zakat+kin+cheezon+par+hai - Roshan Worlds

knowledge islamic quotes articles poims islamic education tips and tricks apps and games for pc android apps latest news for information technology

google Search

Thursday, April 7, 2022

zakat+kin+cheezon+par+hai

 


::: زکوٰۃ کن اشیاء پر آتی ہے ::: 


 

::: زکوٰۃ کن اشیاء پر آتی ہے :::

مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ نے فرمایا ۔

’’ زکوٰۃ ان اشیاء پر فرض ہوتی ہے جو بالذات نشوونما پاتی ہیں ، مثلاً زمین ، مویشی ، مال تجارت اور نقدی وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جو بالذات بڑھتی رہتی ہیں ، لہٰذا ان چیزوں پر ہر سال زکوٰۃ واجب ہو جاتی ہے ۔ اور جو چیزیں بالذات نشوونما نہیں پاتیں ، ان پر زکوٰۃ واجب الاداء نہیں ہوتی ۔ مثال کے طور پر گھر میں عام استعمال کے برتن ، کپڑا سینے کی سلائی مشین ، واشنگ مشین یا اس قسم کی دیگر اشیاء کی نشوونما نہیں ہوتی ، لہٰذا یہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے مستثنیٰ ہیں ۔ اسی طرح افراد خانہ کے استعمال میں آنے والی موٹرکار ، موٹر سائیکل ، سواری کیلئے جانور وغیرہ پر زکوٰۃ نہیں آتی ۔ ذاتی استعمال میں آنے والا مکان یا کسی کی ملکیت میں مکان بنانے کیلئے خالی پلاٹ ہو تو اس پر زکوٰۃ نہیں لگتی ، البتہ اگر یہی چیزیں کاروبار کیلئے خریدی جائیں خواہ وہ مکان ہو یا دکان یا پلاٹ تو اس پر زکوٰۃ واجب الاداء ہو گی ۔ تجارت کا مال کسی بھی قسم کا ہو خواہ وہ برتنوں کی شکل میں ہو یا فنی آلات اور مشینری کی صورت میں اس پر زکوٰۃ لاگو ہو گی جو کہ ایسی اشیاء کی وقتی قیمت کا اڑھائی فیصد ہے ۔

ایک اور مسئلہ خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ قیمتی پتھر ، ہیرے ، جواہرات ، موتی وغیرہ اگر کسی مرد یا عورت کے ذاتی استعمال میں ہیں تو ان پر زکوٰۃ نہیں ہے چونکہ یہ چیزیں زینت کیلئے زیورات کے طور پر پہنی جاتی ہیں ، لہٰذا یہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے مستثنٰی ہیں خواہ ان کی مالیت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو ۔ اگر یہ اشیاء تجارتی مال ہو تو پھر ان کی مالیت کے حساب سے ان پر زکوٰۃ واجب الاداء ہو گی ۔

زمین کی پیداوار میں سے ادا کی جانے والی زکوٰۃ عشر کہلاتی ہے ۔ اس کا اصول یہ ہے کہ وہ پیداوار جو جلدی خراب نہیں ہوتی بلکہ عام طور پر سال بھر یا اس کے کچھ حصہ استعمال میں رہتی ہے ، اس پر عشر واجب الاداء ہو جاتا ہے ۔ اس پیداوار میں ہر قسم کا اناج اور وہ پھل شامل ہیں جو جلدی خراب نہیں ہو جاتے جیسے بادام ، اخروٹ ، پستہ ، ناریل ، کشمش وغیرہ ، البتہ زمین کی وہ پیداوار جو جلدی خراب ہو کر ناقابل استعمال بن جاتی ہے اس پر عشر کی ادائیگی لازمی نہیں ہے ۔ ایسی پیداوار میں ہر قسم کی سبزیاں یا جلد خراب ہوجانے والے پھل امرود ، ناشپاتی ، کیلا ، جامن شامل ہیں ۔ حضور علیہ السلام کا ارشاد مبارک ہے لیس فی الخضروات صدقۃ یعنی سبزیوں پر زکوٰۃ نہیں ہے ۔ البتہ امام ابو حنیفہؒ کا فتویٰ یہ ہے کہ ایسی سبزیوں کا عشر مالک از خود غرباء میں تقسیم کر دے ۔ مثال کے طور پر اگر کسی روز کسی شخص کی زمین سے دس گٹھے سبزی پیدا ہوئی ہے تو وہ ان میں سے ایک گٹھہ غرباء میں تقسیم کر دے ۔ جلدی خراب ہونے والی ایسی اشیاء کو بیت المال تک لے جانے کی ضرورت نہیں ہے ، البتہ زمین کی پیداوار میں سے بعض چیزیں زکوٰۃ یا عشر کی ادائیگی سے مستثنٰی ہیں جیسے لکڑی ، کانے ، خود رو گھاس اور ایسے درخت جو کوئی پھل نہیں دیتے ۔ ہاں اگر کوئی شخص خود گھاس کاشت کرتا ہے تو اس کو مقررہ زکوٰۃ ادا کرنا ہو گی ۔ ان میں جانوروں کے لئے چارہ کے طور پر استعمال ہونے والی اشیاء سٹالا ، برسیم ، جوار وغیرہ شامل ہیں ۔

یہ مسئلہ خاص طور پر ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ سونا چاندی ہر حالت میں قابل زکوٰۃ ہے خواہ وہ زیور کی شکل میں ہو ، ڈلی ہو یا سکہ ہو ، خواہ پہننے کے زیورات ہوں یا تجارت کا مال ہو ۔ زیور استعمال میں آتا ہو یا آج کل کی اصطلاح میں بینک میں لا کر محفوظ رکھا ہو ، اس پر زکوٰۃ اداء کرنا ضروری ہے ، ورنہ مالک مجرم ٹھہرے گا ۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولے اور سونے کا ساڑھے سات تولے ہے ۔ سونا چاندی کو ہمیشہ سے نقدی کی حیثیت حاصل رہی ہے لہٰذا اس پر ہر حالت میں زکوٰۃ اداء کرنی پڑتی ہے بشرطیکہ نصاب کو پہنچ جائے اور پورا سال گزر جائے ۔ یہ بات یاد رہے کہ حیلے بہانے سے زکوٰۃ سے بچنے والا سخت گنہگار ہو گا اور خدا کے ہاں مجرم ہو گا ۔ بعض لوگ سال پورا ہونے سے پہلے قابل استعمال اشیاء دولت کو ناقابل زکوٰۃ اشیاء میں تبدیل کر لیتے ہیں جو کہ درست نہیں ہے ۔ مثلاً سونا چاندی یا نقدی کو جواہرات میں تبدیل کر لینے سے ایسا ممکن ہے کیونکہ جواہرات پر زکوٰۃ نہیں ہے ۔ جان بوجھ کر ایسا کرنا ناقابل معافی ہے ۔ بعض لوگ اپنا مال سال پورا ہونے سے پہلے کسی دوسرے بھائی بند کو منتقل کر دیتے ہیں اور اس طریقے سے زکوٰۃ کی ادائیگی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں ، یہ 

سب غلط حیلے ہیں۔

زکوٰۃ ہر ایسے آدمی پر لازم ہے جس پر قرض نہیں ہے۔ نقد پیسے، سونا چاندی یا مال تجارت اس کے پاس اتنا ہے کہ جس کی مالیت ساڑھے باون تولے چاندی کو پہنچ جاتی ہے، جو رائج الوقت قیمت ہے، مثلاً ایک گرام کی قیمت تین روپے سترہ پیسے ہے، آج یا کل کی اخبار میں لکھی ہوئی تھی، اس حساب سے تم ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت لگا لو کتنی بنتی ہے؟ یوں سمجھو کہ ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت دوہزار بنتی ہے تو جس آدمی کے پاس دو ہزار روپے نقد موجود ہیں اور اس کی ضرورتیں بھی پوری ہیں اور اس پر قرض بھی نہیں ہے اور سال گزر چکا ہے تو ایسے شخص پر زکوٰۃ فرض ہے، خواہ وہ مرد ہے یا عورت ہے۔

٭ اگر کچھ سونا ہے، کچھ چاندی ہے، کچھ نقد پیسے ہیں، ان سب کی مالیت ملا کر ساڑھے باون تولے چاندی کو پہنچ جاتی ہے تو یہ آدمی صاحبِ نصاب ہے، اس پر زکوٰۃ فرض ہے، ظاہر بات ہے کہ آج کل تنہا سونا دو ہزار روپے کا تولہ ہے، صرف سونا ہو تو اس کا نصاب ساڑھے سات تولے ہے، صرف چاندی ہو تو اس کا نصاب ساڑھے باون تولے ہے بشرطیکہ سونا، نقد پیسا اور سامانِ تجارت نہ ہو۔ لیکن اگر کچھ سونا ہے، کچھ چاندی ہے، کچھ نقد پیسے ہیں، کچھ سامانِ تجارت ہے، ساری چیزوں کو ملا کر ان کی مالیت ساڑھے باون تولے چاندی کو پہنچ جاتی ہے تو اس پر زکوٰۃ آئے گی۔

٭ یہ سوال کہ چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولے اور سونے کا نصاب ساڑھے سات تولے ہے، ان کے درمیان کوئی توازن نہیں ہے تو جواب یہ ہے کہ جس وقت صاحبِ شریعت نے نصاب مقرر کیا تھا اس وقت ساڑھے باون تولے چاندی اور ساڑھے سات تولے سونے کی قیمت برابر تھی، صدیاں گزر گئیں، قیمتوں میں تفاوت پیدا ہو گیا، لیکن صاحبِ شریعت کے مقرر کیے ہوئے نصاب کو بدلنے کا کوئی مجاز نہیں ہے، کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ شریعت کی حدوں کو گھٹائے یا بڑھائے، جو حکم ملا ہے وہی رہے گا۔ جس طرح نماز کی رکعتوں کو بدلنے کا کوئی مجاز نہیں ہے، مثلاً کوئی شخص کہے کہ عشاء کی میں نے چار رکعتیں پڑھی تھیں لہٰذا فجر کے بھی چار فرض پڑھ لوں، اگر فجر کے چار فرض پڑھے گا تو مردود ہو گا، اس کے منہ پر ماری جائے گی، شام (مغرب) کے تین فرض پڑھے ہیں، لہٰذا عشاء کے بھی تین پڑھ لوں، اس کے منہ پر ماری جائے گی۔ ہم تم کون ہوتے ہیں رکعات کو بدلنے والے؟ جہاں تین ہیں وہاں تین رہیں گی، جہاں دو ہیں وہاں دو رہیں گی، جہاں چار ہیں وہاں چار رہیں گی۔ اسی طرح زکوٰۃ کا نصاب جو شریعت نے بیان کیا ہے وہی رہے گا، کسی کو ایک رتی کے برابر بھی بدلنے کا اختیار نہیں ہے، فرض کرو کہ ایک وقت ایسا آئے کہ سونا دس ہزار کا تولہ ہو جائے اور چاندی ایک روپے تولہ ہو جائے، نصاب پھر بھی یہی رہے گا۔

٭ سونا، چاندی، نقد پیسے، سامانِ تجارت کے علاوہ کسی چیز پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ گھر کا سامان چاہے کتنا قیمتی ہو اور کتنی ہی مقدار میں کیوں نہ ہو اس پر زکوٰۃ نہیں ہے، بشرطیکہ تجارت کیلئے نہ ہو، تجارت کیلئے اگر مٹی بھی اکٹھی کر کے رکھی ہوئی ہے تو باقی چیزوں کے ساتھ مٹی بھی ملائی جائے گی اور زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔

٭ زکوٰۃ کے مسئلہ اور فطرانہ اور قربانی کے مسئلہ میں فرق ہے۔ اگر کسی آدمی کے پاس گھر کی ضرورتوں سے زائد اتنا سامان ہے کہ اس کی قیمت ساڑھے باون تولے چاندی کو پہنچ جاتی ہے تو ایسے آدمی پر فطرانہ بھی واجب ہے اور قربانی بھی واجب ہے، مثلاً گھر میں دس بستر ہیں، دس چارپائیاں ہیں، پانچ پانچ استعمال میں آتے ہیں، باقی فالتو ہیں، کبھی کوئی مہمان آگیا تو استعمال ہو گئے، اسی طرح برتن ہیں، دو درجن کولیاں ہیں، دو درجن پلیٹیں ہیں، ایک ایک درجن استعمال ہوتے ہیں، باقی الماری میں پڑے ہیں، کبھی کوئی مہمان آگیا تو استعمال ہو گئے، تو یہ فالتو سامان ہے، اگر اس کی قیمت لگائی جائے اور وہ ساڑھے باون تولے چاندی کو پہنچ جائے تو اس آدمی پر فطرانہ بھی واجب ہے اور قربانی بھی واجب ہے اور ایسا شخص نہ زکوٰۃ لے سکتا ہے نہ فطرانہ لے سکتا ہے، کوئی بھی واجب قسم کا صدقہ اس کیلئے لینا حرام ہے، تو زکوٰۃ کے مسئلے میں گھر کا فالتو سامان شمار نہیں کیا جاتا لیکن فطرانہ اور قربانی کے مسئلے میں شمار کیا جاتا ہے۔

٭ سونا چاندی چاہے کسی بھی شکل میں ہوں، زیور کی شکل میں ہوں، ڈلی کی شکل میں ہوں، استعمال ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے، برتن کی شکل میں ہوں، ان پر بدستور زکوٰۃ ہے۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ استعمال ہونے والے زیور پر زکوٰۃ نہیں ہے، ان کا یہ سمجھنا غلط ہے، استعمال میں ہوں یا نہ ہوں ان پر زکوٰۃ واجب ہے۔ حضرت ام سلمہؓ نے ہار پہنا ہوا تھا اور عورتیں بھی بیٹھی ہوئی تھیں، آنحضرتؐ نے فرمایا ام سلمہ! تُو نے جو ہار پہنا ہوا ہے اس کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟ کہنے لگیں حضرت! مجھے مسئلے کا علم نہیں ہے، آپؐ نے فرمایا اگر نصاب کو پہنچ جائے اور زکوٰۃ نہیں دے گی تو دوزخ میں جلنا پڑے گا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ ان کے پاس چاندی کا زیور تھا، آپؐ نے فرمایا جو مال نصاب کو پہنچ جائے اور اس کی زکوٰۃ ادا نہ کی جائے تو اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے گرفت ہو گی، تو زیور پر زکوٰۃ ہے چاہے استعمال ہو یا نہ ہو۔ ایک اور بات بھی سمجھ لیں کہ عورتیں سونے چاندی کا زیور پہن سکتی ہیں چاہے جتنا پہنیں، لیکن سونے چاندی کے برتن میں کھا پی نہیں سکتیں، نہ مرد کھا سکتا ہے نہ عورت، حتیٰ کہ فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ سونے چاندی کی سلائی بھی سرمے کیلئے استعمال نہیں کر سکتے، جس شکل میں استعمال کی اجازت ہے بس اسی شکل میں استعمال کرنا ہے، شریعت نے جو حد مقرر کی ہے اس سے آگے نہیں گزرنا۔

٭ زکوٰۃ مالک پر آتی ہے۔ مثال کے طور پر بیٹا باہر کسی ملک گیا ہوا ہے، وہ پیسے اپنے باپ کو بھیجتا ہے یا چھوٹے بھائی باہر گئے ہوئے ہیں اور وہ بڑے بھائی کو کمائی بھیج دیتے ہیں یا بالعکس ہے، تو ان کو وضاحت کرنی چاہئے کہ باپ یا بھائیوں کے پاس جو رقم بھیج رہے ہیں کس حیثیت سے بھیج رہے ہیں، آیا اس رقم کا ان کو مالک بنا رہے ہیں کہ باپ ہے، بھائی ہیں ان سے کوئی حساب نہیں کرنا، مالک ہیں جو چاہیں کریں، یا ان کو امین سمجھ کر بھیج رہے ہیں کہ باپ ہے، بھائی ہے، ہماری رقم کی حفاظت کریں گے۔ اگر باپ اور بھائیوں کو مالک بنا رہے ہیں کہ تمام حقوق کا تعلق ان کے ساتھ ہوگا تو زکوٰۃ، قربانی، فطرانہ، حج باپ اور بھائیوں پر آئے گا، بھیجنے والے کے ذمہ کچھ نہیں ہو گا، اور اگر امانت کی حیثیت سے بھیج رہے ہیں کہ باپ ہے، بھائی ہے، ہماری رقم کی حفاظت کریں گے تو مالک بھیجنے والا ہے، حج، قربانی، زکوٰۃ، فطرانہ بھیجنے والے پر آئے گا، باپ اور بھائیوں کے ذمہ نہیں ہو گا، یعنی جو پیسوں کا مالک ہے تمام حقوق کا تعلق اس کے ساتھ ہو گا، اسلام کی یہ خوبی ہے کہ مسئلے کو چھپاتا نہیں ہے، واضح اور صاف بیان کرتا ہے، لہٰذا بیٹے اور بھائیوں کو چاہئے کہ وہ پیسا بھیجتے وقت وضاحت کریں کہ ہم پیسا کس حیثیت سے بھیج رہے ہیں تا کہ باپ اور بھائی مغالطے میں نہ رہیں۔

٭ زکوٰۃ، خیرات، قربانی، فطرانہ حلال اور طیب مال میں ہے، ناپاک اور حرام مال میں صدقہ خیرات ہو تو اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتے۔ ناپاک کس طرح ہے؟ اگر کسی نے وراثت کا مال شرعی وارثوں کو نہیں دیا، بہنوں کا حق نہیں دیا یا دوسرے وارثوں کا حق نہیں دیا، خود فیصلہ کر کے بیٹھ گیا ہے اور اس میں زکوٰۃ نکالتا ہے یا خیرات کرتا ہے تو یہ قطعاً قبول نہیں ہے، دوسروں کے حقوق میں تصرف کرنے کا اس کو کیا اختیار ہے، اس کو کیا حق ہے۔ چوری کا مال ہے، ڈکیتی کا مال ہے، رشوت کا مال ہے، فراڈ اور دھوکے کے ذریعے حاصل کیا ہے، کسی بھی حرام طریقے سے مال کمایا ہے تو ایسے مال میں سے صدقہ خیرات قبول نہیں ہے۔

٭ ہمارے علاقے میں جانور تو نہیں ہیں، ویسے سرسری طور پر ان کا نصاب بھی سمجھ لیں کہ اگر کسی کے پاس پانچ اونٹ ہیں، سال گزرنے کے بعد ان میں ایک بکری زکوٰۃ دینا پڑے گی، دس اونٹوں میں دو بکریاں، پندرہ اونٹوں میں تین بکریاں اور بیس اونٹوں میں چار بکریاں زکوٰۃ ادا کرنی ہے اور اگر پچیس اونٹ ہیں تو ان کی زکوٰۃ اونٹ کا وہ بچہ ہے جس کی عمر ایک سال ہو۔ اگر گائے، بھینس ہیں جن کی تعداد تیس ہے، چھوٹے بڑے سب شمار ہوں گے، وہ بچہ جو آج پیدا ہوا ہے وہ بھی شمار کیا جائے گا، اس کی زکوٰۃ ایک بچھڑا ہے جس کی عمر ایک سال ہو۔ بھیڑ بکریاں اگر چالیس ہیں تو ان میں سے زکوٰۃ ایک بھیڑ یا ایک بکری آئے گی۔ یہ جانور چونکہ ہمارے علاقے میں تھوڑے ہیں اس لیے میں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا، سونے چاندی کے متعلق مسائل کی زیادہ ضرورت ہے، نصاب آپ حضرات سن سکے ہیں۔

٭ عورتیں جو زیور پہنتی ہیں اس کی تفصیل ہے۔ کچھ وہ ہوتا ہے جو ماں باپ نے دیا ہوتا ہے، اس کی تو وہ مالک ہوتی ہیں اور جو زیور سسرال نے دیا ہے اس کی حیثیت واضح کرنی چاہئے کہ عورت اس کی مالک ہے یا فقط استعمال کیلئے دیا ہے اور مالک اس کا خاوند ہے، وضاحت کر دینی چاہئے تا کہ مسائل میں الجھن پیدا نہ ہو، کیونکہ جو مالک ہے زکوٰۃ اس نے دینی ہے۔ مثال کے طور پر آپ نے کسی آدمی کو دس ہزار روپیہ دیا ہے تو اس دس ہزار کی زکوٰۃ تم نے دینی ہے مقروض نے نہیں دینی، کیونکہ مالک تم ہو اور زکوٰۃ مالک کے ذمہ ہے۔ ہاں اگر مقروض منکر ہے اور تمہارے پاس گواہ اور تحریر بھی نہیں ہے تو اس صورت میں فقہائے کرام نے تفصیل بیان فرمائی ہے کہ اس رقم پر زکوٰۃ نہیں آئے گی، لیکن اگر وہ منکر ہے اور گواہ موجود ہیں تو زکوٰۃ مالک پر آئے گی اور اگر منکر ہے اور گواہ بھی نہیں ہے مگر تحریر ہے جس کو عدالت تسلیم کرتی ہے، منصف مزاج آدمی تسلیم کرتے ہیں، پھر بھی زکوٰۃ دینی پڑے گی، قرض کی رقم کی زکوٰۃ مالک نے دینی ہے چاہے جتنے سال اس پر گزر جائیں۔

٭ عورت کے حق مہر کا مسئلہ یہ ہے کہ جب تک مہر عورت کو ملے گا نہیں اس وقت تک اس کے ذمہ زکوٰۃ نہیں ہے۔ جب مہر کی رقم ملے گی اور ملنے کے بعد ایک سال اس پر گزرے گا پھر زکوٰۃ دینی پڑے گی، اگر نصاب کو پہنچ جاتا ہے۔

٭ عشر کا مسئلہ علیحدہ ہے۔ اگر زمین بارانی ہے تو جو بھی پیداوار ہو گی، اناج ہے، سبزی ہے، پھل ہے، دسواں حصہ عشر نکالنا ہے۔ اگر زمین چاہی ہے، نہری ہے جس کا آبیانہ دینا پڑتا ہے یا ٹیوب ویل کا خرچہ اٹھانا پڑتا ہے تو پھر بیسواں حصہ عشر ہے۔ یاد رکھنا! ٹنڈے، کدو، خربوزہ، تربوز، تریں، کھیرے وغیرہ ہر چیز میں عشر ہے۔ مولی، گاجر میں بھی بدستور عشر ہے۔ پھر ادائیگی کی دو صورتیں ہیں۔ اگر تول کر دے تو بیسواں سیر دے اور اگر بیچ کر دے تو بیسواں روپیہ دے۔ اگر نہیں دے گا تو رب تعالیٰ کا مجرم ہے۔

٭ زکوٰۃ نماز روزے کی طرح عبادت ہے، جس طرح وہ بغیر نیت کے ادا نہیں ہوتے اسی طرح زکوٰۃ بھی بغیر مالک کی نیت کے ادا نہیں ہوتی۔ نیت کیلئے زبان ہلانا ضروری نہیں۔ نیت دل کے ارادے کا نام ہے۔ بعض وہمی قسم کے آدمی ہوتے ہیں، وہ بار بار ایک لفظ کو دہراتے ہیں اور سننے والے حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیا کر رہا ہے۔ زبان سے تلفظ کرنا مستحب ہے۔ نہ فرض ہے، نہ واجب ہے، نہ سنت مؤکدہ ہے۔ امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ اس لئے مستحب ہے کہ زبان اور دل ایک ہو جائیں، اس طرح نہ ہو کہ زبان ایک طرف جا رہی ہے اور دل دوسری طرف۔ تو اصل نیت دل کی ہے اور نیت کے بغیر کوئی عبادت ادا نہیں ہوتی۔ نیز زکوٰۃ کا ایک مصرف ہے، لہٰذا دیکھنا ہے کہ جہاں خرچ کرنی ہے وہ مصرف بھی ہے یا نہیں۔

٭ کسی نے مسئلہ پوچھا کہ اگر کوئی آدمی بس خریدتا ہے،ٹیکسی خریدتا ہے، اس پر زکوٰۃ ہے یا نہیں؟ ان پر زکوٰۃ نہیں ہے، ان کی آمدنی پر زکوٰۃ ہے۔ کارخانہ لگاتا ہے، فیکٹری لگاتا ہے، اس کی مشینری پر زکوٰۃ نہیں ہے، آمدن پر زکوٰۃ ہے۔ ہاں اگر تجارت کی نیت سے خریدتا ہے کہ جتنی دیر چلتی ہے چلے مگر میں نے فروخت کرنی ہے تو پھر یہ سامانِ تجارت ہے، اس پر زکوٰۃ آئے گی۔ مکان خریدتا ہے بیچنے کیلئے، زمین خریدتا ہے بیچنے کیلئے تو ان پر زکوٰۃ ہو گی۔ ان کی مالیت لگا کر چالیسواں حصہ زکوٰۃ دینی پڑے گی۔ اگر مکان خرید کر کرائے پر چڑھا دیا ہے تو مکان پر زکوٰۃ نہیں ہے، آمدنی پر ہو گی ضابطے کے مطابق۔ 

(ماہنامہ نصرۃ العلوم جنوری ۱۹۹۷ء ص ۸ تا ۱۰)

انتخاب : محمد حذیفہ خان سواتی

 

No comments:

close