اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں
امیرالاسلام ہاشمی
دہقان تو مر کھپ گیا اب کس کو جگاوں،
اگتا ہے یہاں خوشہء گندم کہ جلاوں،
شاہین کا ہے گنبدِ شاہی پہ بسیرا،
کنجشکِ فرومایہ کو اب کس سے لڑاوں،
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناوں،
ڈوبا ہوا ڈونگے میں کہیں قاب میں گم ہے،
ہوٹل کے کسی گوشہء بیخواب میں گم ہے،
گم جس میں ہوا کرتا تھا آفاق وہ مومن،
مینڈک کی طرح اب کسی تالاب میں گم ہے،
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناوں،
ہر داڑھی میں تنکا ہے، ہر اک آنکھ میں ہے شہتیر،
مومن کی نگاہوں سے بدلتی نہیں تقدیر،
توحید کی تلوار سے خالی ہیں نیامیں،
اب ذوقِ یقیں سے نہیں کٹتی کوئی زنجیر،
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناوں،
ہاتھوں میں یہاں سب کے ہے فولاد کی تلوار،
ہے کند مگر فقر کی شمشیرِ جگر دار،
قرآں بھی وہی ہے، وہی یٰسیں، وہی طٰہٰ،
لیکن کوئی خالد ہے نہ اب حیدرِکرّار،
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناوں،
شاہیں کا جہاں آج ممولے کا جہاں ہے،
ملتی ہوئی ملا سے مجاہد کی اذاں ہے،
مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور،
شاہین میں اب طاقتِ پرواز کہاں ہے،
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناوں،
جھگڑے ہیں یہاں صوبوں کے ذاتوں کے نسب کے،
اگتے ہیں تہہِ سایہءگل خار غضب کے،
یہ دیس ہے سب کا مگر اسکا نہیں کوئی،
اس کے تنِخستہ پہ تو اب دانت ہیں سب کے،
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناوں،
بہتا ہے علاقائی تعصب کا وہ دھارا،
نفرت کو اگاتا ہے ہر اک بیج ہمارا،
اقبال نے جس مٹی کو زرخیز کہا تھا،
وہ آج اگر نم ہو تو بن جاتی ہے گارا،
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناوں،
بے باکی و حق گوئی سے شرماتا ہے مومن،
مکاری و روباہی پہ اتراتا ہے مومن،
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو،
وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن،
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناوں،
مَرمَر کی سِلوں سے کوئی بیزار نہیں ہے،
رہنے کو حرم میں کوئی تیار نہیں ہے،
کہنے کو ہر اک شخصمسلمان ہے لیکن،
دیکھو تو کہیں نام کو کردار نہیں ہے،
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناوں،
محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے،
جمہور سے سلطانیءجمہور ڈرے ہے،
تھامے ہوئے دامن ہے یہاں جو بھی خودی کا،
مَرمَر کے جیے ہے کبھی جی جی کے مَرے ہے،
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناوں،
دیکھو تو ذرا محلوں کے پردوں کو اٹھا کر،
شمشیر و سِناں رکھی ہیں طاقوں میں سجا کر،
آتے ہیں نظر مسندِ شاہی پہ رنگیلے،
تقدیرِامم سو گئی طاؤس پہ آکر،
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناوں،
مکاری و غداری و عیاری و ہیجان،
اب بنتا ہے ان چار عناصر سے مسلمان،
قاری اسے کہنا تو بڑی بات ہے یارو،
اس نے تو کبھی دُور سے دیکھا نہیں قرآن،
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناوں،
پابند نہیں خوبیءاعمال کا مومن،
قائل نہیں اس قسم کے جنجال کا مومن،
سرحد کا ہے مومن، کوئی بنگال کا مومن،
ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں اقبال کا مومن،
اقبال ترے دیس کا کیا حال سناوں۔۔
No comments:
Post a Comment