امام اعظم ابوحنیفہ
امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللّٰہ
پر دو اعتراضات کے زبردست جوابات
:.....از افادات: حضرت الشیخ متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللّٰہ"
قارئین ذی وقار! حرماں نصیب لوگوں نے امام صاحب کی شخصیت پر ویسے تو کئی ’’لام کاف‘‘ کہے ہیں اور اتہامات لگائے اور پھیلائے ہیں لیکن ان میں چند ایک کو مخالفین بہت مضبوط سمجھتے ہیں۔ ذیل میں اللہ کی توفیق سے ان شبہات کا جائزہ لیتے ہیں۔
خطیب بغدادی کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے امام عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو پیش کیا جاتا ہے کہ انہوں نے فرمایا
""کان ابوحنیفۃ یتیماً فی الحدیث""
تاریخ بغداد، خطیب ج11 ص 292:
کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ حدیث میں ’’یتیم‘‘ تھے۔
محمد یوسف جے پوری نے بھی اسی بات کو ’’قیام اللیل‘‘ کے حوالے سے نقل کیا ہے۔
﴿حقیقۃ الفقہ 118﴾
یتیما فی الحدیث کا کلمہ تنقیص اور جرح کے لئے نہیں بلکہ کلمہ مدح ہے کیونکہ محاورہ میں ’’یتیم‘‘ کے معنی یکتا، منفرد اور بے مثل کے بھی آتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
""کل شیٔ مفرد یعنی نظیرہ فہو یتیم یقال درۃ یتیمۃ۔""
الصحاح امام جوہری ج 5 ص 342 ،
مختار الصحاح امام رازی ج 1 ص5 4 7 ،
المعجم الوسط ج 2 ص 3 6 0 1
ہر وہ اکیلی چیز جس کی مثال کمیاب ہو ’’یتیم ‘‘ہے جیسے کہاجاتاہے درۃ یتیمۃ نایاب موتی
باقی امام عبداللہ بن مبارک تو امام ابوحنیفہ کے ایسے مداح ہیں کہ ان کی زبان مبارک سے امام صاحب کے بارے میں ہمیشہ مدح اور منقبت ہی صادر ہوئی ہے۔
مثلا وہ خود فرماتے ہیں کہ:
افقہ الناس ابوحنیفۃ مارایت فی الفقہ مثلہ
تہذیب التہذیب لابن حجر ج 6 ص 559، 560
لوگوں میں سب سے بڑے فقیہ ابوحنیفہ ہیں ، میں نے فقہ میں ان کی مثل کسی کو نہیں دیکھا۔
یہی امام عبداللہ بن مبارک یہ بھی فرماتے ہیں کہ:
لولا ان اللہ تعالیٰ اغاثنی بابی حنیفۃ وسفیان کنت کسائر الناس
تہذیب التہذیب لابن حجر ج6ص559،560
اگر اللہ تعالیٰ امام ابوحنیفہ اور امام سفیان کے ذریعہ میری مدد نہ کرتا تو میں عام لوگوں کی طرح ہوتا۔
امام ابوحنیفہ کی مزید مدح کرتے ہوئے امام عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں
ان کان الاثر قدعرف واحتیج الی الرایٔ؛ فرای مالک وسفیان وابی حنیفۃ وابوحنیفہ احسنھم وادقھم فطنۃ واغوصھم علی الفقہ وھوافقہ الثلاثۃ۔
تاریخ بغداد ج 11 ص 266
اگر اثر(حدیث)میں فقہ کی ضرورت پیش آئے تو اس میں امام مالک امام سفیان اور امام ابوحنیفہ کی رائے معتبر ہوگی۔ امام ابوحنیفہ ان سب میں عمدہ اوردقیق سمجھ کے مالک ہیں فقہ کی باریکیوں میں گہری نظر رکھنے والے اور تینوں میں بڑے فقیہ ہیں۔
بلکہ امام ابو حنیفہ پر ناز کرتے ہوئے عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ:
ھاتوا فی العلماء مثل ابی حنیفۃ والا فد عونا ولا تعذبونا
مناقب موفق مکی ج2 ص 52
علماء میں امام ابوحنیفہ کی مثل لاؤ ورنہ ہمیں معاف رکھو اور کوفت نہ دو۔
ان کے علاوہ کئی اقوال امام صاحب کی منقبت وشان میں امام عبداللہ بن مبارک میں مختلف کتب میں پائے جاتے ہیں۔ لہذا یتیما فی الحدیث سے جرح سمجھنا امام ابوبکر خطیب بغدادی کی غلطی ہے جسے مؤلف ’’حقیقۃ الفقہ‘‘ نے محض عناد کی وجہ پیش کیا ہے۔
اس کے علاوہ حافظ ابوالحسن احمد بن ایبک ابن الدمیاطی ؒم749ھ کو قول نقل کر دیاجائے جو اس امر میں کافی ہے، فرماتے ہیں:
ہذا بالمدح اشبہ منہ بالذم فان الناس قد قالوا درۃ یتیمۃ اذاکانت معدودۃالمثل وھذا اللفظ متداول للمدح لا نعلم احدا قال بخلاف۔ وقیل؛ یتیم دھرہ وفرید عصرہ وانما فھم الخطیب قصر عن ادراک مالایجھلہ عوام الناس۔
المستفاد من ذیل تاریخ بغداد ج2ص93
یتیما فی الحدیث کالفظ مدح کے زیادہ مشابہ ہے نہ کہ ذم کے کیونکہ عام طور پر جب کسی چیز کی مثالیں کم ملتی ہو تو لوگ ’’د رۃ یتیمۃ ‘‘ کا لفظ بولتے رہتے ہیں اور یہ لفظ عام طورپر رائج ہے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ کسی نے اس میں اختلاف کیاہو جیسا کہ یتیم دھراور فرید عصر وغیرہ الفاظ بولے جاتے ہیں خطیب بغدادی کی فہم اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہی جس سے عوام بھی بے خبرنہیں۔
اس کے بعد قارئین ہم ایک مشہور اعتراض کی طرف آتے ہیں جو آج کل ہر ایرے غیرے کی تحریر اور تقریر میں سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے کہ ’’تاریخ ابن خلدون میں ہے:
""فابو حنیفۃ یقال بلغت روایۃ الی سبعۃ عشر حدیثاً""
﴿حقیقۃ الفقہ ص118؛ محمد یوسف غیرمقلد و دیگر کتب غیر مقلد﴾
امام ابوحنیفہ کی نسبت کہاگیا ہے کہ ان کو سترہ حدیثیں پہنچی ہیں۔ ‘‘
اس کا جواب بہت واضح ہے کہ علامہ عبدالرحمن ابن خلدون م808ھ نے کسی مجہول شخص کا قول نقل کیاہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ خود لفظ ’’یقال‘‘ سے تعبیر کرنے میں اس کے ضعف اورباطل ہونے کی طرف اشارہ بھی کر دیا۔
بلکہ علامہ ابن خلدون نے اس کایوں رد فرمایا ہے کہ
وقد تقول بعض المبغضین المتعسفین الی ان منھم من کان قلیل البضاعۃ فی الحدیث فلھذا قلت روایتہ ولا سبیل الی ھذا المعتقد فی کبار الائمۃ لان الشریعۃ انما توخذ من الکتاب والسنۃ۔
تاریخ ابن خلدون ج1ص666
بغض سے بھرے اور تعصب میں ڈوبے لوگوں نے بعض ائمہ کرام پر یہ الزام لگایاہے کہ ان کے پاس حدیث کا سرمایہ بہت کم تھا اسی وجہ سے ان کی روایتیں بہت کم ہیں۔ کبار ائمہ کی شان میں اس قسم کی بدگمانی رکھنے کی کوئی معقول وجہ نہیں کیونکہ شریعت قرآن وحدیث سے لی جاتی ہے۔
اس صراحت سے معلوم ہواکہ سترہ حدیثیں روایت کرنے کا الزام وغیرہ محض متعصبین کا تعصب ہے ، ائمہ حضرات کے دامن اس جیسے الزام سے پاک ہیں۔
مناسب معلوم ہوتاہے کہ صحیح راویات واسانید سے مروی خبار وآثار بیان کردیے جائیں جن سے امام صاحب کی حدیث میں وسعت اطلاع ، وفورعلم اور جلالت شان معلوم ہو۔.چنانچہ
1:امام ابوعبداللہ الصیمری اور امام موفق بن احمدمکی نے اپنی سند سے امام حسن بن صالح سے روایت کیا ہے:
امام ابوحنیفہ ناسخ منسوخ احادیث کے پہچان میں بہت ماہر تھے۔ حدیث جب نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے اصحاب سے ثابت ہو تو اس پر عمل کرتے تھے اور اہل کوفہ (جو اس وقت حدیث کا مرکز تھا)کی احادیث کے عارف تھے، حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے آخری فعل کے حافظ تھے۔
اخبار ابی حنیفہ للصیمری ص 11، مناقب موفق مکی ج 1 ص.98
2:امام موفق مکی سند صحیح کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ امام ابویوسف فرماتے ہیں: (امام ابو حنیفہ کے قول کی تقویت میں)کبھی مجھے دواحادیث ملتیں اور کبھی تین میں انہیں امام صاحب کے پاس لاتا تو آپ بعض کو قبول کرتے بعض کو نہیں اور فرماتے کہ یہ حدیث صحیح نہیں یا معروف نہیں ، تو میں عرض کرتا حضرت آپ کو کیسے پتا چلا ؟ تو فرماتے کہ میں اہل کوفہ کے علم کوجانتاہوں۔
مناقب موفق مکی ج 2 ص151،
مناقب کردری ج2 ص103
3:امام یحییٰ بن نصر بن حاجب فرماتے ہیں:
میں امام ابوحنیفہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان کا گھر کتابوں سے بھرا ہوا تھا میں نے عرض کی یہ کیاہیں ؟ فرمایا:
یہ ساری احادیث ہیں ، میں ان سے وہ بیان کرتا ہوں جس سے عوام کو نفع ہو۔
مناقب ابی حنیفہ للنیسا بوری بحوالہ مناقب کردری ج1 ص 151 ،
مسند ابی حنیفہ لابی نعیم بحوالہ الجواہر المنیفہ للزیدی ص 31
مناقب موفق مکی ج1 ص95
4:امام حافظ اسماعیل العجلونی الشافعی م1162 ھ فرماتے ہیں:
ابوحنیفہ فہو رضی اللہ عنہ حافظ حجۃ فقیہ۔
عقد الجوہرالثمین للعجلونی ص4
قارئین آپ اندازہ فرمائیں کہ اس قول میں امام صاحب کو حافظ اور حجت کہاگیاحافظ ایک لاکھ احادیث کی سند ومتن اور احوال رواۃ کے جاننے والے کو کہتے ہیں اور حجۃ تین لاکھ حدیثوں کے حافظ کو کہتے ہیں۔
قواعد فی علوم الحدیث؛ عثمانی ص29
5: امام محمد بن سماع فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ نے اپنی تمام تصانیف میں ستر ہزار سے کچھ اوپر احادیث ذکر کی ہیں اوراپنی کتاب الآثار چالیس ہزار احادیث سے انتخاب کرکے لکھی ہے۔
مناقب کردری ج1 ص151 ،
ذیل الجواہر المضیئہ؛ ملا علی القاری ج2 ص 474
امام اعظم پر قلت حدیث کا الزام غلط محض ہے آپ کثیر الحدیث تھے اور اصطلاح محدثین میں حافظ وحجت تھے۔رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ واسعۃ۔
اقتباس از مقالہ:
""امام اعظم ابوحنیفہ اور اعتراضات کا علمی جائزہ""
No comments:
Post a Comment