درہم
و دینار کی حقیقت
امام ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ دینار دو
الفاظ پر مشتمل ہے ، دین اور نار ۔
دین کا معنٰی تو واضح ہے مذہب ، عقیدہ
وغیرہ ، اور نار کا معنٰی آگ ہے ۔
فرماتے ہیں من اخذہ بحقہ فھو دینہ ، جو
دینار کو حق اور جائز طریقے سے حاصل کرتا ہے ، وہ اس کے لیے دین بن جاتا ہے ، اور
جو اس کو باطل طریقے سے حاصل کرتا ہے ، وہ اس کے لیے آگ بن جاتا ہے ۔
گویا دینار کے لفظ میں حق و باطل دونوں
پہلو مضمر ہیں ۔ اگر کمائی حلال طریقے سے کی ہے اور جائز ضرورت پر خرچ کیا ہے تو
یہ اُس کے لیے دین بن گیا ، اور اگر اس کا الٹ ہے ، تو یہی اس کے لیے دوزخ کا باعث
بن گیا ۔
فرماتے ہیں کہ جس طرح دینار دو الفاظ کا
مجموعہ ہے ، اسی طرح درہم بھی دو الفاظ سے بنا ہے ، یعنی در اور ہم ۔ در کا معنٰی
بہانا یا زیادتی ہے ، اور ہم کا معنٰی غم ہے ۔ اسی طرح درہم کا معنٰی ہو گا غم کا
باعث یا غم کو زیادہ کرنے والا ۔
یعنی مال و دولت بظاہر بڑی پر کشش چیز ہے ،
مگر حقیقت میں یہ غم کا باعث بنتی ہے ، اس کی وجہ سے اکثر مصائب آتے ہیں یا مشکلات
میں اضافہ ہوتا ہے ۔
حضرت شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ درہم یعنی
مال و دولت ایسی چیز ہے کہ اگر میسر نہ ہو تو بھی انسان غم میں مبتلا ہوتا ہے ،
اور اگر مل جائے تب بھی ہر وقت غم و فکر میں لگا رہتا ہے کہ فلاں کام کرنا ہے ،
فلاں رہ گیا ہے “
افادات : مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبد
الحمید خان سواتیؒ
معالم العرفان فی دروس القرآن ج ۴ ص ۲۴۸
No comments:
Post a Comment