روزے کے آداب
مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبد
الحمید خان سواتیؒ نے فرمایا۔
’’ادب دو قسم کا ہوتا
ہے، ایک اخلاقی اور دوسرا تعزیری۔ ہم لوگ اخلاقی ادب ہی سکھاتے ہیں کہ ماہ رمضان
میں سرعام دن کے وقت کھانے پینے یا سگریٹ نوشی سے اجتناب کیا جائے، ایسا کرنا بے
ادبی اور گستاخی ہے۔ ایک اسلامی ملک میں تو اس بات کا خاص اہتمام ہونا چاہئے تاکہ پتہ
چلے کہ مسلمان اس ماہِ مبارک کا ادب و احترام بجا لاتے ہیں۔ ہاں اگر کوئی شخص
بیمار ہے یا کوئی دوسری مجبوری ہے تو سرعام کھانے پینے کی بجائے گھر میں بیٹھ کر
پردے میں کھائے پئے۔ سرعام کھانا پینا تو بے ادبی اور گستاخی ہے۔ البتہ ایسی بے
ادبی کرنے والوں سے نپٹنا حکومت کا کام ہے جو روزے کی گستاخی کرنے والوں پر تعزیر
لگائے تا کہ کوئی مسلمان روزے کی بے ادبی نہ کرے۔ یہ تعزیری ادب ہو گا۔
بے ادبی کی سزا:
ہمارے ہاں دینی مدارس میں پڑھائی جانے
والی ’’نور الایضاح‘‘ نامی فقہ کی پہلی کتاب ہے جو چھوٹے بچوں کو پڑھائی جاتی ہے،
اس میں عبادات یعنی طہارت، نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج وغیرہ کا ذکر ہے۔ یہ بہت عمدہ
کتاب ہے جس کے مصنف بڑے فیقہہ اور محدث تھے۔ یہ کتاب آج سے چار سو سال پہلے لکھی
گئی تھی جب دنیا میں مسلمانوں کی سلطنتیں موجود تھیں۔ اس کتاب کے مصنف کتاب میں
لکھتے ہیں تارک الصلوٰۃ عمدًا کسلًا یعنی جان بوجھ کر محض سستی کی بنا پر نماز کے
تارک پر تعزیر لگائی جائے اور جسمانی سزا دی جائے۔ یہ سزا دینا میرا اور آپ کا کام
نہیں بلکہ حکومت، انتظامیہ، کوتوال شہر یا پولیس کا کام ہے کہ وہ ایسے شخص کی
چھترول کرے۔ فرماتے ہیں کہ ایسی مار ماری جائے کہ متعلقہ شخص کے جسم سے خون بہہ
نکلے۔ مقصد یہ ہے کہ لوگ نماز، روزے کی بے حرمتی کی جرأت نہ کر سکیں۔ خود حضرت عمر
بن الخطابؓ نے اپنے دور خلافت میں تمام صوبائی گورنروں کو سرکلرجاری کیا تھا اِنّ
من اھم امور کم عندی الصلوٰۃ یعنی تمہارے کاموں میں سے میرے نزدیک اہم ترین کام
نماز کا نظام قائم کرنا ہے۔ جس نے نماز کی حفاظت کی وہ دین کے باقی احکام کی بھی
حفاظت کرے گا اور جس نے نماز ہی کو ضائع کر دیا وہ باقی احکام دین کو بھی ضائع ہی
کرے گا۔
ایک صاحب نے مجھے خط لکھا ہے کہ حکومت
نے روزے کے احترام کے بارے میں آرڈیننس جاری کیا ہے جو گزشتہ رمضان المبارک سے
نافذ العمل ہے اور اس پر کہیں دکھاوے کیلئے کچھ تھوڑا بہت عمل بھی ہوجاتا ہے، مگر
صحیح معنوں میں کما حقہٗ اس آرڈیننس پر عمل در آمد نہیں ہو رہا۔ اس قانون پر عمل
درآمد اس وقت ممکن ہے جب انتظامیہ اور پولیس والے خود اس کی پابندی کریں گے، اس کے
بغیر اس قانون پر عمل در آمد کرانا غیر فطری بات ہے۔ پہلے پولیس، انتظامیہ، ڈپٹی
کمشنر اور وزراء اور سول سروس والے خود روزہ رکھیں، خود نمازی بن جائیں تو دوسرے
بھی اس کی پابندی کریں گے، ورنہ نہیں۔ جو سمجھتا ہے کہ محض آرڈیننس کے ذریعے کسی
کی پابندی کرائی جا سکتی ہے تو وہ غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ اگر کسی شخص کو دن میں
شربت پیتے ہوئے پکڑ لیا اور اُدھر پکڑنے والے سپاہی نے بھی شربت پی لیا تو روزے کی
کیسے پابندی ہو گی؟ جب تک انتظامیہ والے خود اس قانون کی پابندی نہیں کریں گے، وہ
دوسروں سے پابندی نہیں کرا سکتے۔
تو امام شرنبلالیؒ اپنی کتاب میں
لکھتے ہیں کہ جو عمداً محض سستی کی بنا پر نماز ترک کرے اُس کو اتنا پیٹا جائے کہ
اُس کے جسم سے خون نکل آئے۔ نیز اُس کو قید میں ڈال دیا جائے یہاں تک کہ وہ نماز
پڑھنے لگے۔ امام صاحب فرماتے ہیں وکذا لِتارک الصوم فی رمضان اور ماہ رمضان میں
بلا عذر روزہ ترک کرنے والے کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہونا چاہئے۔ جو شخص بیمار
ہے، نہ مسافر ہے اور نہ ضعیف ہے بلکہ ہٹا کٹہ تندرست آدمی ہو کر روزہ ترک کرتا ہے
اُس کو بھی اتنی مار مارنی چاہئے کہ وہ لہو لہان ہو جائے۔ پھر قید میں ڈال دیا
جائے حتیٰ کہ وہ روزہ رکھنے پر آمادہ ہو جائے۔ گویا تعزیری ادب کرانا اسلامی حکومت
کی ذمہ داری ہے۔
مرتد کی سزا:
دسویں صدی میں مصر میں اسلامی حکومت
تھی جب مصنف نے یہ مسئلہ لکھا، البتہ روزہ خور کو قتل کرنے کا حکم نہیں ہے اور اگر
وہ روزے کے حکم کو تسلیم نہیں کرتا تو اُسے مرتد کی سزا دی جائے گی جو کہ سزائے
موت ہے۔ اسی طرح اگر کوئی مسلمان نماز یا روزے کے ساتھ تمسخر کرتا ہے تو اُس پر
بھی مرتد کا حکم جاری ہو کر سزائے موت دی جائے گی، ایسے شخص کو پہلے توبہ کرنے کا
موقع دیا جائے۔ اس کو علماء کی خدمات مہیا کی جائیں تاکہ اگر اُس شخص کو کوئی شبہ
ہو تو علماء کرام دور کرنے کی کوشش کریں۔ اگر پھر بھی وہ ارتداد پر قائم رہتا ہے
تو اس کو موت کی سزا دی جائے گی۔ ظاہر ہے کہ روزے کا ادب و احترام اس سزا کے بغیر
ممکن نہیں ہے۔
روزہ خور شرابی کی سزا:
ملا علی قاریؒ بھی دسویں صدی کے محدث
اور فقیہ ہوئے ہیں جنہوں نے ’’مرقاۃ‘‘ کے نام سے مشکوٰۃ شریف کی شرح بھی لکھی ہے۔
عراق کے باشندے تھے مگر مکہ میں رہتے تھے، انہوں نے اپنی کتاب کی ساتویں جلد میں
یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت علیؓ کے دورِ خلافت میں اُن کے پاس نجاشی نامی ایک
شاعر کو لایا گیا جس نے ماہ رمضان میں دن دیہاڑے شراب پی ہوئی تھی۔ شراب تو ویسے
ہی ایک مسلمان کیلئے حرام ہے، نہ صرف شراب کا پینا حرام ہے بلکہ اس کا کشید کرنا
اور خرید و فروخت کرنا بھی حرام ہے۔ حضرت علیؓ نے اُس شاعر کے مقدمہ کا فیصلہ خود
کیا۔ اُس سے پوچھ گِچھ کے بعد جب اس کی شراب نوشی ثابت ہو گئی تو امیر المؤمنین نے
اُس شرابی کو شراب نوشی کی حد کے طور پر اسی ۸۰ کوڑے مارنے کی سزا کاحکم دیا اور بیس ۲۰ کوڑے مزید کی تعزیر اس لئے لگائی کہ اُس نے رمضان المبارک میں
شراب نوشی کر کے اس ماہ مقدس کی بے حرمتی کی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر کسی شرابی کو علی
الاعلان اسی۸۰ کوڑے لگائے جائیں تو کوئی شخص شراب نوشی کی جرأت نہ کرے۔ تو
بھائی! اللہ تعالیٰ کے احکام کا احترام تو اس طریقے سے ہوتا ہے، زبانی کلامی وعظ
نصیحت سے تو لوگ ماننے کیلئے تیار نہیں ہوں گے جب تک اُن پر حد جاری نہ کی جائے،
لہٰذا یہ ضروری ہے کہ پہلے قانون نافذ کرنے والے خود اُس قانون کی پابندی کریں اور
پھر دوسرے سے پابندی کرائیں اور اگر وہ خود ہی روزہ توڑ کر رمضان المبارک کا
احترام نہ کریں تو عام لوگ اس کی پابندی کیسے کریں گے، غرضیکہ یہ حکومت کی ذمہ
داری ہے کہ روزے کے ادب و احترام کیلئے قانون کی پابندی کرائیں۔
روزے کے ساتھ تمسخر:
سید جمال الدین افغانیؒ اپنی تاریخ کی
کتاب ’’تاریخ الافغان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جب بلوچ اور مری قبائل کے لوگوں کو روزہ
رکھنے کی تلقین کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے کونسی بکری چوری کی ہے جو روزہ
رکھیں۔ بکری تو ہمارے سردار نے حضور علیہ السلام کے زمانہ میں چوری کی تھی تو آپؐ
نے اُسے مہینہ بھر کے روزے رکھنے کی سزا دی۔ اُس نے تو اپنی کارکردگی کی سزا بھگت
لی، اب ہم کیوں روزہ رکھیں؟ روزے سے بچنے کیلئے لوگوں نے اس قسم کی غلط باتیں
پھیلا رکھی ہیں اور روزے کے ساتھ تمسخر کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ روزہ تو وہ لوگ
رکھیں جن کو کھانے کیلئے کچھ نہیں ملتا، ہم کیوں روزہ رکھیں جنہیں ہر چیز میسر ہے۔
یہ کفر کی بات ہے۔ لہٰذا جب تک ایسے لوگوں کو تعزیری ادب نہیں سکھایا جاتا، یہ لوگ
روزے کا احترام نہیں کریں گے۔ اس سلسلہ میں سزا کا قانون بھی میں نے آپ کے گوش گزار
کر دیا ہے۔‘‘
No comments:
Post a Comment