manaqib hazrat ali - Roshan Worlds

knowledge islamic quotes articles poims islamic education tips and tricks apps and games for pc android apps latest news for information technology

google Search

Saturday, April 23, 2022

manaqib hazrat ali

 


مناقب وفضائل حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت انسؓ فرماتےہیں ایک مرتبہ حضور ﷺ مسجد میں تشریف فرماتھےاورصحابہ کرامؓ آپ کےچاروں طرف بیٹھے تھےکہ اتنے میں حضرت علیؓ سامنے سے آٸےانہوں نےآ کر سلام کیا اورکھڑے ہو کر اپنے بیٹھنے کی جگہ دیکھنے لگے۔حضور ﷺاپنےصحابہ کےچہروں کو دیکھنےلگےکہ ان میں سےکون حضرت علی ؓ کو جگہ دیتا ہے۔

حضرت ابوبکرؓ حضورﷺ کی دائیں جانب بیٹھےہوٸے تھےانہوں نے اپنی جگہ سےذرا ہٹ کر کہا !

اے ابوالحسن ؓ یہاں آجاٶ اس پر حضرت علی ؓ آگےآٸےاور اس جگہ حضورﷺ اور حضرت ابوبکرؓ کےدرمیان بیٹھ گٸے۔

تقریر وخطابت میں حضرت علی مرتضی ؓ کو خداداد ملکہ حاصل تھا اور مشکل سے مشکل مسائل پر بڑے بڑے مجمعوں میں فی البدیہہ تقریر فرماتے تھے، تقریریں نہایت خطیبانہ مدلل اورمؤثر ہوتی تھیں، ؁ 339ھ میں جب امیر معاویہ ؓ نے مدافعت کی بجائے جارحانہ طریق عمل اختیار کیا تو جمعہ کے روز اپنی جماعت کو ابھارنے کے لیے جو خطبہ دیا تھا، اس سے زورتقریر اورحسن خطابی کا اندازہ ہوگا۔

أما بعد، فإن الجهاد باب من أبواب الجنة، من تركہ ألبسہ اللہ الذلة وشملہ بالصغار، وسيم الخسف وسيل الضيم، وإني قد دعوتكم إلى جهاد هؤلا القوم ليلا ونهارا وسرا وجهارا، وقلت لكم، اغزوهم قبل أن يغزوكم، فما غزي قوم في عقر دارهم إلا ذلوا واجترأ عليهم عدوهم، هذا أخو بني عامر قد ورد الأنبار، وقتل ابن حسان البكري، وأزال مسالحكم عن مواضعها، وقتل منكم رجالا صالحين، وقد بلغني انهم كانوا يدخلون بيت المرأة المسلمة والأخرى المعاهدة فينزع حجلها من رجلها، وقلائدها من عنقها، وقد انصرفوا موفورين، ما كلم رجل منهم كلما، فلو أن أحدا مات من هذا أسفا ما كان عندي ملوما، بل كان جديرا، يا عجبا من أمر يميت القلوب، ويجتلب الهم ويسعر الأحزان من اجتماع القوم على باطلهم، وتفرقكم عن حقكم، فبعدا لكم وسحقا، قد صرتم غرضا، ترمون ولا ترمون، ويغار عليكم ولا تغيرون، ويعصى اللہ فترضون، إذا قلت لكم سيروا في الشتاء قلتمكيف نغزو في هذا القر والصر وإن قلت لكم سيروا في الصيف قلتم حتى ينصرم عنا حمارة القيظ، وكل هذا فرار من الموت، فإذا كنتم من الحر والقر تفرون فأنتم واللہ من السيف أفر، والذي نفسي بيدہ، ما من ذلك تهربون، ولكن من السيف تحيدون، يا أشباہ الرجال ولا رجال، ويا أحلام الأطفال وعقول ربات الحجال، أما واللہ لوددت أن اللہ أخرجني من بين أظهركم وقبضني إلى رحمتہ من بينكم، ووددت أن لم أركم ولم أعرفكم، فقد واللہ ملأتم صدري غيظا، وجرعتموني الأمرين أنفاسا، وأفسدتم على رأيي بالعصيان والخذلان



"حمدونعت کے بعد، جہادجنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جس نے اس کو چھوڑا، خدااس کو ذلت کا لباس پہناتاہے، اوررسوائی کو شاملِ حال کرتا ہے اورذلت کا مزہ چکھایا جاتا ہے اوردشمنوں کی دست درازی میں گرفتار ہوتا ہے، میں نے تم کو شب وروز علانیہ اورپوشیدہ، ان لوگوں سے لڑنے کی دعوت دی اورمیں نے کہا کہ اس سے پہلے کہ وہ حملہ کریں میں حملہ کروں، کوئی قوم جس پر اس کے گھر میں آخر حملہ کیا جائے وہ ذلیل ورسوا ہوتی ہے اس کا دشمن اس پر جری ہوتا ہے، دیکھو کہ عامری نے انبار میں آکر ابن حسان بکری کو قتل کر دیا، تمہارے مورچوں کو اپنی جگہ سے ہٹا دیا، تمہاری فوج کے چند نیکوکار بہادروں کو قتل کرڈالا اورمجھے یہ خبر معلوم ہوئی ہے کہ وہ مسلمان اورذمی عورتوں کے گھروں میں گھسنے اوران کے پاؤں سے ان کے پازیب، ان کے گلے سے ان کے ہار اتارلیے، ایک قوم کا باطل پر اجتماع اورتمہارا امرحق سے برگشتہ ہونا کس قدر تعجب انگیز ہے جو دلوں کو مردہ کرتا ہے اورغم ورنج کو بڑھاتا ہے، تمہارے لیے دوری وہلاکت ہو تم نشانہ بن گئے ہو اور تم پر تیر برسایا جاتا ہے ؛لیکن تم خود تیر نہیں چلا سکتے تم پر غارت گری کی جاتی ہے؛لیکن تم غارت گری نہیں کرتے، خداکی نافرمانی کی جاتی ہے اورتم اس کو پسند کرتے ہو، جب تم سے کہتا ہوں کہ موسم سرما میں فوج کشی کرو تم کہتے ہوکہ اس قدر سردی اورپالے میں کس طرح لڑسکتے ہیں اور اگر کہتا ہوں کہ موسم گرما میں چلو تو کہتے ہوکہ گرمی کی شدت کم ہوجائے تب، حالانکہ یہ سب موت سے بھاگنے کا حیلہ ہے، پس تم گرمی سردی سے بھاگتے ہو تو خدا کی قسم! تلوار سے اوربھی بھاگو گے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم اس سے نہیں بھاگتے ؛بلکہ تلوار سے جان چراتے ہو، اے مرد نہیں؛بلکہ مرد کی تصویرو! اوراے بچوں اورعورتوں کی سی عقل اورسمجھ رکھنے والو، خداکی قسم میں پسند کرتا ہوں کہ خدا تمہاری جماعت سے مجھے نکال لے جائے اور (موت دے کر) اپنے رحمت نصیب کرے، میری تمنا تھی کہ تم سے جان پہچان نہ ہوتی، خدا کی قسم! تم نے میرا سینہ غیظ وغضب سے بھردیا ہے، تم نے مجھے وہ تلخیوں کے گھونٹ پلائے ہیں اورعصیان ونافرمانی کرکے میری رائے کو برباد کر دیا ہے۔" آپ کے طرفداروں کے دل اگرچہ پثر مردہ ہوچکے تھے اورقوائے عمل نے جواب دیدیا تھا تاہم اس پر جوش اورولولہ انگیز تقریرنے تھوڑی دیر کے لیے ہلچل پیداکردی اورہرطرف سے پرجوش صداؤں نے لبیک کہا۔ شریف رضی نے حضرت علی ؓ کے تمام خطبوں کو”نہج البلاغۃ”کے نام سے چار جلدوں میں جمع کر دیا ہے اوران پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے صحیح لکھا ہے کہ ان خطبوں نے ہزاروں اورلاکھوں آدمیوں کو فصیح و بلیغ مقرر بنادیا؛لیکن نہج البلاغۃ کے تمام خطبوں کا صحیح ہونا ایک مشتبہ امر ہے، کیونکہ ان میں ایسے اصلاحات وخیالات بھی ہیں جو تیسری صدی میں یونانی فلسفہ کے ترجمہ کے بعد سے عربی رائج ہوئے ہیں اور ان میں حضرت علی ؓ کی زبان سے ایسی باتیں بھی ہیں جن کو کوئی صاحب ایمان ان کی طرف منسوب نہیں کرسکتا۔

حضرت عاٸشہ صدیقہ ؓ نے ایک مرتبہ اپنے والد ماجد سیدنا صدیق اکبر ؓ سے ایک عجیب سوال کیا پوچھتی ہیں اباجان !آپ پوری مجلس میں حضرت علی ؓ کا چہرہ دیکھتے رہتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟ تو اس کےجواب میں حضرت صدیق اکبرؓ نےفرمایا میں نے اپنےآقا ومحبوبﷺ کی زبان مبارک سے سنا تھا کہ علی کا چہرہ دیکھنا عبادت ہے۔



حضرت علی کرم اللہ وجہ کی حضرت ابوبکرؓ سے محبت و عقیدت کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہےکہ

ابو سفیان ابن حرب ایک روز حضرت علیؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ انہوں نے قریش کے ایک عام آدمی سے بیعت کرلی،اگر آپؓ چاہیں تو یہ خلافت آپ کو بآسانی حاصل ہوجاتی۔ حضرت علیؓ نے فرمایا : اے ابو سفیانؓ! تم نے زمانہ دراز تک اسلام اور اہل اسلام سے دشمنی کی تو کیا بگاڑلیا، مجھے تو ابوبکرؓ کی خلافت میں کوئی حرج نہیں معلوم ہوتا کیونکہ وہ ہر اعتبار سے اس کے اہل ہیں۔

حضرت علی کرم اللہ وجہ وہ عظیم المرتبت ہستی ہیں کہ جن کے فضاٸل ومناقب سب سے زیادہ روایات میں وارد ہوٸے ہیں آپ کی شان بہت بلندوبالا ہے۔

عظیم محدث حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ اپنی کتاب ازالة الخفا میں لکھتے ہیں کہ حضرت علیؓ کے فضاٸل میں سے ان کی کعبة اللہ میں ولادت ہے.

آپ کی والد ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسدؓ عظیم المرتبت خاتوں تھیں نبی علیہ السلام نے فرمایا میری والدہ ماجدہ کے بعد میری اس چچی نے مجھ سےخوب شفقت ورحمت کا برتاٶ کیا ۔آپ رضی اللہ عنہا کی وفات کےبعد نبی علیہ السلام نے ان کے کفن کے لیے اپنا کرتہ پیش کیا مزید یہ کہ ان کی قبر میں برکت کے لیے بھی آپ ﷺ لیٹے۔

حضرت علی ؓ کو نبی ﷺ کی سب سے زیادہ قربت ورفاقت حاصل تھی اورسفرو حضر میں آپ ﷺ کے رفیق تھے

غزوہ تبوک کے موقع پر آپ ﷺنے ان سے فرمایا ک

کیا تم اس بات سےراضی نہیں ہو کہ میری نیابت و اعتماد کےمعاملہ میں تمہاری حیثیت ومرکزیت وہ ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کی حضرت موسٰی علیہ السلام کے ساتھ تھی ہاں یہ ضرورکہ میرےبعد کوٸی نبی نہ ہوگا ۔

سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں " کہ ایک دن میں اور رسول اللہ ﷺ گھر سے نکلےاورجب کعبہ کے دروازے پر آٸے تو آپ ﷺ نے مجھے فرمایا بیٹھ جاٶ اورمیرےکندھوں پر پیر رکھ کر اونچے ہوٸے اورفرمایا کہ کھڑے ہو جاٶ میں کھڑا ہوا تو میری کمزوری کو آپ نے محسوس کیا اور فرمایا کہ اب تم میرےکندھوں پر سوار ہوجاٶ چنانچہ میں سوار ہوگیا اوردوجہاں کےسردار ﷺ نے جب مجھے کندھوں پر اٹھایا تومجھے ایسا لگا کہ میں آسمان کی بلندی تک پہنچ جاٶں گا فرماتے ہیں ا س طرح میں کعبہ کی چھت پر پہنچ گیا اوروہاں پر جو پیتل اورتانبے کا بت بنا ہوا تھا میں نے اس کو داٸیں باٸیں موڑا آگے پیچے جھکایا اور بالآخراس کو اکھیڑ دیا آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسےگرا دو میں نے اسے گرایا تو وہ ایسے چُورچُور ہو گیا جیسے شیشے کے بنے ہوٸے برتن پھرمیں نیچے اتر آیا ۔ یہ وہ مبارک شانہ رسول ﷺ تھےجن پر حسنین کے ابا اور خود حسنین کریمین نے بارہا سواری کی قربان جاٸیں اس شان کو۔

ہجرت کے دوسرے سال رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہ کا عقد اپنی لخت جگر حضرت سیدہ فاطمة الزہرا ٕ سے کیا تو اپنی بیٹی سے فرمایا " میں نے تمہارانکاح اپنے اہل بیت کے بہترین فرد سے کردیا ہے"

حضور ﷺ حضرت علی ؓ کو پیارسے ابوتراب کہا کرتے تھے ۔ حضرت سیدہ فاطمہ الزہرإ ؓ کے بطن سے اللہ تعالی نے آپ کو عظیم المرتبت فخرِکاٸنات شہزادے امام حسن ؓ وامام حسین ؓاور شہزادیاں سیدہ زینب ؓ و سیدہ ام کلثومؓ عطاکیں جن کی خوشبو سے تا روزقیامت کاٸنات معطر ومنور رہے گی اور جن کی بہادری کی لازوال داستان خون پیغمبر ﷺ کی عظمت کا ڈنکا بجاتی رہے گی۔اور تاقیامت گمراہ یزیدی افکار کے سامنے سینہ سپر ہو کر ان کے غرور کو خاک میں ملاتی رہیں گیں۔

حجة الوداع کے بعد جب آپ ﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ منورہ واپس لوٹے تو راستے میں جب غدیر خُم پر پہنچے تووہاں ایک خطبہ دیااوراس میں حضرت علی کرم اللہ وجہ کی خصوصیت اورشان کا ذکر فرمایا آپ ﷺ نے فرمایا کہ «من كنت مولاه، فعلي مولاه»

میں جس کا مولا وسردار ہوں علی بھی اس کے مولا و سردارہیں ۔

پھر دعا دی "اے اللہ اس کی حمایت فرما جو علی کی حمایت کرے اوراس کی دشمنی تو بھی کرجو ان کی دشمنی کرے۔ یہ کہنے کا سبب یہ تھا کہ بعض لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیجا شکایت کی تھی اور ان پر بلاوجہ اعتراض و تنقید کی تھی۔

اس خطبہ کے بعد لوگوں کے دلوں میں جو شکوک و شبہات تھے وہ رفع ہوگٸے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہ کو بھی حضور ﷺ سے بے حد محبت تھی اور اپنے آقاو مولٰی ﷺ کی بھوک وپیاس گوارانہ تھی

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتٕے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ کے گھرفاقہ تھا حضرت علی کرم اللہ وجہ کویہ معلوم ہواکہ میرے محبوب آقا کا شکم مبارک خالی ہٕےتو بہت بیقرار ہوٸے اورفورا کسی مزدوری کی تلاش میں نکل کھڑے ہوٸے اورایک یہودی کے باغ میں پہنچے اوراس کی باغ کی سینچاٸی کا کام اپنے ذمہ لیا اورایک ڈول کے بدلے ایک کھجور اجرت طے پاٸی آپ نے 17 ڈول پانی کے نکالے اوراسکے عوض 17 عجوہ کھجوریں لیکر اپنے محبوب ﷺ کی خدمت میں پیش کیں اورجب آپ ﷺ نےاس میں سے کچھ تناول فرمالیں تو تب آپ ؓکوراحت ہوٸی۔

حضرت علی کرم اللہ کی ایک صفت کمال شجاعت تھی آپ کی جوانمردی اوربہادری ضرب المثل ہے بدرواحد ،خندق وخیبرہر معرکہ حق وباطل میں آپ نے جرإت و بہادری کی تاریخ رقم کی۔

اکثر غزوات میں آپ علمبردار ہوتے تھےغزوہ بدر کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے اپنی تلوارذوالفقارحضرت علی کرم اللہ وجہ کےہاتھ میں دی اوراس جنگ کے بعدان کو ہمیشہ کے لٸے بخش دی جس سے آپ نے دشمنان اسلام کا قلع قمع کیا۔

غزوہ خیبر میں القموص نامی قلعہ ناقابل تسخیربناہواتھا اوروہاں سے مسلمانوں کو پسپاٸی کا سامناتھا۔

رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہکل جھنڈا اسی شخص کے ہاتھ میں ہوگا جس کو اللہ تعالی اوراس کا رسولﷺ پسند فرماتا ہےاوراسی کے ہاتھ یہ قلعہ فتح ہوگا “ ۔اس اعلان نے تمام اصحاب میں ایک تجسس کی فضاقاٸم کردی تھی اورہرکوٸی اس اعزازواکرام کا متمنی تھا چنانچہ اسی دوران ارشاد ہواکہ علی ؓکہاں ہیں بتلایا گیا کہ ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان کو بلاٶ وہ حاضر ہوٸے تو آنحضرت ﷺ نے ان کی دونوں آنکھوں پر پنا لعاب دہن لگایااوردعا کی حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ میری تکلیف ایسے دور ہوگٸی گویا کبھی تھی ہی نہیں آپ ﷺ نے ان کے ہاتھ میں علم دیا ۔

حضرت علی ؓ قموص کے قلعہ میں داخل ہوٸےادھر سے یہودیوں کا مشہورشہسوار و پہلوان مرحب آپؓ کو للکارتا ہوا آگے بڑھا اس نے اپنے سر پر لوہے کا خود پہنا ہوا تھا حیدر کرار ؓ نے اس کمال کا وارکیا کہ اس کا آہنی خوداورسردونوں ایک ساتھ کٹ گٸےاوراس کے جبڑے بھی ٹوٹ گٸے۔

اسی خیبر کی لڑاٸی کے دوران ایک یہودی نےآپ ؓ کو ضرب لگاٸی جس سےڈھال آپ کے ہاتھ سے گرگٸی تو توشیرخداؓ نے قلعہ کے ایک بھاری بھرکم دروازہ کو جس کو چالیس آدمی بمشکل اٹھا سکتے تھے اکھیڑا اور اس کو اپنی ڈھال بناٸے رکھا یہاں تک کے یہودیوں کو کھلی شکست ہوگٸی۔

ہجرت کی رات رسول اللہ ﷺحضرت علی کرم اللہ وجہ کواپنے بستر پر لٹا کر گٸے حالانکہ اس وقت قریش کے سو سپہ سالار تلواریں سونتے گھر کے باہر کھڑے تھے اور بظاہر موت کا نقشہ تھا رسول اللہ ﷺنےحضرت علی کرم اللہ وجہ سے فرمایا کہ تمہیں کوٸی تکلیف نہیں پہنچا سکے گا یہ کمال جرإت اور بہادری تھی کہ حیدر کرارؓ ذرہ برابر بھی گھبراٸے نہیں بلکہ بلندہمتی اورحوصلے کا مظاہرہ کیا اورساری رات اطمینان سے پیغمبر اسلام ﷺکے بستر پر استراحت فرماتے رہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہ شیر خدا حیدرکرار دامادرسول حسنین کریمین کے ابا کی شہادت تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے اورمسلمانوں کو اس سے بہت بڑاسبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔

سن 36ہجری میں جب امیرالمومنین حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہ نے خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی ؓ کی شہادت کے بعد خلافت کا بارگراں اٹھایا تو اس وقت حالات انتہاٸی کشیدہ اورناگفتہ بہ تھے۔حضرت عثمان ؓ کے قصاص کے مطالبہ پر ہونے والی چپقلش بہت سنگین صورت اختیار کر گٸی اور کچھ باطل اور شریر قوتوں نے اسے مسلمانوں کے آپس میں فتنہ وانتشار اور قتل وغارت کا محرک بنا دیا ۔

اوریہ پراپگینڈہ اورسازش اتنی خطرناک صورت اختیار کر گٸی کہ جس ہستی نے رسول اللہ ﷺکے گھر میں پرورش پاٸی جنہوں نے وحی کو اترتے دیکھا جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا ایک وقت ایسا بھی آیا کہ امت کے کچھ ناعاقبت اندیشوں اورفتنہ پرورو ں نے ان کو مسلمانی سے بھی نکال دیا حالانکہ ان سے بڑا کامل ایمان والا کون تھا ۔

سوچنے کی بات ہے کہ سازش وافترإ بازی کیسی خطرناک چیز ہے کہ جس نےایمان کی شمع کو روشن کرنے والوں کو ہی ایمان اوراسلام سے بے دخل کردیا اوراپنی خواہش کو اپنا دین بنا لیا ۔

تاریخ بتلاتی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کے خلاف سارے خارجی عبداللہ بن وہب الرابسی کے مکان میں جمع ہوۓ اوراس نے اس موقع پرایک فتنہ انگیز خطبہ دیا اس دنیاکے بارے میں ان کو زہد کی تلقین کی اورجنت وآخرت کی رغبت دلاٸی اچھے کام کرنے کا حکم دینے اور براٸی سے روکنے پر ابھارااور کہا کہ اس بستی سے جس کے رہنے والے ظالم ہیں اپنے بھاٸیوں کو نکال لو اورپہاڑ کی کسی کھوہ میں رہ پڑو یا مداٸن میں سے کسی جگہ اور یہ بات طے کر کے مداٸن کی طرف چلنے کی تیاری کی تاکہ اس پر قابض ہوں اور قلعہ بند ہو جاٸیں ۔اوراپنی ساری رشتہ داریاں قرابتیں اورتعلقات چھوڑ کر نکل پڑے ان کا یہ عقیدہ تھا کہ اس طرح اللہ تعالی ہم سے راضی ہو جاٸے گا ۔

ایک اور خارجی لیڈر نے حضرت علی کرم اللہ وجہ کو اس طرح بلیک میل کرنے کی کوشش کی کہنے لگا اے علیؓ اگرتم نے اللہ تعالی کی کتاب کے مقابلہ میں لوگوں کو حکم یعنی فیصل بنانا نہ چھوڑا تو ہم تم سے جنگ کریں گےاوراس جنگ کو اللہ تعالی کے قرب اوررضا مندی کا ذریعہ سمجھیں گے۔

کتنی عجب بات ہے کہ جس جنت کے یہ اپنے آپ کو حقدار گردان رہے تھے کیا ان کو اس بات کا علم نہ تھا کہ یہ وہ سیدنا علی المرتضی ؓ ہیں کہ جن کے سُسر کی شفاعت کے بغیر کوٸی جنت میں قدم نہیں رکھ سکتااور یہ کہ جن کو خود رسول اللہ ﷺنے کٸی مرتبہ جنت کی خوشخبری دی بلکہ فرمایا جنت میں تیرا گھر میرے گھر کے سامنے ہوگا یہ وہی علی المرتضی ؓ ہیں کہ جنکی زوجہ سید ہ فاطمة الزہرإ جنت کی عورتوں کی سردار اورہ ان کے دونوں شہزادے امام حسنؓ اورامام حسین ؓ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں تو یہ کم عقل جنت میں کس منہ سے جاٸیں گے ۔

آج بھی ہمارے معاشرے میں مختلف فکرو اذہان ہیں جو اپنی سوچ کو اپنا خدا بناٸےہوٸے ہیں اوراپنی راٸے پر کسی دوسرے کی راٸے کو ذرہ بھر اہمیت نہیں دیتے اور اپنے آپ کو حرف اخیر سمجھتے ہیں اوراس سےبڑی حماقت یہ ہے کہ خو کو جنت کا ٹھیکیدار سمجھتے ہیں دوسروں کو یہ باور کرواتے ہیں کہ ہمیں اللہ تعالی نے جنت کا سرٹیفکیٹ دے دیا ہے اس معاملہ کو موجودہ حالات کے تناظر کے اندر سوچنےکی ضرورت ہٕےاس لٸے کہ اس زمانہ میں بھی کفرکے فتوے اتنے سستے ہوگٸے ہیں کہ جس کی انتہا نہیں ہے۔

یہ وہ خطرناک اورناپاک سوچیں تھیں جو شیر خدا ؓ کی شہادت کا محرک بنیں۔

حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کا فرمان ہے کہ حضرت علی ؓ سے جس نے بھی جنگ کی اس میں حق پر علیؓ ہی تھے

جمہور اہلسنت والجماعت حضرت معاویہ ؓ کی صحابیت و فضاٸل کے معترف ہیں اور ان کی شان میں نازیبا الفاظ کو گمراہی قرار دیتےہیں ۔تاہم اس امر پر سب متفق ہیں کہ حضرت علی ؓ و حضرت معاویہ ؓ کےتنازع میں حضرت علی ؓ ہی حق پر تھے ۔اس میں کوٸی دوسری راٸے نہیں ۔

اوربلآخر اس امت پر وہ سیاہ دن بھی آیا کہ جب تین خارجی عبدالرحمن ابن ملجم،برک بن عبداللہ تمیمی اورعمروبن بکرتمیمی تینوں ایک جگہ اکٹھے ہوٸے اورجن خارجیوں کو حضرت علی ؓ نے نروان میں قتل کروایا تھا ان کے لٸے دعاۓ مغفرت کی اس کے بعد کہنے لگے اگر ہم اپنی جان پیچ کر بھی گمراہوں کے سربراہوں کو قتل کردیں تو ملک کو ان سے نجات مل جاٸے گی اور اسطرح ہم اپنے بھاٸیوں کے خون کا بدلہ لےلیں گے چنانچہ ابن ملجم بدبخت نے کہا کہ علی ؓکو میں قتل کروں گا برک نے کہا میں معاویہؓ کا خاتمہ کروں گا اورعمروبن بکر نے کہا عمروبن عاص سے میں نمٹوں گا۔

چنانچہ یہ تینوں اپنے ناپاک عزاٸم لیے نکل پڑے اورابن ملجم اس دروازہ کے نیچے آکربیٹھ گیا جہاں سے حضرت علی ؓ نماز کے لٸے نکلا کرتے تھے جس وقت آپ نماز فجر کے لٸے نکلے اورلوگوں کو بیدار کرنے کے لٸے نماز نماز کہ رہے تھے اورلوگ نیند سے بیدار ہوکر نماز کے لٸے اٹھ رہے تھے کہ اسی دوران اس بدبخت نے سیدناعلی المرتضیؓ کے سر کے اگلے حصےپر وارکیا آپ کے سرکے خون کے بہنے سے آپ ؓکی داڑھی کے بال رنگین ہوگۓ جب اس نے وار کیا اس وقت نعرہ بھی لگایا " لا حکم الالللہ لیس لک ولاصحابک یاعلی" یعنی حکومت صرف اللہ کی ہے علی تمہاری یاتمہارے ساتھیوں کی نہیں ہے ۔

حضرت علی ؓ نے آواز دی اس کو پکڑووہ پکڑا گیا اوربعد میں آپ ؓ کے سامنے لایا گیا تو فرمایا اس کو گرفتار رکھو اورقید میں حسن سلوک کا معاملہ کرواگر میں زندہ رہا تو سوچوں گا کیا کروں معاف کروں یا قصاص لوں اوراگر مرجاٶں توایک جان کا بدلہ ایک ہی جان سے لیا جاٸے اوراس کا مُثلہ نہ کیا جاٸے۔

اپنے صاحبزادوں حضرات حسنین کریمین ؓ سے فرمایا اے عبدالمطلب کے فرزندومسلمانوں کا بے تکلف خون نہ بہانا تم کہو گے امیرالمومنین قتل کر دٸے گٸے مگر خبردار سواٸے میرے قاتل کے کسی اور کو قتل نہ کرنا ۔دیکھو اگر میں اس کے وار سے مرجاتا ہوں تو اس پر بھی ایک ہی وار کرنا اس کا مُثلہ نہ کرنا کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ خبردار کسی ذی روح کو مار کر اس کا مُثلہ نہ لیا جاٸے خواہ وہ بھونکنے والا کتا ہی کیوں نہ ہو۔

حضرت علی ؓ کے قاتل ابن ملجم ملعون کا کہنا تھا کہ میں نے علیؓ پرایساوار کیا ہے کہ اگر پورے شہر والوں پر یہ وار پڑتا تو سب کے سب مرجاتے خداکی قسم میں نے اپنی تلوار کو ایک مہینہ تک زہر میں ڈبوٸےرکھا۔ایک ہزار میں یہ تلوار لی تھی اورایک ہزار خرچ کرکے اس کو زہر آلود کیا تھا ۔مگر دوسری طرف بھی حیدر کرار اورشیر خدا تھے جو شجاعت وبلند ہمتی کے پہاڑ تھے

آپ ؓکی شہادت بروز جمعة المبارک رمضان المبارک کی ایک روایت کے مطابق 17اوردوسری کے مطابق 21تاریخ کو صبح صادق کے وقت 40ہجری میں تریسٹھ سال کی عمر میں ہوٸی آپ ؓ کے بیٹے حضرت امام حسن ؓ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھاٸی اورکوفہ کے دارالامارہ میں دفن ہوٸے اللہ تعالی آپ کے درجات بلند فرماٸے اورامت مسلمہ کو آپ ؓ کی سیرت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا کرے آمین

No comments:

close