Roshan Worlds: 40 Ways to Respect Your Parents

knowledge islamic quotes articles poims islamic education tips and tricks apps and games for pc android apps latest news for information technology

google Search

Showing posts with label 40 Ways to Respect Your Parents. Show all posts
Showing posts with label 40 Ways to Respect Your Parents. Show all posts

Saturday, June 6, 2020

ask-allah-for-everything

June 06, 2020 0
ask-allah-for-everything




خالق ! اللہ! رازق!  اللہ!


نظرآنے والی تصویرکوغورسے دیکھئے اورایک بار پھر سے دیکھئے ۔کیونکہ اس کے متعلق جومعلومات یہاں فراہم کی جائیں شاید یہ آپ کے قابل یقین نہ ہوں لیکن ہے بہرحال یہی حقیقت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس جہان رنگ وبومیں جتنی بھی مخلوقات پیداکی ہیں جیسے اللہ تعالیٰ ان تمام مخلوقات کاخالق ہے ویسے ہی اللہ تعالیٰ ان تمام مخلوقات کارازق بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشادفرماتے ہیں:’’اس کرہ ارض پربسنے والی تمام مخلوقات کارزق اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے‘‘ لہٰذا اس کرہ ارض پربسنے والے جتنے بھی حیوان ہیں ان سب کی غذائیں مختلف ہیں کوئی کھاس کھاتاہے توکوئی گوشت کھاتاہے کوئی پتے کھاتاہے توکوئی پھل کھاتاہے ۔غرض ہرکوئی مختلف قسم کی غذائیں کھاتاہے اوراللہ تعالیٰ ہرکسی کو اس کی خوراک مہیافرماتے ہیں ۔

ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ ہرکوئی اپنی اپنی خوراک کابندوبست کرتاہے اورحضرت انسان تو سب سے زیادہ فکرمندہے ۔بینک بیلنس بھی رکھتاہے اناج کاذخیرہ بھی کرتاہے۔اوراس کے ساتھ ساتھ لوٹ گھسوٹ بھی کرتاہے۔
قارئین کرام میں اپنی بات آگے بڑھانے سے پہلے تصویرمیں نظر آنے والے پرندے کے متعلق آپ کو بتاناچاہتاہوں کہ اس پرندے کانام ایجپٹین پلوربرڈ(egyptian plover bird) اوراسکی خوراک بھی عجیب ہے اوراس کی وصولی بھی بڑی عجیب ہے۔https://www.youtube.com/watch?v=aHlE0TTHu4c


دراصل مگرمچھ جب گوشت کھالیتاہے تو اس کے دانتوں میں کچھ چھوٹے چھوٹے ذرات پھنس جاتے ہیں ان کو نکالنے کی کوئی صورت نہیں ہوسکتی۔کیونکہ جوبھی مگرمچھ منہ میں ہاتھ ڈالے مارا جائے گا کہ یہ بہت ہی خطرناک درندہ ہے جو کسی کومعاف نہیں کرتا یہاں تک کہ انسان کوکھاجاتاہے۔مارے خوف کے کوئی اس کے قریب نہیں جاتا۔
یہ پرندہ اپنی خوراک اسی درندے کے منہ سے حاصل کرتاہے۔مگرمچھ کے گوشت کھانے کے بعدجوذرے اس کے منہ میں رہ جاتے ہیں یہ جاکے اس کے دانتوں سے چھوٹی سی چونچ کے ذریعے نکال نکال کے کھارہتاہے اوراس کاپیٹ بھرجاتاہے۔اورجتنی دیریہ پرندہ اس کے منہ میں بیٹھا رہتاہے یہ اپنا منہ کھلارکھتاہے اوریہ پرندہ بے خوف ہوکرکھاتارہتاہے۔ہے نا عجیب بات!
انسان کو اللہ تعالیٰ تمام کائنات میں اشرف المخلوقات بنایاہے اوراسے عقل وخرداورفہم ونظرکے جوہرسے بھی نوازا ہے ان نوازشات کاتقاضاتویہ تھاکہ انسان سے بڑھ کرکوئی خداپربھروسہ کرنے میں ثانی نہ ہوتاہے لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا۔اورحضرت انسان نے ہی سب سے پہلے خداپربھروسہ کرناچھوڑااورپھرآج تک ایسا چلاآرہاہے ۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادگرامی ہے:
’’اگرتم اللہ تعالیٰ پراس طرح بھروسہ کروجس طرح کہ بھروسہ کرنے حق ہے تواللہ تعالیٰ تمہیں اس طرح رزق عطاکرے گا جیسے پرندوں کوعطاکرتاہے۔کہ وہ خالی پیٹ نکلتے ہیں اورلوٹتے وقت ان کے پیٹ بھرے ہوتے ہیں۔‘‘
مسنداحمد،سنن ترمذی،سنن ابن ماجہ۔
قارئین کرام مندرجہ ذیل ایک واقعہ پڑھئے جو اس حدیث مبارکہ کی تشریح کاشاہدعدل ہے:
’’پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں ایک حکیم صاحب ہوا کرتے تھے، جن کا مطب ایک پرانی سی عمارت میں ہوتا تھا۔ حکیم صاحب روزانہ صبح مطب جانے سے قبل بیوی کو کہتے کہ جو کچھ آج کے دن کے لیے تم کو درکار ہے ایک چٹ پر لکھ کر دے دو۔ بیوی لکھ کر دے دیتی۔ آپ دکان پر آ کر سب سے پہلے وہ چٹ کھولتے۔ بیوی نے جو چیزیں لکھی ہوتیں۔ اُن کے سامنے اُن چیزوں کی قیمت درج کرتے، پھر اُن کا ٹوٹل کرتے۔ پھر اللہ سے دعا کرتے کہ یااللہ! میں صرف تیرے ہی حکم کی تعمیل میں تیری عبادت چھوڑ کر یہاں دنیا داری کے چکروں میں آ بیٹھا ہوں۔ جوں ہی تو میری آج کی مطلوبہ رقم کا بندوبست کر دے گا۔ میں اُسی وقت یہاں سے اُٹھ جائوں گا اور پھر یہی ہوتا۔ کبھی صبح کے ساڑھے نو، کبھی دس بجے حکیم صاحب مریضوں سے فارغ ہو کر واپس اپنے گائوں چلے جاتے۔

ایک دن حکیم صاحب نے دکان کھولی۔ رقم کا حساب لگانے کے لیے چِٹ کھولی تو وہ چِٹ کو دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ گئے۔ ایک مرتبہ تو ان کا دماغ گھوم گیا۔ اُن کو اپنی آنکھوں کے سامنے تارے چمکتے ہوئے نظر آ رہے تھے لیکن جلد ہی انھوں نے اپنے اعصاب پر قابو پا لیا۔ آٹے دال وغیرہ کے بعد بیگم نے لکھا تھا، بیٹی کے جہیز کا سامان۔ کچھ دیر سوچتے رہے پھشکر۔‘‘ چیزوں کی قیمت لکھنے کے بعد جہیز کے سامنے لکھا ’’یہ اللہ کا کام ہے اللہ جانے۔‘‘
ایک دو مریض آئے ہوئے تھے۔ اُن کو حکیم صاحب دوائی دے رہے تھے۔ اسی دوران ایک بڑی سی کار اُن کے مطب کے سامنے آ کر رکی۔ حکیم صاحب نے کار یا صاحبِ کار کو کوئی خاص توجہ نہ دی کیونکہ کئی کاروں والے ان کے پاس آتے رہتے تھے۔
دونوں مریض دوائی لے کر چلے گئے۔ وہ سوٹڈبوٹڈ صاحب کار سے باہر نکلے اور سلام کرکے بنچ پر بیٹھ گئے۔ حکیم صاحب نے کہا کہ اگر آپ نے اپنے لیے دوائی لینی ہے تو ادھر سٹول پر آجائیں تاکہ میں آپ کی نبض دیکھ لوں اور اگر کسی مریض کی دوائی لے کر جانی ہے تو بیماری کی کیفیت بیان کریں۔
وہ صاحب کہنے لگے حکیم صاحب میرا خیال ہے آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔ لیکن آپ مجھے پہچان بھی کیسے سکتے ہیں؟ کیونکہ میں ۱۵، ۱۶ سال بعد آپ کے مطب میں داخل ہوا ہوں۔ آپ کو گزشتہ ملاقات کا احوال سناتا ہوں پھر آپ کو ساری بات یاد آجائے گی۔ جب میں پہلی مرتبہ یہاں آیا تھا تو وہ میں خود نہیں آیا تھا۔ خدا مجھے آپ کے پاس لے آیا تھا کیونکہ خدا کو مجھ پر رحم آگیا تھا اور وہ میرا گھر آباد کرنا چاہتا تھا۔ ہوا اس طرح تھا کہ میں لاہور سے میرپور اپنی کار میں اپنے آبائی گھر جا رہا تھا۔ عین آپ کی دکان کے سامنے ہماری کار پنکچر ہو گئی۔
ڈرائیور کار کا پہیہ اتار کر پنکچر لگوانے چلا گیا۔ آپ نے دیکھا کہ میں گرمی میں کار کے پاس کھڑا ہوں۔ آپ میرے پاس آئے اور آپ نے مطب کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ ادھر آ کر کرسی پر بیٹھ جائیں۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ میں نے آپ کا شکریہ ادا کیا اور کرسی پر آ کر بیٹھ گیا۔

ڈرائیور نے کچھ زیادہ ہی دیر لگا دی تھی۔ ایک چھوٹی سی بچی بھی یہاں آپ کی میز کے پاس کھڑی تھی اور بار بار کہہ رہی تھی ’’چلیں ناں، مجھے بھوک لگی ہے۔ آپ اُسے کہہ رہے تھے بیٹی تھوڑا صبر کرو ابھی چلتے ہیں۔
میں نے یہ سوچ کر کہ اتنی دیر سے آپ کے پاس بیٹھا ہوں۔ مجھے کوئی دوائی آپ سے خریدنی چاہیے تاکہ آپ میرے بیٹھنے کو زیادہ محسوس نہ کریں۔ میں نے کہا حکیم صاحب میں ۵،۶ سال سے انگلینڈ میں ہوتا ہوں۔ انگلینڈ جانے سے قبل میری شادی ہو گئی تھی لیکن ابھی تک اولاد کی نعمت سے محروم ہوں۔ یہاں بھی بہت علاج کیا اور وہاں انگلینڈ میں بھی لیکن ابھی قسمت میں مایوسی کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا۔

آپ نے کہا میرے بھائی! توبہ استغفار پڑھو۔ خدارا اپنے خدا سے مایوس نہ ہو۔ یاد رکھو! اُس کے خزانے میں کسی شے کی کمی نہیں۔ اولاد، مال و اسباب اور غمی خوشی، زندگی موت ہر چیز اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ کسی حکیم یا ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفا نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی دوا میں شفا ہوتی ہے۔ شفا اگر ہونی ہے تو اللہ کے حکم سے ہونی ہے۔ اولاد دینی ہے تو اُسی نے دینی ہے۔
مجھے یاد ہے آپ باتیں کرتے جا رہے اور ساتھ ساتھ پڑیاں بنا رہے تھے۔ تمام دوائیاں آپ نے ۲ حصوں میں تقسیم کر کے ۲ لفافوں میں ڈالیں۔ پھر مجھ سے پوچھا کہ آپ کا نام کیا ہے؟ میں نے بتایا کہ میرا نام محمد علی ہے۔ آپ نے ایک لفافہ پر محمدعلی اور دوسرے پر بیگم محمدعلی لکھا۔ پھر دونوں لفافے ایک بڑے لفافہ میں ڈال کر دوائی استعمال کرنے کا طریقہ بتایا۔ میں نے بے دلی سے دوائی لے لی کیونکہ میں تو صرف کچھ رقم آپ کو دینا چاہتا تھا۔ لیکن جب دوائی لینے کے بعد میں نے پوچھا کتنے پیسے؟ آپ نے کہا بس ٹھیک ہے۔ میں نے زیادہ زور ڈالا، تو آپ نے کہا کہ آج کا کھاتہ بند ہو گیا ہے۔
میں نے کہا مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی۔ اسی دوران وہاں ایک اور آدمی آچکا تھا۔ اُس نے مجھے بتایا کہ کھاتہ بند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آج کے گھریلو اخراجات کے لیے جتنی رقم حکیم صاحب نے اللہ سے مانگی تھی وہ اللہ نے دے دی ہے۔ مزید رقم وہ نہیں لے سکتے۔ میں کچھ حیران ہوا اور کچھ دل میں شرمندہ ہوا کہ میرے کتنے گھٹیا خیالات تھے اور یہ سادہ سا حکیم کتنا عظیم انسان ہے۔ میں نے جب گھر جا کربیوی کو دوائیاں دکھائیں اور ساری بات بتائی تو بے اختیار اُس کے منہ سے نکلا وہ انسان نہیں کوئی فرشتہ ہے اور اُس کی دی ہوئی ادویات ہمارے من کی مراد پوری کرنے کا باعث بنیں گی۔ حکیم صاحب آج میرے گھر میں تین پھول اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔
ہم میاں بیوی ہر وقت آپ کے لیے دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ جب بھی پاکستان چھٹی آیا۔ کار اِدھر روکی لیکن دکان کو بند پایا۔ میں کل دوپہر بھی آیا تھا۔ آپ کا مطب بند تھا۔ ایک آدمی پاس ہی کھڑا ہوا تھا۔ اُس نے کہا کہ اگر آپ کو حکیم صاحب سے ملنا ہے تو آپ صبح ۹ بجے لازماً پہنچ جائیں ورنہ اُن کے ملنے کی کوئی گارنٹی نہیں۔ اس لیے آج میں سویرے سویرے آپ کے پاس آگیا ہوں۔
محمدعلی نے کہا کہ جب ۱۵ سال قبل میں نے یہاں آپ کے مطب میں آپ کی چھوٹی سی بیٹی دیکھی تھی تو میں نے بتایا تھا کہ اس کو دیکھ کر مجھے اپنی بھانجی یاد آرہی ہے۔
حکیم صاحب ہمارا سارا خاندان انگلینڈ سیٹل ہو چکا ہے۔ صرف ہماری ایک بیوہ بہن اپنی بیٹی کے ساتھ پاکستان میں رہتی ہے۔ ہماری بھانجی کی شادی اس ماہ کی ۲۱ تاریخ کو ہونا تھی۔ اس بھانجی کی شادی کا سارا خرچ میں نے اپنے ذمہ لیا تھا۔ ۱۰ دن قبل اسی کار میں اسے میں نے لاہور اپنے رشتہ داروں کے پاس بھیجا کہ شادی کے لیے اپنی مرضی کی جو چیز چاہے خرید لے۔ اسے لاہور جاتے ہی بخار ہوگیا لیکن اس نے کسی کو نہ بتایا۔ بخار کی گولیاں ڈسپرین وغیرہ کھاتی اور بازاروں میں پھرتی رہی۔ بازار میں پھرتے پھرتے اچانک بے ہوش ہو کر گری۔ وہاں سے اسے ہسپتال لے گئے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ اس کو ۱۰۶ ڈگری بخار ہے اور یہ گردن توڑ بخار ہے۔ وہ بے ہوشی کے عالم ہی میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئی۔
اُس کے فوت ہوتے ہی نجانے کیوں مجھے اور میری بیوی کو آپ کی بیٹی کا خیال آیا۔ ہم میاں بیوی نے اور ہماری تمام فیملی نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنی بھانجی کا تمام جہیز کا سامان آپ کے ہاں پہنچا دیں گے۔ شادی جلد ہو تو اس کا بندوبست خود کریں گے اور اگر ابھی کچھ دیر ہے تو تمام اخراجات کے لیے رقم آپ کو نقد پہنچا دیں گے۔ آپ نے ناں نہیں کرنی۔ آپ اپنا گھر دکھا دیں تاکہ سامان کا ٹرک وہاں پہنچایا جا سکے۔

حکیم صاحب حیران و پریشان یوں گویا ہوئے ’’محمدعلی صاحب آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں مجھے سمجھ نہیں آرہا، میرا اتنا دماغ نہیں ہے۔ میں نے تو آج صبح جب بیوی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی چِٹ یہاں آ کر کھول کر دیکھی تو مرچ مسالہ کے بعد جب میں نے یہ الفاظ پڑھے ’’بیٹی کے جہیز کا سامان‘‘ تو آپ کو معلوم ہے میں نے کیا لکھا۔ آپ خود یہ چِٹ ذرا دیکھیں۔ محمدعلی صاحب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ’’بیٹی کے جہیز‘‘ کے سامنے لکھا ہوا تھا ’’یہ کام اللہ کا ہے، اللہ جانے۔‘‘
محمد علی صاحب یقین کریں، آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ بیوی نے چِٹ پر چیز لکھی ہو اور مولا نے اُس کا اسی دن بندوبست نہ کردیا ہو۔ واہ مولا واہ۔ تو عظیم ہے تو کریم ہے۔ آپ کی بھانجی کی وفات کا صدمہ ہے لیکن اُس کی قدرت پر حیران ہوں کہ وہ کس طرح اپنے معجزے دکھاتا ہے۔
حکیم صاحب نے کہا جب سے ہوش سنبھالا ایک ہی سبق پڑھا کہ صبح ورد کرنا ہے ’’رازق، رازق، تو ہی رازق‘‘ اور شام کو ’’شکر، شکر مولا تیرا شکر... اگر آپکو یہ تحریر اچھی لگی ہو تو اس کو اپنے دوست احباب کے ساتھ ضرور شیئرکیجئے گا.

Friday, September 27, 2019

40+ways+to+respect+your+parents

September 27, 2019 0
40+ways+to+respect+your+parents





بوڑھے ماں باپ کا ہر حال میں خیال رکھیے



Image result for ‫والدین کے ساتھ حسن سلوک‬‎

Image result for ‫والدین کے ساتھ حسن سلوک‬‎

بوڑھے ماں باپ کا ہر حال میں خیال رکھیے

بوڑھے عام طور پر بوجھ سمجھے جاتے ہیںاور بہت سے گھروں میں ان کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہوتی ۔ ان کے مشوروں اور نصیحتوں کو بکواس سمجھا جاتا ہے ۔ کاروبار کرنے اور پینشن پانے والے بزرگوں کو برداشت کرلیا جاتا ہے، مگر جن بزرگوں کی آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا بزرگ جو کما کر لاتے ہیں یا کاروبار کرتے ہیں یا پھر پینشن پاتے ہیں تب تک ان کی خدمت میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی اور انھیں بوجھ بھی نہیں سمجھا جاتا ۔وقت پر کھانا ہی نہیں بلکہ وقتاًفوقتاً گھر والوں کا پیار بھی امڈتا رہتا ہے اور بیمار ہونے پر ان کی تیمارداری بھی کی جاتی ہے کیونکہ دوائوں کا خرچ خود برداشت کرتے ہیں۔
ایسے بزرگوں کی بھی عزت کی جاتی ہے جن کے نام زمین اور جائیدادہوتی ہے ۔اور ان کی تیمارداری یا ان پر محبتیں اس لیے لٹائی جاتی ہیں کہ انھیں اس جائیداد میںسے حصہ مل جائے ،یعنی کمانے والے ،کاروبار کرنے والے یا بے شمار دولت رکھنے والے بزرگوں کو سرآنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے وہ بھی اس وقت تک جب تک ان کے پاس دولت ہوتی ہے یا وہ کمانے کے قابل ہوتے ہیں ۔جہاں ان کے پاس دولت ختم ہوجاتی ہے یا وہ کمانے کے لائق نہیں رہ جاتے ۔انھیں بوجھ سمجھا جانے لگتا ہے ۔ ایسا ہر گھر میں نہیں ہوتا۔ لیکن بیشتر گھروں میں بزرگوں کو اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
بات وہیں آکر رک جاتی ہے کہ آخر اس کا ذمہ دار کون ہے؟کیا وہ بچے ہیں جن کی پرورش انہی بزرگوں نے بڑے ناز ونعم سے تو کی لیکن انھیں بزرگوں کی عزت اور خدمت کا سلیقہ نہیں سکھایا؟انھیں یہ نہیں بتایا کہ وہ بھی اپنے بچوں کے لیے بیمارہونے پر انھیں بوجھ نہیں سمجھا کرتے تھے۔انہوں نے کبھی یہ سوچ کر انھیں تعلیم سے محروم نہیںرکھا کہ چھوڑو کون تعلیم دلوائے۔ کہاں سے اتنے پیسے خرچ کروں؟پیٹ بھرنے کے لیے بعض اوقات وہ خود بھوکے سوجایا کرتے تھے لیکن انھیں پیٹ بھر کھانا کھلائے بغیر کبھی نہیں سلایا۔بچوں کا مستقبل سنوارنے کے لیے انھی بزرگوں نے اپنے آپ کو وقف کردیا۔پھر ان کے ساتھ برا سلوک کیوں کیا جاتا ہے؟
کیانوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کبھی بوڑھے نہیںہوں گے؟اپنے والدین اور بزرگوں کے ساتھ بدسلوکی اور بدتمیزی کرنے والے نوجوان والدین یہ بھول جاتے ہیں کہ کل کو ان کی بھی اولاد جوان ہوگی اور کل وہ بھی بوڑھے ہوں گے۔اور جوسلوک وہ اپنے ماں باپ اور بزرگوں کے ساتھ کررہے ہیں ۔ان کے ساتھ بھی کیا جاسکتا ہے۔
زندگی اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے کا نام ہے۔یعنی آپ اپنے بزرگوں سے جیسا سلوک رویا رکھیں گے ہوسکتا ہے کل آپ کو بھی اس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑے ۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہر انسان ایک نہ ایک دن بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچے گا۔ظاہر ہے کہ ہم نے جس طرح اپنے ماں باپ اور بزرگوں کے ساتھ سلوک کیا ہوگاویسا ہی سلوک ہمیں اپنے بچوں سے ملے گا۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کو اپنے آپ پر بوجھ نہ سمجھیں بلکہ ان کی قربانیوں اور ان کی بزرگی کا خیال کرتے ہوئے ان کی تیمارداری ،ان کی دل بستگی،ان کی پسند ناپسند، ان کے آرام اور ان کی ضروریات کا بھرپور خیال رکھیں۔
بزرگ بڑھاپے میں تھوڑے سخت اور چڑ چڑے ہوجاتے ہیں اور یہ عمر کا تقاضا ہے کہتے ہیں کہ بچہ اور ایک بوڑھا برابر ہوتے ہیں۔ یعنی جب انسان بوڑھاہوجاتا ہے تو وہ بچوں جیسا ہوجاتا ہے۔ ان کاضد کرنا،بات بات پر چڑنا عام بات ہے، بزرگ بالکل اس بچے کی طرح ہوجاتے ہیں جو اپنی بات پوری نہ ہونے یا کسی چیز کے نہ ملنے پر ناراض یا چڑ چڑ ا جاتا ہے ۔ان کی خدمت اس طرح کریں جیسے ہم اپنے بچے کی کرتے ہیں۔
بزرگوں کی خدمت کرنا نہ صرف دنیا میں آپ کو سرخرو کرے گا بلکہ آپ کی آخرت بھی سنور جائے گی۔بوڑھوں کا بیمار ہونا ،بات پر نکتہ چینی کرنا یا گھر ہی میں موجود رہنا بے شک آپ کو پریشان کرتا ہوگا،لیکن ان حالات میں ہی آپ کی صحیح آزمائش ہوتی ہے کہ آپ کو اپنے والدین کو یا گھر کے بزرگوں کو کتنی اہمیت دیتے ہیں اور ان کی کتنی تیمارداری کرتے ہیں۔ ایک طرح سے یہ آپ کا امتحان ہے اور اس امتحان میںکامیابی کے بعد ہی آپ دنیا وآخرت میں سرخرو ہوسکتے ہیں۔
بزرگوں سے بھی ایک گزارش ہے کہ وہ اپنے آپ کو اتنا کمزور اور لاغرنہ بنائیں کہ بچے آپ کو بوجھ سمجھنے لگیںیا آپ سے چڑنے لگیں،یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب بزرگ نہ صرف اپنے آپ کو مثالی والدین بنا کر پیش کریں ،بلکہ بچوں کی تربیت بھی اسی انداز میں کریں کہ وہ عمر کے کسی بھی حصے میں آپ سے بدتمیزی کرنے کی ہمت نہ کرسکیں ، نہ ہی آپ کے مشوروں کو رد کرسکیں۔
بعض بزرگ بلاوجہ گھر کے معاملات میں دخل دیتے ہیں یا اپنی بات منوانے کے لیے بچوں کو برابھلا بھی کہتے رہتے ہیں ۔بھلے ہی ان کی بات نامناسب ہو وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ان کی ہی بات مانی جائے۔ایسے حالات میںاولاد اور والدین کے درمیان تلخیاں بڑھتی جاتی ہیں ،اس لیے بزرگوں کو بھی عمر اور تجربات کی روشنی میں مصلحت سے کام لیتے ہوئے اپنے خاندان کو آگے بڑھانے میں مدد دینی چاہیے اور نوجوانوں کو بھی ان کا ساتھ دینا چاہیے تب جاکر نوجوانون اور بزرگوں کے بیچ کی اس خلش کو ختم کیا جاسکتا ہے ۔ مسلم معاشرے میں اسلامی تعلیمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بزرگوں کے احترام اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے ، اس سے دوگنا فائدہ ہوگا دنیاوی بھی اخروی بھی۔
close