The Advantages of Women Education - Roshan Worlds

knowledge islamic quotes articles poims islamic education tips and tricks apps and games for pc android apps latest news for information technology

google Search

Tuesday, June 23, 2020

The Advantages of Women Education

عورتوں کے لیے تعلیم کی اہمیت وضرورت

The Advantages of Women Education


عورتوں کے لیے تعلیم کی اہمیت وضرورت

                                                معاشرے میں عورت کی حیثیت کو ہمیشہ کمزور صنف مانا گیا اورعورت نے بھی سرخم تسلیم کرکے اس حقیقت کو قبول کرلیا جب کہ معاملہ اس کے برعکس ہے،دراصل صنف نازک ہی طاقت کا سرچشمہ ہے اور اس کی کئی حیثیتیں ہیں۔
                                                ماں:عورت ماں ہوتی ہے ، تو اتنی عظیم طاقت اس کے پاس ہے کہ وہ مرد کو جنم دیتی ہے ،اس طرح خالق دوجہاں نے ماں کو طاقت دی ہے کہ وہ تخلیق کا کام کرسکے ۔وہ زمانے کے سردوگرم سے اپنے بچے کی حفاظت بھی کرتی ہے اور اس طرح اپنی ساری قوت صرف کرکے اپنے بچے کو اپنا دودھ پلا کر ، اپنی گود میں سلا کر اور اس کی صحت کا ہر طرح سے خیال رکھ کر اس کی پرورش کرتی ہے۔ کیا یہ مرد جو دولت کما کر لاتا ہے ، اس میںیہ طاقت ہے کہ وہ اپنے بچے کے لیے سب کچھ کرسکے ؟
                                                بیٹی: ایک بیٹی اپنے والدین کے لیے ایسا سہارا ہے جس کے نہ ہونے سے والدین بڑھاپے میں بے یارومددگارہوجاتے ہیں۔بیٹے کے والدین پیری میں اکثر یہ افسوس کرتے ہیں کہ کاش ہم بیٹی کی نعمت سے محروم نہ ہوتے ۔ ایک بیٹی بچپن سے جوانی تک یہاں تک کہ شادی ہوجانے کے باوجود قدم قدم پر والدین کا سہارابنتی ہے ۔ وہ ماں کے ساتھ گھریلو کام کاج میں ہاتھ بٹاتی ہے ، چھوٹے بھائی بہنوں کی پرورش میں مدد کرتی ہے ، باپ تھکا ماندہ گھر لوٹتا ہے تو اس کا خیر مقدم کرتی ہے اور اپنی بساط بھر اس کے کام آتی ہے ۔ اور آج کی بیٹی تو اس سے بھی کہیں آگے والدین کے لیے مالی سہارا بنتی ہے ۔اگر گھر کی آمدنی کم ہے تو وہ مالی طور پر بھی مدد کرنے میں پیچھے نہیںرہتی ۔وہ پڑھائی کے دوران ٹیوشن وغیرہ کرکے گھر میںآمدنی میں اضافہ کرتی ہے اور ان پر بوجھ نہیں بنتی۔
                                                بیوی:شریک حیات کی حیثیت سے ایک عورت وہ کارہائے نمایاں انجام دیتی ہے ،جو شاید ہی کبھی مرد بحیثیت شوہر کے انجام دے سکے، وہ بیوی بن کر مرد کی کمزوریوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے، نہ صرف گھر گر ہستی سنبھالتی ہے بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر بعض اوقات شوہر کی آمد نی میں اضافہ کے لیے خود ملازمت وغیرہ کرتی ہے ۔ بچوں کی پرورش اس طرح کرتی ہے کہ کبھی کبھی تو شوہر کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ اس کے بچے کس طرح اس مقام تک پہنچ گئے۔ شوہر کے بیمار پڑنے پر عورت دن رات ایک کرکے اس کی تیمارداری کرتی ہے۔
                                                بہن:عورت ایک بہن کی صورت میں بھی بھائی کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ دسترخوان پر بہن اپنے منہ کا نوالا بھی اپنے بھائی کے لیے رکھ دیتی ہے۔خود اپنا دل مار کر بھائی کو اچھا کپڑا پہننے کا موقع دیتی ہے کہ اسے گھر سے باہر نکلنا ہوتا ہے ۔ اپنی پڑھائی سے زیادہ بھائی کی تعلیم پر توجہ دیتی ہے ۔ بھائی کو جذباتی سہارادینے میں بھی بہن ہمیشہ آگے آگے رہتی ہے ۔ بہن کے آنچل میں منہ چھپا کر اکثر بھائی اپنے سارے غم ہلکے کرلیتے ہیں۔
                                                ان تمام حیثیتوں کے علاوہ بھی عورت بحیثیت دفتری کارکن یا افسر، اپنی ڈیوٹی ہمیشہ مرد کی نسبت زیادہ اچھی طرح انجام دیتی ہے ۔ اگر وہ ایک معلمہ ہے تو بچے کو زیادہ اچھی طرح پڑھاتی ہے۔ عورت کی شفقت اور ممتا نے اس میدان میں اسے مرد سے کہیں آگے کا مقام دلایا ہے۔
                                                ’’ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔‘‘یہ کہاوت بہت مشہور ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بہت سارے تجربات اور مطالعہ کے بعد یہ کہاوت وجود میں آئی ۔ آدم علیہ السلام نے جب تنہائی سے گھبرا کر ایک ساتھی کی تمنا کی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو عورت کی شکل میں ایک ایسا ساتھ عطا کیا ، جو ان کے لیے ہر صورت میں ایک مکمل ساتھی ثابت ہوا۔اس کے باوجود مرد نے کبھی عورت کی قدر نہیں کی اور اسے ہمیشہ اپنا غلام سمجھا۔ اسلام نے عورتوں کو وہ رتبہ عطا کیا جو کسی اور مذہب نے نہیں دیا ہے ۔ اس کے باوجود مسلمانوں میں بھی عورتوں کی ناقدری اور ان پر ظلم وستم کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ مرد اس سے اپنی ناجائز وناجائز بات منوانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے ساتھ نا انصافی کرتے ہیں ، اس طرح وہ خدا کی بخشی ہوئی اس نعمت کی ناقدری ہی کرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مرد عورت کی طاقت کو پہچانیں اور ان کو وہ مقام دلائیں جو اسلام نے انہیں عطا کیا ہے۔
                                                مسلم سماج میں لڑکیاں بہ نسبت لڑکوں کے مختلف قسم کی پابندیوں کی شکار ہیں۔شریعت نے ان پر جو پابندیاں عائد کی ہیں وہ بالکل درست ہیں اور وہ ان پر عمل پیرا ہوکر کامیابی سے ہمکنار ہوسکتی ہیں۔اس کے برعکس حالات کے مدنظر لوگوں کا لڑکیوں کے تئیں پرانا شیوہ اختیار کرنا کہاں تک درست ہے؟
                                                لڑکے کسی حد تک اپنے مستقبل کو اپنے تصور میں لاسکتے ہیں۔لیکن لڑکیوں کے لیے شادی سے پہلے اپنے مستقبل کا تصور کرنا ایک نہایت ہی مشکل امر ہے۔کیونکہ ایک لڑکی یہ نہیں جانتی کہ اس کی آنے والی زندگی کسی گائوں ، دیہات یا کسی شہر میں گزرے گی،دیہات یا گائوں کے مقابلے میں شہر میں پڑھے لکھے لوگوں کی کثرت ہے، جس کی وجہ سے شہروں میں شادی سے پہلے لڑکیاں کسی طرح کی پابندیوں کا شکار نہیں ہوتیں اور اپنے بہتر مستقبل کے بارے میں بآسانی غوروفکر کرلیتی ہیں۔اس کے برخلاف گائوں دیہات میں والدین ناقص علم کی وجہ سے اپنے گھر کی لڑکیوں کو پرانے رسم ورواج کی زنجیر میں جکڑے رہتے ہیں، مثلاًلڑکیوں کی پڑھائی کو فضول سمجھنا، گھر سے باہر آنے جانے پر پابندی لگانا وغیرہ۔ بہرحال اسے والدین کی لاپرواہی نہیں کہہ سکتے بلکہ ان سب باتوں سے ماں باپ کا اپنی اولاد کے تئیں شفقت ومحبت کا فطری جذبہ عیاں ہوتا ہے ۔ گائوں دیہات کے والدین کا اپنی لڑکیوں کے تعلق سے قدیم طرز کا یہ رویہ اپنی جگہ درست ہوسکتا ہے۔لیکن کیا یہ رویہ ان بچیوں کو اپنے تعلق سے فیصلہ کرنے میں معاون ومددگار ثابت ہوسکتا ہے؟ جی نہیں، بلکہ اس طرح ان کی خود اعتمادی کی دیوار کھوکھلی پڑجائے گی اور وہ کمزور ہوجائیں گی ۔ اور یہی کمزوریاں شادی کے بعد سسرال میں ہونے والے ظلم وستم کا سبب بنتی ہیں اور ظاہر ہے کہ بچی پر ڈھائے جانے والے مظالم سے ماں باپ بھی صدموں سے دوچار ہوتے ہیں۔اس وقت انہیں خیال آتا ہے کاش ہم نے اپنی بچی کو پڑھایا ہوتا توآج یہ دن نہ دیکھنا پڑتااور کوئی بلاوجہ ہماری بچی پر ظلم ڈھانے کی کوشش نہ کرتا ۔ لیکن افسوس اس وقت کا پچھتانا کسی کام نہیں آتا ہے۔
                                                گائوں اور دیہات کے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی لڑکیوں کی تعلیم کی طرف توجہ دیں اور فرسودہ رسم ورواج کی بندشوں سے انھیں آزاد کریں تاکہ وہ اس نئے دور میں، ادب کے دائرے میں رہ کر دوسروں کے مقابل کھڑی رہ سکیں اور اپنا دفاع کرسکیں۔
The Advantages of Women Education

                                                ہم سب ہی جانتے ہیں کہ آئے دن گائوں کی لڑکیاں سسرال والوں کے ظلم کا شکار ہوتی رہتی ہیں۔ہر چند کہ یہ معاملہ شہروں میں بھی پیش آتا ہے لیکن یہاں ان کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے کئی تنظیمیں موجود ہیں البتہ گائوں میں اگر کسی عورت پر ظلم ہوتا ہے تو گائوں میں اسے انصاف دلانے والا نہ کوئی ادارہ موجود ہے اور نہ تنظیمیں اور نہ ہی خود اپنا حق حاصل کرپاتی ہیں۔ اس ظلم سے بچنے کا بہترین ہتھیار تعلیم ہے۔ جس سے ہرایک کو استفادہ کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائیں اور خود کفیل ہوجائیں ۔ لڑکی ایک بار خودکفیل ہوگئی تو اسے مستقبل کے تعلق سے اتنی فکر نہیں رہ جاتی بلکہ وہ اپنے مستقبل کو خود سنوارنے لگتی ہے۔
                                                گائوں کی لڑکیوں میں تعلیم کا رجحان بڑھانے کے لیے شہر کے پڑھے لکھے طبقات کی عورتوں کو چاہیے کہ وہ سب متحد ہو کر اپنی مصروفیات سے تھوڑا ساوقت نکال کر اپنے اطراف کے گائوں میں خواتین کو تعلیم سے روشناس کرائیں اور ان میںتعلیم کے تئیں بیداری پیدا کریں۔
عورت کی اصل درسگاہ اس کی سسرال ہے
                                                جس طرح ایک شخص کے عادات واطوار اور خیالات کی ترتیب کسی مکتب یا تربیتی ادارے میں ممکن ہوتی ہے، بالکل اسی طرح ایک عورت کو زندگی بہترین ڈھنگ سے گزارنے اور معاملات سے بہتر طور پر نمٹنے کا ہنر سسرال میں سیکھنے کو ملتا ہے،عورت کا اصل گھر اس کا سسرال یااس کے شوہر کا گھر ہے۔ اسی گھر میں وہ زندگی کی ہر اونچ نیچ کا مقابلہ کرنا سیکھتی ہے۔ جب تک ایک لڑکی اپنے ماں باپ کے گھر یعنی میکے میں ہوتی ہے، لاڈ پیار کے باعث بہت سی باتون پر توجہ مرکوز کرنے کی اسے ترغیب نہیں ملتی ۔ یہ بے فکری کی زندگی ہوتی ہے جس کو وہ زیادہ سے زیادہ انجوائے کرنا چاہتی ہے۔ والدین کے گھر میں رہ کر کوئی بھی لڑکی اپنی اصل زندگی یعنی ازدواجی زندگی کے بارے میں کچھ نہیںسیکھ پاتی۔ازدواجی زندگی کے اسرارورموز شادی کے بعد سسرال میں ہی کھلتے ہیں۔ والدین اپنی بچی کو زیادہ سے زیادہ سکھ وآرام دینا چاہتے ہیں۔ شادی سے پہلے لڑکی اپنے گھر میںہر لمحے اور ہر پل کا لطف اٹھاتی ہے، اس زندگی کو پریشانیوں اور الجھنوں کی نذر کرنا نہیں چاہتی ۔ یہی سبب ہے کہ زندگی کی بہت سی بنیادی باتوں کی جانب وہ دھیان نہیں دیتی اور ان باتوں کا علم اسے شادی کے بعد ہی ہوتا ہے۔
                                                عورت کے لیے سسرال مثالی درس گاہ ہی نہیں ہوتی بلکہ ایک امتحان گاہ بھی ہوتی ہے اور ساس اس درسگاہ اور امتحان گاہ کی سربراہ ہوتی ہے۔ ساس کی سمجھداری اور معاملہ فہمی پر پورے گھر کی خوشیوں اور سکون کا دارومدار ہے ۔اگر ایمان داری اور غیر جانب داری کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ بیشتر ساسیں محدود ذہنیت اور بہت سی باتوں میںانا کا مظاہر ہ کرتی ہیں، جس کے باعث بہوئوں سے ان کی چپقلش رہتی ہے اور اچھا خاصا گھر جہنم میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
The Advantages of Women Education

                                                یہ درست ہے کہ معاملات میں قصور وار صرف ساس ہی نہیں ہوتی ، مگر یہ سچ ہے کہ بیشتر ساسیں انتہائی استحقاق پسند ہوتی ہیں۔ وہ بیٹے اور بہو دونوں کو مٹھی میں رکھنا چاہتی ہیں اور یہیں سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ بیٹا اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنا چاہتا ہے اور بہو کی آنکھوں میں بھی خود مختاری زندگی کے سپنے ہوتے ہوتے ہیں۔ایسے میں کسی اور کی مرضی کا پابند ہونا ان دونوں کو اچھا نہیں لگتا۔
                                                زیادہ تر مائیں اپنے بیٹوں کی شادی کے لیے بے تاب دکھائی دیتی ہیں۔یہاں تک کہ وہ اپنے بیٹے کی شادی کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار رہتی ہیں۔ بہو کے لیے زیور تیار کرنے کی غرض سے وہ اپنا زیور بیچ ڈالتی ہیں یا اپنا ہی زیور بہو کو دے دیتی ہیں۔ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شادی کے کچھ ہی دنوں کے بعد بہو کو غلام کیوں سمجھنے لگتی ہیں اور بہو کی خاطر سب کچھ قربان کرنے کا وہ جذبہ سرد کیوں پڑجاتا ہے؟بعض ساسیں اتنی تنگ نظر اور بد مزاج ہوتی ہیں کہ بہو کو ہر وقت جہیز کم لانے کے طعنے دیتی ہیں ، ایسے میں بہو کوئی چیز مانگ لے تو ساس کی طر ف سے ٹکا سا جواب ملتا ہے کہ ’’ اپنی ماں سے کیوں نہیں کہا، وہ تمہیں جہیز میں دے دیتیں یا اپنے ماں باپ سے کیوں نہیں مانگتیں۔‘‘
                                                ہم اس حقیقت کو تسلیم نہ کریں تو صورتحال بدلے گی نہیں کہ آج ہمارے سماج کے بیشتر گھرانوں میں ساس اور بہوکے مابین خلیج بہت زیادہ ہے۔ ان مسائل کے حل کی ایک صورت یہ ہے کہ ان سے بھاگنے کے بجائے ان کا سامنا کیا جائے ۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے خاص طور پر مرد کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ ان حالات میں ماں ، بیوی دونوں کا موقف سننے کی ضرورت ہے۔ کسی ایک کی بات سن کر دوسرے سے فوری ناراضگی یا برہمی کا اظہار غیر دانش مندانہ رویہ ہے۔ اس سے نہ تو انصاف ہوگا اور نہ ہی معاملات حل ہوں گے ، لیکن یہ بات افسوس ناک ہے کہ ہمارے یہاں عام طور پر مردوں کا رویہ یک طرفہ ہوجاتا ہے۔ ماں کو سمجھانے کے بجائے وہ سار ا غصہ بیوی پر نکالتے ہیں یا بیوی کی ناراضگی کے خوف سے اس کی غلط اور ناپسندیدہ باتوں کو بھی خاموشی سے برداشت کرلیتے ہیں جن کا بعض اوقات بہوئیں ناجائز فائدہ اٹھاتی ہیں۔
                                                ہر ماں چاہتی ہے کہ اس کی بیٹی جس گھر میں جائے راج کرے، حالانکہ یہ راج کرنے والی سوچ درست نہیں ہے راج کرنے یا کسی کا راج قبول کرنے سے معاملات ہمیشہ بگڑتے ہیں ۔ گھر یلو معاملات حکم چلانے یا کسی کا بے جا حکم ماننے سے نہیں چلائے جاسکتے ، کیونکہ یہ دوطرفہ معاملہ ہوتاہے۔ اس میں کبھی اپنی بات منوائی جاتی ہے اور کبھی دوسروں کی باتوں پر سرتسلیم خم کیاجاتا ہے ۔ اگر والدین اس بات کے خواہشمند ہیں کہ ان کی بیٹی کو زندگی میں کوئی دکھ یا کسی مصیبت کا سامنا نہ کرنا پڑے تو ضروری ہے کہ وہ داماد منتخب کرتے وقت اس کے گھر والوں کے بارے میں بھی معلومات حاصل کریں۔
                                                دوسری طرف بہوئوں پر یہ فرض ہے کہ سسرال کے ہر فرد، بالخصوص ساس کو اپنی ماں ی طرح سمجھیں ۔ ان کی کوشش ہونی چاہیے کہ شوہر کی پوری توجہ اپنی طرف مرکوز کرنے کے بارے میں سوچنے کے بجائے سب کو اپنا سمجھے اور سب کے ساتھ اچھا سلوک روارکھنے کی کوشش کرے۔ دوسری جانب ہر ساس کایہ فرض بنتا ہے کہ وہ بہو کو بیٹی سے بڑھ کر نہیں تو بیٹی کے برابر ضرور سمجھے ۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ گھر میں توازن کی فضا پید ا ہوگی اور کامیاب زندگی کا توازن ہی چاہتی ہے ۔ ہر گھر میں معاملات نشیب وفراز کے مراحل سے گزرتے ہیں، ان سے گزر کر ہی زندگی بنتی ہے۔
                                                اگر ساس ضرورت سے زیادہ انا پرستی اور بہو غیر ضروری ہٹ دھرمی کا مظاہر ہ کرے تو تعلقات میں کشیدگی بڑھتی رہے گی۔ دونوں انسان ہیں، دونوں کو اصولوں میں لچک پیدا کرنی ہوگی، معاملات کو درست ڈھنگ سے چلانے کے لیے بہت سی خواہشات ترک کرنا پڑیں گی اور اپنے نام نہاد دائرے سے باہر نکلنا ہوگا، تب کہیں جاکر یہ مسائل ختم ہوں گے ۔

No comments:

close