احکامات و مسائل شب برأت
« اللهمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَعْبَانَ وبَلِّغْنَا رَمَضَانَ »
ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک
محترم قارئین کرام ! جس طرح شبِ معراج میں لوگ افراط و تفریط سے کام لیتے ہیں اور غلط رسوم ادا کرتے ہیں اسی طرح نصف شعبان کی رات بھی بعض لوگ فضول خرچی اور خلاف شرع بدعات کا ارتکاب کرتے ہیں، لہذا ضروری ہے کہ سنت کی روشنی میں اس رات سے متعلق وضاحت کر دی جائے کہ یہ رات کیسی ہے ؟ اور اس کے احکام کیا ہیں ؟ تاکہ لوگ غلطیوں سے بچ کر اس رات سے متعلقہ احکام کو انجام دینے کی کوشش کریں۔
امام زہریؒ نے حضور نبی کریم ﷺ کی یہ حدیث بیان کی ہے (تختم الاجال من شعبان الی شعبان) یعنی ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک زندگیوں کے فیصلے اس رات (شب برأت) میں ہوجاتے ہیں، ایک شخص نکاح کرتا ہے، اسکے ہاں اولاد پیدا ہوتی ہے مگر اسی سال اس کا نام مُردوں میں لکھا ہوتا ہے کہ یہ شخص آئندہ شعبان تک زندہ نہیں رہے گا، گویا موت و حیات کے فیصلے اس رات میں طے پاتے ہیں۔
اس رات میں کیا ہوتا ہے ؟
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے جناب نبی کریم ﷺ نے فرمایا، عائشہؓ ! کیا تم جانتی ہو اس رات (شب برأت) میں کیا ہوتا ہے ؟ عرض کیا حضورؐ ! آپ ہی بتلائیں کہ کیا ہوتا ہے، فرمایا جو بچہ آئندہ سال پیدا ہونے والا ہوتا ہے یا جو شخص مرنے والا ہوتا ہے، اس رات میں اس کا نام لکھ کر فرشتوں کو بتلا دیا جاتا ہے نیز فرمایا کہ اس رات میں انسانوں کے اعمال ﷲ کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں اور اسی رات میں ان کو اگلے شعبان تک ملنے والی روزی کا حکم بھی ہوتا ہے کہ اس آدمی کو آمدہ سال اتنی روزی دینی ہے۔
پندرہویں شعبان کے معاملات
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شب برأت یعنی پندرہویں شعبان کی رات کو بعض معاملات الگ کر کے فرشتوں کے سپرد کردیئے جاتے ہیں اور وہ فرشتے سال بھر حکم خداوندی کی تعمیل کرتے رہتے ہیں، اس رات کی فضیلت میں آتا ہے کہ جو شخص اس رات کثرت سے عبادت کرتا ہے اور ﷲ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتا ہے، اس کو مغفرت کا پروانہ لکھ دیا جاتا ہے البتہ بعض آدمیوں کو اس موقع پر بھی معاف نہیں کیا جاتا، ان میں مشرک، قاتل، کینہ پرور، کاہن، ساحر، والدین کے نافرمان، مسلسل شراب نوش وغیرہ آتے ہیں۔
عام معافی کا اعلان
پندرہویں شعبان کی رات ﷲ تعالیٰ عام معافی کا اعلان کرتے ہیں، حدیث مبارکہ میں آتا ہے (یغفر لجمیع المسلمین) ان تمام مسلمانوں کو معافی مل جاتی ہے جو ﷲ تعالی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور توبہ کرتے ہیں، ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا (یطلع علی عبادہ فی لیلة من نصف شعبان) ﷲ تعالی پندرہویں شعبان کی رات کو خاص طور پر نزول رحمت فرماتا ہے یعنی اپنی رحمت اور تجلیات کو آسمان دنیا کی طرف متوجہ کردیتا ہے (فیغفر للمستغفرین) اور ان تمام کو معاف کردیتا ہے جو اس سے سچے دل سے معافی طلب کرتے ہیں، بیہقی شریف کی روایت کے الفاظ ہیں (یغفر للمستغفرین ویرحم المسترحمین) اس رات ﷲ تعالی معافی مانگنے والوں کو معاف فرما دیتا ہے اور جو لوگ رحم کے طالب ہوتے ہیں ان پر رحم فرماتا ہے۔
حضور ﷺ کا یہ ارشاد مبارک بھی ہے کہ میرے پاس جبرائیلؑ آئے اور کہا کہ پندرھویں شعبان کی رات بڑی متبرک رات ہے، اس رات کی برکت سے ﷲ تعالی بعض جہنمیوں کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے اور یہ حدیث مبارکہ تو مشہور و معروف ہے (یغفر الناس اکثر من شعر غنم بنی کلب) ﷲ تعالیٰ قبیلہ بنی کلب کی بھیڑ بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو معاف فرماتا ہے، عرب میں یہ قبیلہ زیادہ ریوڑ رکھنے کی وجہ سے مشہور تھا۔
شعبان کے روزے
امام بیہقیؒ نے یہ حدیث (دعوات کبیر) میں بیان کی ہے جو کہ مشکوٰة شریف میں بھی ہے، ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰة والسلام شعبان کے مہینہ میں کثرت سے روزے رکھتے تھے، میں نے عرض کیا حضورؐ! آپ کو شعبان کا مہینہ بڑا پسند ہے کہ آپ اس میں زیادہ روزے رکھتے ہیں، آپؐ نے فرمایا (ان ﷲ یکتب فیھا علی کل نفس میتتہ تلک سنة واحب ان یاتینی اجلی وانا صائم) بیشک اس مہینہ میں اس سال میں مرنے والے کا نام ﷲ تعالیٰ لکھ دیتا ہے اور میں پسند کرتا ہوں کہ میرا وقت ایسی حالت میں آئے کہ میں روزے سے ہوں لہذا میں اس مہینہ میں زیادہ روزے رکھتا ہوں، یہ ابولیلیٰ کی روایت ہے جو حسن درجہ کی ہے، امام منذریؒ نے بھی اس کو ترغیب و ترہیب میں بیان کیا ہے۔
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ حضورؐ ! رمضان کے بعد افضل روزے کون سے ہیں تو آپؐ نے فرمایا شعبان کے روزے افضل ہیں کیونکہ یہ رمضان کی تعظیم کیلئے ہوتے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا (اِذا کان نصف من شعبان فامسکوا عن الصوم) جب پندرہ شعبان گزر جائے تو پھر روزے رکھنا چھوڑ دو، اب کھا پی کر صحت بحال کرو اور رمضان کے روزے رکھنے کی تیاری کرو۔
بعض ضعیف روایات کا حکم
یاد رہے کہ فضائل شعبان و شب برأت کے سلسلہ میں بعض ضعیف روایات بھی بیان کی جاتی ہیں، اس ضمن میں امام ابن مہدیؒ جو بڑے محدث اور ائمہ نقد و جرح میں سے ہیں، فرماتے ہیں (اذا رؤینا فی فضائل الاعمال والثواب والعقاب والدعوات والعبادات تساھلنا۔ مستدرک حاکم) جب ہم اعمال کے فضائل ثواب، عقاب، ادعیا اور عبادات کے بارے میں روایات بیان کرتے ہیں تو نرمی اختیار کرتے ہیں اور ضعیف روایات بھی قبول کرکے ان پر عمل کرلیتے ہیں البتہ جہاں عقیدہ اور حلت و حرمت کا مسئلہ ہو وہاں قرآن پاک کی نص یا متواتر مشہور اور صحیح روایات ہی لیتے ہیں وہاں کمزور روایات کفایت نہیں کرتی بہرحال پندرھویں شعبان کے فضائل کے متعلق کچھ کمزور روایات بھی ہیں جن کو قبول کرلیا گیا ہے۔
پندرھویں شعبان کی عبادت
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ پندرھویں شعبان کی رات کو میں حضور ﷺ کو اچانک بستر سے گم پایا، اِدھر اُدھر تلاش کیا مگر آپ کہیں نظر نہ آئے، پھر میں جنت البقیع گئی تو دیکھا حضور ﷺ وہاں پر اہل قبور کیلئے دعا کر رہے ہیں، بعض محدثین نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے تاہم فضیلت کے بارے میں یہ بھی قابل عمل ہے، اس رات قبرستان میں جاکر دعا کرنا مستحب ہے۔
حنفی مسلک کے مطابق پندرھویں شعبان کی رات ﷲ تعالیٰ کی عبادت کرنا مستحب ہے، یہ استحباب اسی درجہ کا ہے جیسے عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی رات افضل ہے اور اس میں عبادت کرنا مستحب ہے یا جیسے سفر پر جاتے وقت اور سفر سے واپسی پر دو رکعت نماز پڑھنا مستحب ہے، ہر رات تہجد کی نماز پڑھنا مستحب ہے، اسی طرح نصف شعبان کی رات کی عبادت بھی مستحب ہے جس کا بہت بڑا اجر ہے۔
البتہ پندرھویں شعبان کی رات کیلئے کوئی خاص عبادت یا اس کی مقدار متعین نہیں ہے، جن روایات میں سو نفل پڑھنے کا ذکر ہے، وہ روایات صحت کو نہیں پہنچتیں بلکہ حسب استطاعت ہی ﷲ کی عبادت کرنا مستحب ہے ۔
غیر معمولی چراغاں کرنے کا مسئلہ
شب برأت میں غیر معمولی چراغاں کرنے کو محدثین کرامؒ بدعت قرار دیتے ہیں، (البحر الرائق) اور (فتاویٰ عالمگیری) و دیگر کتب میں یہ مسئلہ موجود ہے کہ اس رات گلیوں، بازاروں، گھروں یا مسجدوں میں زائد از ضرورت چراغاں کرنا مکروہ، بدعت اور اسراف میں داخل ہے، یہ بدعت سب سے پہلے خلفائے بنی عباس کے زمانے میں ایران کے برمکی خاندان والوں نے شروع کی تھی، یہ لوگ خلافت عباسیہ میں بعض اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے لہٰذا ان کی جاری کردہ یہ بدعت آسانی سے پھیل گئی، یہ لوگ پہلے مجوسی تھے اور پھر اسلام لائے، چونکہ یہ لوگ آگ کو متبرک اور معبود سمجھتے ہیں اور ان کے آتش کدوں میں چوبیس گھنٹے آگ جلتی رہتی ہے تو یہ لوگ مجوسیت سے اسلام میں داخل ہوتے وقت چراغاں کرنے یعنی آگ جلانے کی رسم بھی اپنے ساتھ لائے، یہ ایسا ہی ہوا جیسے برصغیر کے ہندو اسلام لاتے وقت ہندووانہ رسوم بھی اپنے ساتھ لے آئے اور پھر یہ مسلمانوں میں رائج ہوگئیں، چنانچہ ہندوؤں کے دسہرے اور دیوالی کی چراغاں کی رسم کو انہوں نے شب معراج، شب برأت اور میلاد کی چراغاں کے طور پر اپنا لیا اور بعد والے لوگ ان کو اسلام کا حکم سمجھ کر انجام دینے لگے۔
غیر شرعی افعال
چراغاں کرنے کے علاوہ بعض لوگ اس مبارک رات میں آتش بازی کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں جس سے نقصان کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا، بارود بازی سے سخت بدبو پیدا ہوتی ہے جس سے فرشتوں کو سخت نفرت ہے اور وہ دور چلے جاتے ہیں، اس ایک رات میں کروڑوں روپے کا بارود اڑایا جاتا ہے، جس سے نہ صرف مال کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ جانیں بھی تلف ہوجاتی ہیں، یہ مصیبت محض وعظ و نصیحت سے تو ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کیلئے حکومت کو حرکت میں آنا چاہیے، قانون اور تعزیر کے ذریعے اس لعنت کو ختم کرے مگر یہاں تو بارود بنانے کا لائسنس خود حکومت جاری کرتی ہے، وہ اس لعنت کو کیسے ختم کرے گی؟
اس رات میں عبادت و ریاضت، توبہ، استغفار، تلاوت کرنا، درود شریف پڑھنا، ایصال ثواب کرنا، غرباء ومساکین کو کھانا کھلانا یا ضرورت کی دیگر اشیاء مہیا کرنا تو سعادت کی بات ہے، اس کے برخلاف چراغاں کرلینا، آتش بازی کرنا، جھنڈیاں لگانا، دعوتیں کھا لینا اور نعرہ بازی کرکے سمجھنا کہ ہم نے شب برأت منا لی ہے اور اس کا حق ادا کردیا ہے، یہ کہاں کا انصاف ہے؟ اس رات کو بعض گھروں میں برتن بھی تبدیل کئے جاتے ہیں یا گھروں کی لیپا پوتی کی جاتی ہے، بعض مقامات پراس رات مسور کی دال پکانا ضروری سمجھا جاتا ہے، یہ سب فضولیات ہیں، شریعت میں ان کا کوئی جواز نہیں، اس رات کو کوئی خاص اہتمام کرنا غیر شرعی فعل ہے۔(ختم شد)
(افادات: مفسر قرآن محدث کبیر حضرت مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتیؒ)
No comments:
Post a Comment