہاں بھی پہنچتا اس کی شان و شوکت شاہی
دیکھ کر مخلوق خدا چاروں طرف نظارہ کو جمع ہو جاتی تھی ، یہ بادشاہ جب دورہ کرتا
ہوا مکہ معظمہ پہنچا تو اہل مکہ سے کوئی اسے دیکھنے نہ آیا۔ بادشاہ حیران ہوا اور
اپنے وزیر اعظم سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس شہر میں ایک گھر ہے جسے
بیت اللہ کہتے ہیں، اس کی اور اس کے خادموں کی جو یہاں کے باشندے ہیں تمام لوگ بے
حد تعظیم کرتے ہیں اور جتنا آپ کا لشکر ہے اس سے کہیں زیادہ دور اور نزدیک کے لوگ
اس گھر کی زیارت کو آتے ہیں اور یہاں کے باشندوں کی خدمت کر کے چلے جاتے ہیں، پھر
آپ کا لشکر ان کے خیال میں کیوں آئے۔ یہ سن کر بادشاہ کو غصہ آیا اور قسم کھا کر
کہنے لگا کہ میں اس گھر کو کھدوا دوں گا اور یہاں کے باشندوں کو قتل کروا دوں گا،
یہ کہنا تھا کہ بادشاہ کے ناک منہ اور آنکھوں سے خون بہنا شروع ہو گیا اور ایسا
بدبودار مادہ بہنے لگا کہ اس کے پاس بیٹھنے کی بھی طاقت نہ رہی اس مرض کا علاج کیا
گیا مگر افاقہ نہ ہوا، شام کے وقت بادشاہ ہی علماء میں سے ایک عالم ربانی تشریف
لائے اور نبض دیکھ کر فرمایا ، مرض آسمانی ہے اور علاج زمین کا ہو رہا ہے، اے
بادشاہ! آپ نے اگر کوئی بری نیت کی ہے تو فوراً اس سے توبہ کریں، بادشاہ نے دل ہی
دل میں بیت اللہ شریف اور خدام کعبہ کے متعلق اپنے ارادے سے توبہ کی ، توبہ کرتے
ہی اس کا وہ خون اور مادہ بہنا بند ہو گیا، اور پھر صحت کی خوشی میں اس نے بیت
اللہ شریف کو ریشمی غلاف چڑھایا اور شہر کے ہر باشندے کو سات سات اشرفی اور سات
سات ریشمی جوڑے نذر کئے۔
پھر یہاں سے چل کر مدینہ منورہ پہنچا تو ہمراہ
ہی علماء نے جو کتب سماویہ کے عالم تھے وہاں کی مٹی کو سونگھا اور کنکریوں کو
دیکھا اور نبّی آخر الزمّاں صلّی اللہ علیہِ وَسّلم کی ہجرت گاہ کی جو علامتیں
انھوں نے پڑھی تھیں ، ان کے مطابق اس سر زمین کو پایا تو باہم عہد کر لیا کہ ہم
یہاں ہی مر جائیں گے مگر اس سر زمین کو نہ چھوڑیں گے، اگر ہماری قسمت نے یاوری کی
تو کبھی نہ کبھی جب نبّی آخر الزمّاں صلّی اللہ علیہ وسّلم تشریف لائیں گے ہمیں
بھی زیارت کا شرف حاصل ہو جائے گا ورنہ ہماری قبروں پر تو ضرور کبھی نہ کبھی ان کی
جوتیوں کی مقدس خاک اڑ کر پڑ جائے گی جو ہماری نجات کے لئے کافی ہے۔
یہ سن کر بادشاہ نے ان عالموں کے واسطے چار سو
مکان بنوائے اور اس بڑے عالم ربانی کے مکان کے پاس حضور کی خاطر ایک دو منزلہ عمدہ
مکان تعمیر کروایا اور وصیت کر دی کہ جب آپ صلّی اللہ علیہ وسّلم تشریف لائیں تو
یہ مکان آپ کی آرام گاہ ہو اور ان چار سو علماء کی کافی مالی امداد بھی کی اور کہا
کہ تم ہمیشہ یہیں رہو اور پھر اس بڑے عالم ربانی کو ایک خط لکھ دیا اور کہا کہ
میرا یہ خط اس نّبی آخر الزماں صلّی اللہ علیہِ وسّلم کی خدمت اقدس میں پیش کر دینا
اور اگر زندگی بھر تمھیں حضور کی زیارت کا موقع نہ ملے تو اپنی اولاد کو وصیت کر
دینا کہ نسلاً بعد نسلاً میرا یہ خط محفوظ رکھیں حتٰی کہ سرکّار ابد قرار صلّی
اللہ علیہِ وسّلم کی خدمت میں پیش کیا جائے یہ کہہ کر بادشاہ وہاں سے چل دیا۔
وہ خط نبّی کریم صلّی اللہ علیہِ وسّلم کی خدمت
اقدس مین ایک ہزار سال بعد پیش ہوا کیسے ہوا اور خط میں کیا لکھا تھا ؟سنئیے اور
عظمت حضّور صلّی اللہ علیہِ وسّلم کی شان دیکھئے:
”کمترین مخلوق تبع اول خمیری کی طرف سے شفیع سیّد المرسلین مُحمّد
رسّول اللہ صلّی اللّہ علیہِ وسّلم اما بعد: اے اللّہ کے حبیّب! میں آپ پر ایمان
لاتا ہوں اور جو کتاب اپ پر نازل ہو گی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں اور میں آپ کے
دین پر ہوں، پس اگر مجھے آپ کی زیارت کا موقع مل گیا تو بہت اچھا و غنیمت اور اگر
میں آپ کی زیارت نہ کر سکا تو میری شفاعت فرمانا اور قیامت کے روز مجھے فراموش نہ
کرنا، میں آپ کی پہلی امت میں سے ہوں اور آپ کے ساتھ آپ کی آمد سے پہلے ہی بیعت
کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللّہ ایک ہے اور آپ اس کے سچّے رسّول ہیں۔“
شاہ یمن کا یہ خط نسلاً بعد نسلاً ان چار سو
علماء کے اندر حرزِ جان کی حثیت سے محفوظ چلا آیا یہاں تک کہ ایک ہزار سال کا عرصہ
گزر گیا، ان علماء کی اولاد اس کثرت سے بڑھی کہ مدینہ کی آبادی میں کئی گنا اضافہ
ہو گیا اور یہ خط دست بدست مع وصیت کے اس بڑے عالم ربانی کی اولاد میں سے حضرت ابو
ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور آپ نے وہ خط اپنے غلام خاص ابو لیلٰی
کی تحویل میں رکھا اور جب حضّور صلّی اللہ علیہ وسّلم نے مدینہ ہجرت فرمائی اور
مدینہ کی الوداعی گھاٹی مثنیات کی گھاٹیوں سے آپ کی اونٹنی نمودار ہوئی اور مدینہ
کے خوش نصیب لوگ محبوب خدا کا محبوب خدا کا استقبال کرنے کو جوق در جوق آ رہے تھے
اور کوئی اپنے مکانوں کو سجا رہا تھا تو کوئی گلیوں اور سڑکوں کو صاف کر رہا تھا
اور کوئی دعوت کا انتظام کر رہا تھا اور سب یہی اصرار کر رہے تھے کہ حضّور صلّی
اللہ علیہ وسّلم میرے گھر تشریف لائیں۔ حضّور صلّی اللّہ علیہ وسّلم نے فرمایا کہ
میری اونٹنی کی نکیل چھوڑ دو جس گھر میں یہ ٹھہرے گی اور بیٹھ جائے گی وہی میری
قیام گاہ ہو گی، چنانچہ جو دو منزلہ مکان شاہ یمن تبع خمیری نے حضّور کی خاطر
بنوایا تھا وہ اس وقت حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی تحویل میں تھا ، اسی
میں حضّور صلّی اللہ علیہ وسّلم کی اونٹنی جا کر ٹھہر گئی۔ لوگوں نے ابو لیلٰی کو
بھیجا کہ جاؤ حضّور کو شاہ یمن تبع خمیری کا خط دے آو جب ابو لیلٰی حاضر ہوا تو
حضّور نے اسے دیکھتے ہی فرمایا تو ابو لیلٰی ہے؟ یہ سن کر ابو لیلٰی حیران ہو گیا۔
حضّور نے فرمایا میں محّمد رسّول اللہ ہوں، شاہ یمن کا جو خط تمھارے پاس ہے لاؤ وہ
مجھے دو چنانچہ ابو لیلٰی نے وہ خط دیا، حضّور نے پڑھ کر فرمایا، صالح بھائی تُبّع
کو آفرین و شاباش ہے۔
سبحان اللہ!) صلّی اللہ علیہ وسّلم
بحوالہ کُتب: (میزان الادیان)(کتاب
المُستظرف)(حجتہ اللہ علے العالمین)(تاریخ ابن عساکر)
نوٹ کمنٹ میں محّمد صلّی اللہ علیہِ وَسّلم پورا
لکھیں
No comments:
Post a Comment