Roshan Worlds: I Still Love You

knowledge islamic quotes articles poims islamic education tips and tricks apps and games for pc android apps latest news for information technology

google Search

Showing posts with label I Still Love You. Show all posts
Showing posts with label I Still Love You. Show all posts

Friday, June 5, 2020

Marital-Rape

June 05, 2020 0
Marital-Rape



بیوی کے ساتھ زبردستی کرنا [Marital Rape]
------------------------------------------------
بیوی کے ساتھ زبردستی تعلق قائم کرنے کے بارے سوالات بہت تیزی سے بڑھتے چلے جا رہے ہیں، دونوں کی طرف سے۔ اس مسئلے پر غور کرنے کے لیے فی الحال تین بڑے پہلو ہیں؛ مذہبی، نفسیاتی اور قانونی۔ مذہبی اعتبار سے بیوی اس بات کی پابند ہے کہ جب اس کا شوہر اسے اپنے بستر پر بلائے تو وہ انکار نہ کرے اور اگر وہ انکار کرے تو اس پر ساری رات فرشتوں کی لعنت رہتی ہے۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ یہ بات عورت کو سمجھ نہیں آ سکتی کیونکہ وہ مرد نہیں ہے اور مرد کی سائیکالوجی کو نہیں سمجھ سکتی، البتہ فرائیڈ اگر یہ بات کرتا تو اس پر ہزاروں نہ سہی تو سینکڑوں کتابیں ضرور لکھی جا چکی ہوتیں۔
پس اگر بیوی اپنے شوہر کو انکار کر دے تو شوہر اپنی بیوی سے زبردستی کر سکتا ہے یا نہیں؟ تو اس بارے فقہاء کا کہنا یہ ہے کہ بیوی کا یہ انکار کرنا "نشوز" یعنی سرکشی ہے اور نشوز کے بارے قرآن مجید نے یہ ہدایت دی ہے کہ پہلے اپنی بیوی کو وعظ کرے، اگر اس سے مسئلہ حل نہ ہو تو بستر علیحدہ کر لے، اگر اس سے مسئلہ حل نہ ہو تو اس پر سختی کرے۔ اگر تو اس کے باوجود بیوی انکار پر اصرار کرے تو وہ نان نفقے کی مستحق نہیں رہتی۔ لیکن یہاں یہ فرق ملحوظ رہے کہ فقہاء کے نزدیک اس انکار سے مراد بیوی کا بلاوجہ انکار کرنا ہے اور اگر انکار کی کوئی وجہ ہے جیسے بیوی بیمار ہے تو اس کا یہ حکم نہیں ہے۔
اس مسئلے کا دوسرا پہلو نفسیاتی ہے کہ عورت کی نفسیات یہ ہے کہ اس کے لیے یہ برداشت کرنا مشکل ہے کہ اس کے ساتھ زبردستی کوئی تعلق قائم کیا جائے۔ وہ یہ چاہتی ہے کہ جب وہ خود اپنے آپ کو مرد کے سپرد کرنے کے لیے دلی طور تیار ہو جائے تو اس وقت اس سے ایسا تعلق قائم کیا جائے، ورنہ تو اس کے لیے شدید ذہنی اور نفسیاتی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، ان میں سے ایک اس فعل سے ہی نفرت کرنا یا خود خاوند سے نفرت کرنا بھی شامل ہے۔ اکثر بیویوں کے اپنے خاوندوں سے بھاگنے کی وجہ یہی ہے کہ ان سے ان کی رضامندی کے بغیر تعلق قائم کر لیا جاتا ہے جو ان کے ذہنی مسائل کا باعث بن جاتا ہے۔

میرے خیال میں اعلی اخلاق یہی ہیں کہ اگر خاوند کے ہاتھ لگانے پر بیوی اس کے ہاتھ کو جھڑک دے تو اس کو ہاتھ لگانے کا خیال بھی دل سے نکال دے۔ اور یہی رویہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ہمیں ملتا ہے کہ جب آپ کے ہاتھ لگانے پر آپ کی ایک منکوحہ نے غلط فہمی میں اعوذ باللہ پڑھ دی تو طبیعت کی نفاست کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی بات پر اس سے علیحدگی اختیار کر لی کہ شاید اسے میرا ہاتھ لگانا پسند نہیں آیا لہذا اس لیے اس نے اعوذ باللہ پڑھی ہے جبکہ اس منکوحہ کو کسی اور زوجہ محترمہ نے یہ کہا تھا اور جان بوجھ کر کہا تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج کو جانتی تھیں اور پسند نہیں کرتی تھیں کہ آپ کی زوجیت میں کسی اور خاتون کا اضافہ ہو۔
ہمارے ہاں عموما جو شادیاں ہوتی ہیں تو لڑکے اور لڑکی میں پہلے سے کوئی مانوسیت اور الفت نہیں ہوتی لہذا ایسی صورت میں پہلے دن ہی ایسا تعلق قائم کرنا عموما لڑکی کے لیے ایک ذہنی اذیت کا سبب بن جاتا ہے اور اس فعل سے نفرت ساری زندگی کے لیے اس کے لاشعور کا حصہ بن جاتی ہے۔ آپ کی بیوی اگر پہلے دن آپ کو ہاتھ لگانے سے روکتی ہے تو میرے خیال میں یہ فطری چیز ہے، اسے وقت لینے دیں، دو تین دن میں بات چیت سے مانوسیت پیدا کریں اور پھر کوئی ایسا تعلق قائم کریں ورنہ آپ اسے ذہنی مریض بھی بنا سکتے ہیں، خاص طور اس تعلق کے حوالے سے۔ نکاح کے دو بول سے اگرچہ حقیقت تو تبدیل ہو گئی ہے کہ وہ آپ کی منکوحہ بن گئی ہے لیکن ایک پردہ دار خاتون کے لیے اسے ذہنا قبول کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے کہ کوئی اس کے پورے جسم کا مالک بن چکا ہے، اور وہ بھی چند لمحوں میں۔

اس مسئلے کا تیسرا پہلو قانونی ہے تو بعض ممالک میں بیوی کے ساتھ زبردستی کو ایک جرم سمجھا جاتا ہے کہ جس کی سزا بھی ہے جیسا کہ امریکہ، برطانیہ، روس، جاپان اور ترکی وغیرہ میں یہ ایک جرم ہے کہ شوہر یا بیوی میں سے کوئی بھی اپنے پارٹنر کے ساتھ زبردستی تعلق قائم کرے اور اکثر یورپین ممالک میں یہ ایک جرم ہی ہے۔ جبکہ دوسری طرف اکثر مسلم اور مشرقی ممالک مثلا انڈونیشیا، ملائیشیا، سعودی عرب، ایران، چین، انڈیا وغیرہ میں یہ جرم تصور نہیں ہوتا اور یہی بات درست ہے۔
ٹھیک ہے کہ بیوی لونڈی نہیں ہے، بیوی اور لونڈی میں یہی فرق ہوتا ہے کہ بیوی سے زبردستی نہیں کی جاتی لیکن ایسی صورت میں بیوی اگر اتنی ہی تنگ ہے تو اس کے پاس خلع کا آپشن تو موجود ہے۔ اب یہ کیا بات ہوئی کہ اس نے رہنا بھی اسی شوہر کے ساتھ ہے، اور شوہر سے نان نفقہ بھی پورا لینا ہے اور اس کے حق کی بات آئے تو اب بیوی کہے کہ میرے نفسیاتی مسائل ہیں، ذہنی ہم آہنگی کے بغیر میں اپنا آپ اس کے حوالے کیسے کر سکتی ہوں؟ تو بی بی پھر ایسے شوہر سے علیحدگی لے لو یا پھر کم از کم اس سے نان نفقے کا مطالبہ ہی بند کر دو کہ اسے تو اس پر لگایا ہوا ہے کہ وہ تمہارے مسائل سمجھے لیکن یہ کہ تم اس کے مسائل کو کنسڈر کرو تو یہ بات تمہیں سمجھ نہیں آتی اور اس کے اصرار پر وہ تمہیں جنسی حیوان لگنے لگتا ہے لیکن وہ تو نان نفقے کے مطالبے پر تمہیں اقتصادی حیوان نہیں کہہ رہا۔
خلاصہ کلام یہی ہے کہ مزاج کی نفاست اور اعلی اخلاق کا تقاضا یہی ہے کہ شوہر اس معاملے میں بیوی کے ساتھ زبردستی نہ کرے بلکہ افہام وتفہیم سے اس مسئلے کو حل کرے، اور اگر اس سے مسئلہ حل نہ ہو تو اگر زیادہ تنگ ہے تو بیوی کا نان نفقہ بند کر دے۔ لیکن اگر شوہر ایسا کر لے تو یہ کوئی گناہ یا جرم نہیں ہے کہ جس کے لیے شوہر پر کوئی اخروی یا دنیاوی سزا لاگو ہو اور ایسی صورت میں اگر بیوی کے لیے نفسیاتی مسائل پیدا ہوں تو اس کے لیے خلع کا رستہ کھلا ہے۔ اگر ذہنی ہم آہنگی نہیں ہے اور شوہر سے واقعی میں کچھ فائدہ بھی حاصل نہیں ہو رہا تو پھر بہتر یہی ہے کہ شوہر کو صبر کی تلقین کرنے کی بجائے اس سے علیحدگی اختیار کر لی جائے۔ واللہ اعلم بالصواب

Monday, September 30, 2019

i+still+love+you

September 30, 2019 0
i+still+love+you








انسانی زندگی کے تانے اوربانے

یہ ایک سچی داستان ھے اوردل دھلا دینے والی داستان ھے جس کا ھرکریکٹرپل پل قارئین کو چونکادینے کے لئے کافی ھے!!!
یہ بنیادی طور پر محبت کی کہانی تھی جارج سمتھ اور کیتھی کی محبت کی کہانی۔ یہ پچھلی دہائی کی سب سے بڑی کہانی تھی یہ کہانی ہمیشہ پڑھنے اور سننے والوں کے گرم خون میں ٹھنڈک بن کر اترتی رہے گی۔  جارج ہارورڈ یونیورسٹی کا گریجوایٹ تھا وہ سیاٹل میں کمپیوٹر سافٹ وئیر کا بزنس کرتا تھا اور خوشحال اور مطمئن زندگی گزار رہا تھا جبکہ کیتھی کے آباؤ اجداد کا تعلق میکسیکو سے تھا یہ لوگ دو نسل پہلے الپاسو سے نیویارک شفٹ ہوئے تھےیہ لوگ بھی یورپین امریکن خاندانوں میں مکس ہوتے ہوتے اپنا رنگ روپ تبدیل کرتے چلے گئے۔ جارج اور کیتھی کی ملاقات واشنگٹن میں ہوئی یہ دونوں سافٹ وئیر کی کسی نمائش میں ملے دوستی ہوئی محبت ہوئی دونوں نے شادی کی اور سیاٹل میں خوبصورت خوشگوار خوشحال اور گرم جوش زندگی گزارنے لگے شادی کے دو سال بعد معلوم ہوا جارج سمتھ کے خون میں کوئی کیمیائی خرابی ہے جس کے باعث سپرم پیدا نہیں ہوتے چنانچہ جارج اولاد کی نعمت سے محروم رہے گا۔یہ دونوں کیلئے بری خبر تھی کیونکہ دونوں صاحب اولاد ہونا چاہتے تھے جارج نے ڈاکٹروں سائنسدانوں اور ماہرین سے رابطے شروع کر دئیے ان رابطوں کے دوران معلوم ہوا میڈیکل سائنس
نے ایک ایسا طریقہ ایجاد کر لیا ہے جس کے ذریعے زندگی میں ایک بار چند سپرم پیدا کئے جا سکتے ہیں تاہم یہ طریقہ بہت مہنگا تھا لیکن جارج اور کیتھی نے چند دن سوچا اور اپنا ساراسرمایہ اولاد پر خرچ کرنے کا فیصلہ کر لیا جارج نے اپنی کمپنی اپنا گھر اور اپنی گاڑی بیچ دی اور یہ رقم شکاگو کے میڈیکل سنٹر میں جمع کرادی علاج شروع ہوا علاج کامیاب ہوا سپرم پیدا ہوئے یہ سپرم مصنوعی طریقے سےکیتھی کے جسم میں داخل کئے گئے اور فطرتی عمل شروع ہو گیا جس کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے دونوں کو چاند جیسا بیٹا عطا کر دیا۔ جارج سمتھ اور کیتھی سمتھ کی کہانی یہاں تک ایک عام داستان تھی
ہم میں سے کون شخص ہے جس کی زندگی میں اس نوعیت کے غم نہیں ہیں۔انسان کی زندگی غموں دکھوں اور تکلیفوں کے دھاگوں سے بنتی ہے آپ نے اگر کبھی جولاہے کو کپڑا بُنتے دیکھا ہو تو آپ جانتے ہوں گے جولاہے کی کھڈی میں مختلف رنگوں کے سینکڑوں ہزاروں دھاگے ہوتے ہیں دھاگوں کی ایک آبشار اوپر سے نیچے کی طرف آتی ہے اور دھاگوں کا دوسرا سلسلہ دائیں سے بائیں یا بائیں سے دائیں چلتا ہے جولاہا درمیان میں بیٹھ کر کھڈی چلاتا جاتاہے اور مختلف رنگوں کے دھاگے کپڑے کی شکل اختیار کرتے جاتے ہیں
دھاگوں کا یہ سلسلہ تانا اور بانا کہلاتا ہے۔ زندگی بھی ایک ایسی ہی کھڈی ہے جس کا تانا بھی دکھ ہیں اور بانا بھی دکھ لہٰذا ہم سب دکھ کی کھڈی پر مصیبتوں کے تانے بانے سے بنے ہوئے لوگ ہیں اور جب تک ہماری سانس چلتی رہتی ہے ہم دکھوں سے آزادی نہیں پا سکتے۔ جارج اور کیتھی کی کہانی بھی یہاں تک ایک عام داستان تھی ہم جیسی کہانی جس میں دکھ کا ایک سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوتا اوردوسرا شروع ہو جاتا ہے لیکن پھر اچانک جارج اور کیتھی کی زندگی میں ایک انوکھا واقعہ پیش آیا اور یہ دہائی کی سب سے بڑی کہانی بن گئی۔
کیتھی ایک دن اپنے چھ ماہ کے بیٹے کو باتھ ٹب میں نہلارہی تھی اس دوران فون بجا اور کیتھی بیٹے کو ٹب میں چھوڑ کر فون سننے چلی گئی کیتھی نے ماڈلنگ کا آڈیشن دیا تھا فون پر اسے خوشخبری سنائی گئی وہ کامیاب ہوگئی ہے اور وہ کل دفتر آ کر ماڈلنگ کا کانٹریکٹ سائن کر دے کیتھی کمپنی سے تفصیلات معلوم کرنا شروع کر دیتی ہے یوں فون لمبا ہو جاتا ہے وہ فون رکھ کر واپس باتھ روم جاتی ہے تو وہاں زندگی کا سب سے بڑا حادثہ اس کا منتظر ہوتا ہے اس کا بیٹا باتھ ٹب میں ڈوب کر مر جاتا ہے
کیتھی ہسپتال فون کرتی ہے ایمبولینس آتی ہے وہ اپنے بیٹے کو لے کر ہسپتال پہنچتی ہے ڈاکٹر کوشش کرتے ہیں لیکن گئی ہوئی سانس کبھی واپس نہیں آتیکیتھی دکھ کی اس کیفیت میں ڈوب جاتی ہے جس میں آنکھیں آنسو پیدا کرنا بند کر دیتی ہیں اور حلق سسکیوں اور آہوں سے خالی ہو جاتے ہیں کیتھی موم کا مجسمہ بن کر دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھ جاتی ہے اس دوران جارج ہسپتال آتا ہے اور چپ چاپ کیتھی کے ساتھ لگ کر بیٹھ جاتا ہے دونوں کے درمیان خاموشی کے ہزار برس گزر جاتے ہیں
کیتھی آخر میں جارج کی طرف دیکھتی ہے اس کی آنکھوں میں ہزاروں لاکھوں سال کی اداسی بچھی تھی جارج اس کی طرف دیکھتاہے اس کا کندھا دباتا ہے اور نرم آواز میں بولتا ہے آئی سٹل لو یو چار لفظوں کا یہ فقرہ تیزاب میں الکلی کی بوند ثابت ہوتا ہے کیتھی کے منہ سے چیخ نکلتی ہے اور وہ جارج کے گلے لگ کر دھاڑیں مار کر رونا شروع کر دیتی ہے۔ جارج نے برسوں بعد اپنے دوست کو بتایا مجھے جب سانحے کے بارے میں معلوم ہواتو میرے دل کی دھڑکن رک گئی
میں افراتفری کے عالم میں ہسپتال پہنچا میں نے کیتھی کو ہسپتال کے فرش پر بیٹھے دیکھا تومیرا دل چاہا میں اس کو اس وقت تک تھپڑ اور ٹھڈے مارتا رہوں جب تک میں مار سکتا ہوں لیکن پھر سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں خیال آیا کیا کیتھی کو مارنے سے ہمارا بیٹا واپس آ جائے گا؟ کیا میرے رونے چیخنے چلانے اور شور کرنے سے ہمارا بیٹا زندہ ہو جائے گامجھے محسوس ہوا نہیں کیونکہ ہمارا بیٹا گیا وقت ہو چکا تھا اور گیا ہوا وقت کبھی واپس نہیں آتا ماضی دنیا کی واحد چیز ہے جسے قدرت بھی نہیں بدل سکتی
میں نے محسوس کیا کیتھی کو اس وقت میری سب سے زیادہ ضرورت ہے چنانچہ میں اس کے پاس بیٹھ گیا اور میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس کے کان میں کہا آئی سٹل لو یو۔ جارج کا کہنا تھا ہم میں سے زیادہ تر لوگ برے واقعات برے سانحوں کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہراتے رہتے ہیں بیوی خاوند سے شکوہ کرتی ہے یہ تمہاری وجہ سے ہوا اور خاوند بیوی سے مخاطب ہوتا ہے تم اگر یہ نہ کرتی تو ایسا نہ ہوتا ہم اس وقت شکوہ کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں ہماری زندگی کا ساتھی بھی اس وقت اس سانحے سے اتنا ہی متاثر ہے جتنا ہم ہیں
میرا بیٹا میری بیوی کا بھی بیٹا تھااور کوئی ماں جان بوجھ کر اپنے بیٹے کی جان نہیں لیتی چنانچہ میں اگر اس وقت اسے ملزم ٹھہرانے لگتا تو یہ غم اس کی جان لے لیتالہٰذا میں نے عام خاوند بننے کی بجائے اس کے غم کا بوجھ بٹانے کا فیصلہ کرلیا میں نے اپنی محبت کا کندھا اس کے حوالے کر دیا۔ جارج کا کہنا تھا میں نے زندگی میں اسے کبھی بیٹے کی موت کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا وہ جب بھی بیٹے کا ذکر کرتی ہے میں اس سے کہتا ہوں کیتھی اولاد ہمارے نصیب میں نہیں تھی
ہم نے میڈیکل سائنس کے ذریعے زبردستی اولاد حاصل کرنے کی کوشش کی ہم کامیاب ہو گئے لیکن قدرت نے یہ واپس لے کر ثابت کر دیا انسان اپنے مقدر کو شکست نہیں دے سکتا تم دل چھوٹا نہ کرو بس یہ دیکھو میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں۔جارج کا کہنا تھا ہم حادثے سے نہیں بچ سکتے لیکن حادثے کے بعد ہمارے الزامات ہمارے دکھ اور ہماری چوٹ کی شدت میں اضافہ کر دیتے ہیں جبکہ اس کے برعکس ہماری محبت ہماری چوٹ کی شدت اور ہمارے دکھ میں کمی کا باعث بنتی ہے چنانچہ آپ کے چاہنے والے جب بھی کوئی غلطی کریں ان سے کوئی کوتاہی ہو جائے آپ ڈانٹنے کی بجائے انہیں صرف اتنا کہہ دیں آئی سٹل لو یو اور اس کے بعد دیکھیں وہ بھی خوش ہو جائے گا اور آپ بھی
close