Scholars of politics - Roshan Worlds

knowledge islamic quotes articles poims islamic education tips and tricks apps and games for pc android apps latest news for information technology

google Search

Thursday, April 7, 2022

Scholars of politics




حضرت مولاناحفظ الرحمن سیوہاروی رحمۃ اللہ علیہ کی سیاسی بصیرت

1930ء میں جمعیت علما ہند نے امروہہ میں اجلاس کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ امروہہ میں احمد رضابریلوی کے پروکاروں نے جمعیت کے اجلاس کو ناکام بنانے کے لیے انہی تاریخوں میں مولانا محمد علی کی بنائی ہوئی اس نئی جمعیت علما کا نپور کا اجلاس بھی امروہہ میں ہی رکھ دیا جو کچھ ہی دنوں پہلے جمعیت علما ہند کی مخالفت میں بنائی گئی تھی اور جمعیت علما ہند کے خلاف پرواپیگنڈہ شروع کیا کہ یہ صرف وہابیوں دیوبندیوں کی اور معاذ اللہ دشمنان رسول کی جماعت ہے مولانا محمد منظور نعمانی تحریر فرماتے ہیں کہ مولانا حفیظ الرحمان صاحب جو اس وقت جمعیت کے اکابرین یا اس کے ہائی کمانڈ میں تو نہیں تھے مگر اپنے سیاسی ذہن اور جرات و فعالیت کی وجہ سے اپنے ا قران میں سب سے زیادہ ممتاز تھے گانگریس کی جنگ آزادی میں شرکت کے متعلق ایک ریزولیوشن اجلاس کی تاریخ سے کافی دنوں پہلے ہی دفتر کو بھیج دیا اور ساتھ ہی اشاعت کے لیے اخبارات کو بھی دے دیا اس وقت خود جمعیت کے اندر اس مسئلے پر خاصا اختلاف رائے تھا بلکہ اجلاس شروع ہونے کے دن تک جمعیت کے جو ارکان مختلف مقامات سے امروہہ پہنچے تھے ان سب کی نجی گفتگو کا خاص موضوع مولانا حفظ الرحمان صاحب کا یہ ریزولیوشن ہی بنا ہوا تھا ان کی باتوں سے ہم لوگو ں یہ اندازہ کر لیا تھا کہ یہ ریزولیشن پاس نہ ہو سکے گا بہرحال اجلاس شروع ہوا سب سے پہلے دستور کے مطابق صدر استقبالیہ ( سید ابوالنظر رضوی مرحوم) نے اپنا خطبہ استقبالیہ پڑھا اس کے بعد اجلاس کے صدر حضرت مولانا شاہ معین الدین اجمیری کا خطبہ صدارت پڑھا گیا ان دونوں خطبوں میں شدو مد کے ساتھ اور خاص کر خطبہ استقبالیہ میں استدال کے پورے زور کے ساتھ مولانا حفظ الرحمان کی اس تجویز کو چار نہایت اہم اور باوزن شخصیتوں کی حمایت اور تائیدحاصل ہو گئی ایک جمعیت علما ہند کے اس وقت کے مستقل صدر حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب دوسرے حضرت مولانا سید سلمان ندوی تیسرے حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنی اور چوتھے سید عطاء اللہ شاہ بخاری مرحوم یہ ناچیز( مولانا منظور نعمانی) سبجیکٹ کمیٹی میں شریک تھا جب اس ریزرولیوشن پر بحث شروع ہوئی تو ایک دو موافقانہ اور مخالفانہ تقریروں کے بعد حضرت مفتی صاحب اور سید صاحب نے علی الترتیب بڑی مددلل اور بصیرت افروز تقریریں ریزولیوشن کی حمایت میں کیں اس کے بعد حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نے ایمانی جذبہ و جوش اور درد سے بھری ہوئی ایک تقریر فرمائی جس میں ہندوستان کی آزادی کے مسئلے کی اہمیت حاصل کر مسلمانوں کے لیے اس کی ضرورت پر روشنی ڈالنے کے علاوہ حضرت ممدوح نے ماضی قریب اور ماضی بعید کے تاریخی واقعات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ انگریزوں نے عالم اسلام کے ساتھ کیاکیا ہے؟اور پوری دنیا کے مسلمانوں کی تباہی و بربادی میں انگریزوں کا کتنا حصہ ہے ؟ اس لیے مسلمانوں کے دشمن نمبر ایک انگریز اور صرف انگریز ہیں لہذا انگریزی اقتدار کے خلاف جو جنگ کسی کی طر ف سے شروع ہو ہمیں بلا شرط اس میں شریک ہو کر اس کو تقویت پہنچانا چاہیے حضرت مولانا کی ذاتی عظمت کے ساتھ ان کی اس دردمندانہ اور جذبات سے بھرپور تقریر نے شرکاء اجلاس میں سے بہت سوں کی رائے بدل دی اس کے بعد جو کمی کسر رہی وہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی ساحرانہ خطابت نے پوری کردی نتیجہ یہ ہوا کہ تجویز نہ صرف یہ کہ پاس ہوئی بلکہ تقریبا باالاتفاق پاس ہوئی جن چند حضرات کو اس سے اتفاق نہیں تھا انہوں نے بھی خاموشی مناسب سمجھی سوائے ایک دو صاحبوں کے یہ واقعہ ہے کہ مولانا حفظ الرحمان صاحب نے جس ناموافق ماحول میں اپنی یہ تجویز پیش کرنے کی جرات کی تھی اور اخبارات میں اعلان کیا تھا اور پھر جس شان کے ساتھ وہ پاس ہوئی اس نے مولانا کو اس نو عمری ہی میں سیاسی دنیا میں خاص اہمیت دے دی اس کے بعد سے وہ برابر اس میدان میں اپنی صلاحیتوں اور قربانیوں کی وجہ سے آگے ہی بڑھتے رہے۔ 

No comments:

close