میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم
birth of prophet muhammad |
میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ذِکرمبارک:
یہ بات روزِ روشن سے بھی زیادہ واضح ہے کہ حضور اقدس ﷺ کی محبت ہر مؤمن کے اِیمان کا اہم جُز ہے، اورحضور اقدس ﷺ کی پیدائش سے لے کر وِصال تک پوری مبارک زندگی کی سیرت اور حالات کا تذکرہ بڑی ہی رحمتوں اور برکتوں کے نزول کا باعث ہے، اور اس حقیقت میں بھی دو رائے نہیں کہ حضور اقدس ﷺ کا ذکر مبارک اَفضل اَعمال میں سے ہے جو کہ بڑے ہی اَجر وثواب کا ذریعہ ہے، اس لیے ہر مسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے اور یہ حضور اقدس ﷺ کی محبت کا تقاضا بھی ہے کہ حضور اقدس ﷺ کے ذکر مبارک کو زندگی کا ایک اہم جُز بنائے، اپنی زبان اور دل کو حضور اقدس ﷺ کی سیرت کے تذکروں سے منوّر کرے اور حضور اقدس ﷺ کی محبت میں ان کی حیاتِ طیّبہ کے مبارک حالات سے بھرپور واقفیت حاصل کرے۔ نہایت ہی افسوس ہے اُس مسلمان پر جوحضور اقدس ﷺ کی محبت کا دعویٰ بھی کرے اور پھر حضور اقدس ﷺ کی سیرت سے واقفیت بھی حاصل نہ کرے اور نہ ہی اسے حضور اقدس ﷺ کے مبارک تذکروں سے دلچسپی ہو، یہ بڑی بد نصیبی ہے!!
مؤمن کا ہر لمحہ ربیع الاوّل ہے:
بہت سے مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ جب ربیع الاوّل آتا ہے تو انھیں حضور اقدس ﷺ کی محبت اور عشق یاد آجاتا ہے، سیرت کے جلسے یاد آجاتے ہیں، درود شریف کے اہتمام کا شوق اُبھر آتا ہے، حتی کہ حضور اقدس ﷺ کی محبت اور عشق کے اظہار کے نت نئے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں، ذرا سوچیے کہ کیا حضور اقدس ﷺ کے ساتھ محبت اور اس کے اظہار کا سلسلہ صرف ماہِ ربیع الاوّل کے ساتھ خاص ہے؟؟ کیا حضور اقدس ﷺ کی سیرت مبارکہ کے تذکرےصرف اس ماہِ مبارک کے ساتھ مخصوص ہیں؟؟ ظاہر ہے کہ کوئی بھی مسلمان اس کا دعویٰ نہیں کرسکتا، کیوں کہ حضور اقدس ﷺ کے ساتھ محبت تو پورے سال بلکہ زندگی بھر کا معاملہ ہے، یہ کسی مہینے کے ساتھ خاص نہیں اور نہ ہی چند چیزوں کے ساتھ خاص ہے، بلکہ مؤمن کی زندگی کا ہر لمحہ ربیع الاوّل ہے کہ وہ حضور اقدس ﷺ کی محبت میں زندگی کے ہر معاملے میں حضور اقدس ﷺ کی تعلیمات کو مدّنظر رکھتا ہے، ہر وقت اس کی زبان پر حضور اقدس ﷺ کے مبارک تذکرے ہوتے ہیں، وہ زندگی بھر عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاقیات میں حضور اقدس ﷺ کی سنتوں کا شیدائی ہوتا ہے۔ اس لیے حضور اقدس ﷺ کی محبت کے تعلق کو ماہِ ربیع الاوّل کے ساتھ خاص کرنا یہ حضور اقدس ﷺ کے ساتھ عشق کے تقاضوں اور ان کی تعلیمات کے خلاف ہے، خصوصًا جبکہ حضرات صحابہ کرام اور حضرات تابعین کے مبارک زمانوں میں ماہِ ربیع الاوّل سے متعلق کوئی خاص سرگرمی نظر نہیں آتی اور نہ ہی انھوں نے اس ماہ میں سال کے دیگر مہینوں کی بنسبت خصوصیت کے ساتھ عشق ومحبت کے نمونے اپنائے ہیں۔
*جشنِ عید میلادُ النبی ﷺ کی حقیقت:*
حضور پُر نور ﷺ کا ذکر مبارک زندگی بھر، پورے سال، پورے مہینے، کسی ہفتے، کسی بھی دن اور کسی بھی لمحے ممنوع نہیں بلکہ بڑے ہی برکت اور سعادت والے ہیں والے وہ لمحات جن میں حضور اقدس ﷺ کا ذکر مبارک کیا جائے۔ اس میں تو کسی بھی مسلمان کو تردُّد اور اختلاف نہیں ہوسکتا، البتہ جو بات باعثِ اختلاف اور قابلِ اعتراض ہے وہ یہ ہے کہ حضور اقدس ﷺ کے ذکر مبارک کے لیے ماہ ربیع الاوّل کو خاص کرنا، حضور اقدس ﷺ کی محبت کے نام پر یومِ ولادت یا میلاد منانا، ماہ ربیع الاوّل اور خصوصًا اس کی 12 تاریخ کو حضور اقدس ﷺ کی آمد یا میلاد کی خوشی میں جلسے جلوس منعقد کرنا، اس کو عید قرار دے کر عید جیسے اعمال سرانجام دینا، چراغاں کرنا، حضور اقدس ﷺ کی تاریخِ ولادت کو صبح صادق کے وقت آمدِ مبارک کی خوشی میں قیام کرنا، یا میلادُ النبی ﷺ کی نسبت سے دیگر امور سرانجام دینا شریعت کی نظر میں کیا حیثیت رکھتا ہے؟؟ کیا یہ کام حضور اقدس ﷺ، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، حضرات تابعین اور تبع تابعین رحمہم اللہ سے ثابت ہیں؟ اگر ثابت ہیں تو ظاہر ہے کہ پھر تو کسی مسلمان کے لیے اس میں تردُّد کی گنجائش نہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ حضور اقدس ﷺ کے 23 سالہ عہدِ نبوت میں ربیع الاوّل میں میلاد کے نام پر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، پھر تقریبًا 30 سال خلافتِ راشدہ کا زمانہ رہا، پھر تقریبًا دو سو سال تک خیر القرون کا زمانہ بنتا ہے، یہ پورا عرصہ ماہِ ربیع االاوّل میں جشنِ میلاد سے خالی نظر آتا ہے، تو کیا وجہ ہے کہ انھوں نے عشق کے نام پر یہ جشن نہیں منایا؟ اور اس کے تمام تر اسباب موجود ہونے کے باوجود بھی انھوں نے یہ عید ایجاد نہیں کی، تو آج یہ سب کچھ کیسے درست ہوسکتا ہے؟؟ آج یہ عشق کے نام پر کیسے اپنایا جاسکتا ہے؟؟ آج یہ حضور اقدس ﷺ کے ساتھ عشق کا معیار کیسے بن سکتا ہے؟؟ اس تمام صورتحال سے عید میلاد کا بدعت ہونا بخوبی واضح ہوجاتا ہے۔
*جشنِ عید میلاد النبی ﷺ اور دیگر منکَرات کا جائزہ:*
جشنِ عید میلاد النبی ﷺ کے ناجائز اور بدعت ہونے سے متعلق متعدد مفصّل اور مدلّل کتب تحریر کی جاچکی ہیں جن میں بڑی تفصیل سے اس مسئلے کی مکمل حقیقت واضح کی گئی ہے، اور یہ مضامین اس قدر کثرت سے لکھے گئے ہیں کہ عید میلاد کی حقیقت سمجھنے کے لیے یہ کافی ہیں، اور ان کتب میں اُن خود ساختہ اور بے بنیاد دلائل کے مدلّل جوابات بھی ہیں جو کہ عید میلاد کو جائز بلکہ مستحب قرار دینے کے لیے گھڑے گئے ہیں۔ یہ حقیقت اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ عید میلاد النبی ﷺ اپنی ذات میں ایک بدعت عمل ہے، گویا کہ اگر اس میں کوئی اور ناجائز اور غیر شرعی کام نہ بھی ہو تب بھی اس کے ناجائز اور بدعت ہونے میں کوئی تردُّد اور شک نہیں کیوں کہ دین اسلام میں اس کا کوئی تصور ہی نہیں۔
اسی کے ساتھ ساتھ مزید افسوس ناک صورتحال یہ بھی ہے کہ جشنِ عید میلاد منانے کی آڑ میں بہت سے گناہوں اور غیر شرعی امور کا بھی ارتکاب کیا جاتا ہے جن میں سال بہ سال اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
ذیل میں عید میلاد سے متعلق چند بنیادی باتیں ذکر کی جاتی ہیں تاکہ مختصر انداز میں اس کی حقیقت واضح ہوسکے:
جشنِ عید میلاد النبی ﷺ کے بدعت اور ناجائز ہونے کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ قرآن وسنت، حضرات صحابہ کرام اور خیر القرون کے مبارک زمانوں سے اس کا ثبوت نہیں ملتا جس کی تفصیل ماقبل میں بیان ہوچکی۔ بلکہ یہ بدعت 6 صدی ہجری کے بعد ایجاد ہوئی، تفصیل کے لیے دیکھیے حضرت علامہ سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ کی مایہ ناز کتاب ”راہ سنت“۔
ماہِ ربیع الاوّل کو خاص کرکے بلکہ لازم سمجھ کر ذکرِ ولادت باسعادت کرنا، حضور اقدس ﷺ کا ذکرِ مبارک کرنا اور سیرت کے جلسے منعقد کرنا شریعت کے خلاف ہے کیوں کہ شریعت نے جو عمل کسی ماہ کے ساتھ خاص نہیں کیا اسے کسی ماہ یا دن کے ساتھ خاص کرنا اور اسے لازم سمجھنا شرعًا درست نہیں، بلکہ یہ بدعت کے زمرے میں آتا ہے جیسا کہ ایصالِ ثواب کے نام پر تیجہ، چالیسوں وغیرہ کا حکم ہے۔ آجکل تو اس کو ایسا لازم سمجھا جانے لگا ہے کہ جو حضرات اس ماہ ربیع الاوّل میں عید میلاد نہیں مناتے اور عید میلاد کے نام پر جلسے جلوس نہیں کرتے ان کو تنقید وملامت کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کے عشقِ رسالت کو شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے، اور یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ ان کے دل میں حضور اقدس ﷺ کی محبت نہیں ہے، یہ لوگ حضور اقدس ﷺ کے ذکر کو پسند نہیں کرتے، معاذ اللہ۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام باتیں شریعت کے خلاف اور ناجائز ہیں۔
حضور اقدس ﷺ کا یومِ ولادت منایا جاتا ہے، حالاں کہ اسلام میں کسی شخصیت کے دن منانے کا کوئی تصور ہی نہیں، اس لیے حضور اقدس ﷺ کی ولادت کا دن منانا شریعت کے خلاف ہے۔
حضور اقدس ﷺ کے یومِ ولادت کو عید میلاد النبی ﷺ کا نام دے کر عید منائی جاتی ہے حالاں کہ اسلام میں اس عید کا کوئی تصور ہی نہیں۔
جشن عید میلاد کے نام پر چراغاں کیا جاتا ہے اور جھنڈے لگائے جاتے ہیں، حالاں کہ دین میں نہ تو عید میلاد کا کوئی تصور ہے اور نہ ہی اس کے لیے چراغاں کرنے اور جھنڈے وغیرہ لگانے کا، اس لیے یہ بھی شریعت کے خلاف ہے۔
بعض مقامات پر عید میلاد منانے کے لیے چوری کی بجلی استعمال کی جاتی ہے جس کا حرام ہونا واضح ہے۔
عید میلاد النبی ﷺ کا جلوس نکالا جاتا ہے حالاں کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں۔
عید میلاد کے جلسے اور جلوس کے لیے راستوں کو بند کردیا جاتا ہے جس سے گزرنے والوں کو تکلیف کا سامنا ہوتا ہے، حالاں کہ شریعت میں اس کی ممانعت ہے۔
عید میلاد کے نام پر رات بھر عمومی اسپیکر سے نعت یا سیرت بیان کرکے محلے والوں کو تکلیف دی جاتی ہے جو کہ سراسر ناجائز حرکت ہے۔
بعض مقامات پر عید میلاد کے جلسوں اور تقاریب میں آلاتِ موسیقی اور موسیقی کے طرز کے ساتھ نعت پڑھی جاتی ہے جو کہ غیر شرعی عمل بلکہ نہایت ہی بے ادبی ہے۔
بعض مقامات پر عید میلاد کے نام پر مرد وزن کا مخلوط اجتماع منعقد کیا جاتا ہے جس کا ناجائز ہونا واضح ہے۔
بہت سے خطیب حضرات میلاد کی مجالس میں غیر معتبر روایات اور منگھڑت واقعات بھی بیان کرتے رہتے ہیں جو کہ شرعًا ممنوع ہے۔
عید میلاد کے نام پر کھانے کی چیزیں تقسیم کی جاتی ہیں، شربت کی سبیلیں لگائی جاتی ہیں اور اس کے فضائل بھی بیان کیے جاتے ہیں، واضح رہے کہ ایک تو عید میلاد کے نام پر ان کھانے پینے کی تقسیم ہی غیر شرعی ہے، دوم یہ کہ ان چیزوں کو ماہ ربیع الاوّل کے ساتھ خاص کرنا بھی غیر شرعی عمل ہے، ایسی باتیں صحابہ کرام اور تابعین عظام سے ثابت نہیں۔
الغرض ماہ ربیع الاوّل میں عید میلاد اور عشق نبوی کے نام پر شرعی احکامات کی پامالی اور بدعات کی ترویج کا سلسلہ زور وشور سے جاری رہتا ہے۔
*جشنِ عید میلاد سے متعلق اختلاف کن باتوں میں ہے؟؟*
یہ بات سمجھنا بھی نہایت ہی اہم ہے کہ جشن میلاد منانے والےحضرات اور اس کو بدعت کہنے والے حضرات کے مابین کن باتوں میں اختلاف ہے، تاکہ صحیح نقطہ نظر واضح ہوسکے ورنہ تو جشنِ عید میلاد منانے والوں کی جانب سے ایسے دلائل دیے جاتے ہیں جو فریقین کو بھی تسلیم ہوتے ہیں، اسی طرح جشنِ عید میلاد سے منع کرنے والے حضرات پر طرح طرح کے الزامات بھی لگائے جاتے ہیں، حالاں کہ یہ سب کچھ غلط فہمی یا ناسمجھی کا نتیجہ ہے، اس لیے یہ سمجھیے کہ جشنِ میلاد منانے والے حضرات اور اس کو بدعت کہنے والے حضرات کے مابین کن باتوں میں اختلاف ہے اور کن باتوں میں اتفاق ہے؟؟
*درج ذیل باتوں پر فریقین کا اتفاق ہے:*
حضور اقدس ﷺ کی وِلادت باسعادت میں اختلاف نہیں۔
حضور اقدس ﷺ کی دنیا میں تشریف آوری کے نعمت، باعثِ رحمت اور باعثِ ہدایت ہونے میں اختلاف نہیں۔
حضور اقدس ﷺ کی دنیا میں تشریف آوری پر خوش ہونے اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرنے کے معاملے میں اختلاف نہیں۔
حضور اقدس ﷺ کی سیرت کے تذکرے کرنے، حالات وواقعات بیان کرنے اور زندگی کا ہر ہر پہلو بیان کرنے کے باعثِ اجر وثواب ہونے اور باعثِ نزولِ برکات ہونے میں اختلاف نہیں۔
حضور اقدس ﷺ کے ساتھ عشق ومحبت کے ضروری بلکہ اہم ایمانی جُز ہونے میں اختلاف نہیں۔
حضور اقدس ﷺ کی تعلیمات کو اپنانے کی اہمیت میں اختلاف نہیں۔
حضور اقدس ﷺ کی شان مبارک میں نعت لکھنے اور نعت پڑھنے کے باعثِ اجرو ثواب ہونے میں اختلاف نہیں۔
حضور اقدس ﷺ پر درود شریف بھیجنے کی فضیلت اور اہمیت میں اختلاف نہیں۔
حضور اقدس ﷺ کی مدح میں شرعی حدود میں رہتے ہوئے سیرت کا جلسہ یا نعت کی محفل منعقد کرنے میں اختلاف نہیں۔
حضور اقدس ﷺ کی ولادت باسعادت کے تذکرے بیان کرنے کی اہمیت وفضیلت میں اختلاف نہیں۔
یہ وہ باتیں ہیں جن پر اتفاق ہے، اس لیے ان باتوں کے اِثبات کے لیے دلائل دینے کی حاجت نہیں کیوں کہ یہ سب باتیں پہلے ہی سے مسلّم ہیں اور عمومًا عید میلاد سے متعلق جو دلائل دیے جاتے ہیں وہ انھی باتوں کے بارے میں ہوتے ہیں، جس سے ان دلائل کا بے بنیاد ہونا بخوبی واضح ہوجاتا ہے۔
اب ذرا ملاحظہ کیجیے کہ اختلاف اور اعتراض کی باتیں کونسی ہیں تاکہ معاملے کی صحیح صورتحال واضح ہوسکے۔
*درج ذیل باتوں میں اختلاف ہے:*
ماہِ ربیع الاوّل کو خاص کرکے بلکہ لازم سمجھ کر ذکرِ ولادت باسعادت کرنے، حضور اقدس ﷺ کا ذکرِ مبارک کرنے اور سیرت کے جلسے منعقد کرنے میں اختلاف ہے۔
اس ماہ ربیع الاوّل میں جشنِ عید میلاد نہ منانے والوں کو تنقید وملامت کا نشانہ بنانے پر اعتراض ہے۔
شخصیت کا دن منانے میں اختلاف ہے جس کا اسلام میں کوئی تصور ہی نہیں۔
یومِ ولادت کا جشن منانے میں اختلاف ہے۔
اسے عید میلاد النبی ﷺ کا نام دینے اور اس میں عید کا سماں پیدا کرنے میں اختلاف ہے۔
جشن میلاد کے نام پر چراغاں کرنے، جھنڈے وغیرہ لگانے، راستوں کو بند کرنے اور رات بھر عمومی اسپیکر سے نعت یا سیرت بیان کرکے محلے والوں کو تکلیف دینے پر اعتراض ہے۔
عید میلاد کا جلوس نکالنے پر اعتراض ہے۔
آلاتِ موسیقی اور موسیقی کے طرز کے ساتھ نعت پڑھنے پر اعتراض ہے۔
عید میلاد کے نام پر مرد وزن کی مخلوط تقاریب منعقد کرنے پر اعتراض ہے۔
عید میلاد کے نام پر کھانے پینےکی چیزیں تقسیم کرنے، شربت کی سبیلیں لگانے اور اس کے خود ساختہ فضائل بیان کرنے میں اختلاف ہے۔
عشق نبوی کے نام پر شرعی احکامات کی پامالی اور بدعات کی ترویج پر اعتراض ہے۔
اور یہ اختلاف اور اعتراض اس لیے ہے کہ حضور اقدس ﷺ کے 23 سالہ عہدِ نبوت میں ربیع الاوّل میں میلاد کے نام پر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، پھر تقریبا 30 سال خلافت راشدہ کا زمانہ رہا، پھر تقریبا دو سو سال تک خیر القرون کا زمانہ بنتا ہے، یہ پورا عرصہ ماہِ ربیع الاوّل میں جشنِ میلاد سے خالی نظر آتا ہے، تو کیا وجہ ہے کہ انھوں نے عشق کے نام پر یہ جشن نہیں منایا؟ اور اس کے تمام تر اسباب موجود ہونے کے باوجود انھوں نے اسے ایجاد نہیں کیا تو آج یہ کیسے درست ہوسکتا ہے؟؟ آج یہ عشق کے نام پر کیسے اپنایا جاسکتا ہے؟؟ آج یہ حضور اقدس ﷺ کے ساتھ عشق کا معیار کیسےبن سکتا ہے؟؟ ان باعثِ اعتراض واختلاف باتوں کا ثبوت ہونا چاہیے، باقی جو باتیں فریقین کےنزدیک مسلّم ہیں ان کا ثبوت دینے کی حاجت نہیں۔ اس تفصیل کو سمجھنے کے بعد اُن دلائل کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے جو عید میلاد منانے کے لیے دیے جاتے ہیں۔
*اختلاف کی نوعیت کو سمجھیے:*
ماقبل کی یہ مکرّر تفصیل صرف اسی لیے بیان کی گئی کہ اختلاف کی نوعیت واضح ہوجائے اور یہ نوعیت سمجھنا نہایت ہی اہم ہےکیوں کہ فریقِ مخالف کی جانب سے ایسی باتیں کی جاتی ہیں اور ایسے خود ساختہ دلائل دیے جاتے ہیں کہ حقیقت سے ناواقف ایک عام آدمی پریشان ہوجاتا ہے، اس کی مثال ایسی ہے کہ اگر آپ کسی شخص سے کہیں کہ آپ جو اذان سے پہلے درود وسلام پڑھتے ہیں یہ کہاں سے ثابت ہے؟ اور وہ آپ کو جواب میں درود شریف کی فضیلت اور اہمیت بیان کرنا شروع کردے حتی کہ وہ آپ کو یہ تک کہہ دے کہ آپ درود وسلام کے منکر ہیں!! ظاہر ہے کہ یہ تو نہایت ہی غلط طرزِ عمل ہے کیوں کہ درود شریف کی فضیلت اور اہمیت میں تو کوئی اختلاف نہیں، اس لیے اس کے لیے دلائل دینے کی حاجت نہیں، جبکہ اصل سوال اور اختلاف تو اذان سے پہلے درود وسلام سے متعلق ہے جس پر قرآن وسنت سے کوئی دلیل پیش نہیں کی جاسکتی! یہی نوعیت عید میلاد سے متعلق بھی ہے کہ جب انھیں عید میلاد سے منع کیا جاتا ہے اور اسے بدعت قرار دیا جاتا ہے تو ان کی طرف سے دو کام سامنے آتے ہیں:
عید میلاد کے ثبوت کے لیے وہی دلائل دیے جاتے ہیں جو یا تو خود ساختہ ہوتے ہیں اور یا ان کا تعلق عید میلاد سے ہوتا ہی نہیں بلکہ حضور اقدس ﷺ کے عام ذکر مبارک سے ہوتا ہے۔
دوسرا کام یہ کیا جاتا ہے کہ عید میلاد کو بدعت قرار دینے والوں کو گستاخِ رسول ﷺ قرار دیا جاتا ہے، اور یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ ان کے دل میں حضور اقدس ﷺ کی محبت نہیں ہے، یہ لوگ حضور اقدس ﷺ کے ذکر کو پسند نہیں کرتے۔۔ معاذ اللہ۔۔
*حضور اقدس ﷺ کی تاریخِ ولادت میں اختلاف سے واضح ہونے والا ایک اہم نکتہ:*
یہ بات بخوبی واضح ہے کہ حضور اقدس ﷺ کی تاریخِ ولادت کی تعیین میں امت کے اہلِ علم کا شدید اختلاف ہے جس کے نتیجے میں متعدد اقوال سامنے آتے ہیں، یہ اختلاف خود اس طرف اشارہ کررہا ہے کہ حضور اقدس ﷺ کی تاریخِ ولادت سے متعلق نہ تو حضور اقدس ﷺ نے کوئی حکم یا فضیلت بیان فرمائی، نہ ہی حضرات صحابہ کرام میں اس حوالے سے کسی خاص عمل یا جشن وغیرہ کا اہتمام تھا اور نہ ہی حضرات تابعین وتبع تابعین میں، کیوں کہ اگر اس تاریخ سے متعلق حضور اقدس ﷺ، حضرات صحابہ وتابعین کرام میں کوئی مخصوص عمل یا اہتمام یا جشن وغیرہ رائج ہوتا تو امت میں اس تاریخ ِ ولادت سے متعلق اس قدر اختلاف نہ ہوتا۔ اس اہم نکتے میں ہر مسلمان کے لیے بہت بڑا سبق ہے!!
*حضور اقدس ﷺ کے ذکر مبارک کی قبولیت کی شرائط:*
حضور اقدس ﷺ کا ذکر مبارک اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تب قبول ہوسکتا ہے اور اس کو نیکی تب قرار دی جاسکتی ہے جب اس میں دو باتیں پائی جائیں:
حضور اقدس ﷺ کا ذکر مبارک شریعت کی تعلیمات کے مطابق کیا جائے یعنی اسی طریقے سے کیا جائے جو قرآن وسنت اور حضرات صحابہ کرام سے ثابت ہو، یہی وجہ ہے کہ حضور اقدس ﷺ کا ایسا ذکر جو شریعت کی تعلیمات کے مطابق نہ ہو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہرگز قابلِ قبول نہیں۔
حضور اقدس ﷺ کا ذکر مبارک اِخلاص کے ساتھ ہو کہ صرف اللہ کی رضا کی خاطر کیا جائے، یہی وجہ ہے کہ جو عمل لوگوں کے دِکھلاوے، ریاکاری اور نام ونمودکے لیے کیا جائے تو اللہ کے ہاں اس کی قبولیت نہیں ہوتی۔
حضور اقدس ﷺ کے ذکر مبارک سمیت کسی بھی نیکی کی قبولیت کے لیے مذکورہ بالا دو باتیں پائی جانی ضروری ہیں، اگر ان میں سے کوئی ایک بات بھی نہ پائی گئی تو وہ عمل ہرگز قبول نہیں ہوگا، بلکہ وہ نیکی کہلائے جانے کےقابل ہی نہیں ہوتی۔ ان دو شرائط کو سمجھنے اور مدّ نظر رکھنے کی بڑی اہمیت اور ضرورت ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے نفل پڑھنا بہت بڑی نیکی اور اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہے، لیکن اگر کوئی شخص یہی نفل مکروہ اوقات میں ادا کرتا ہے تو اس کو ثواب تو کیا ملے گا بلکہ اُلٹا گناہ ملے گا، کیوں کہ مکروہ اوقات میں نفل نماز ادا کرنا جائز ہی نہیں، تو گویا کہ نیکی جب شریعت کی تعلیمات کے خلاف کی جائے تو وہ نیکی نیکی نہیں رہتی بلکہ گناہ بن جاتا ہے۔ شیطان کی اوّلین کوشش یہی ہوتی ہے کہ یہ اللہ کا بندہ حضور اقدس ﷺ کا ذکر مبارک کرے ہی نا، لیکن جب وہ کسی شخص کو اس سے روک نہیں پاتا تو اس کی دوسری چال یہی ہوتی ہے کہ اس کی یہ نیکی ہی برباد کردی جائے، اور نیکی برباد کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ اس نیکی کو شریعت کی تعلیمات اور حدود کے مطابق ادا نہ کرنے دیا جائے، بلکہ اس میں خود ساختہ باتیں یا بدعات ورسومات داخل کی جائیں۔ اس لیے حضور اقدس ﷺ کا ذکر مبارک تبھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہوسکتا ہے جب وہ اخلاص کے ساتھ شریعت کی تعلیمات کے مطابق کیا جائے۔
۔۔۔ بندہ مبین الرحمٰن
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
No comments:
Post a Comment