Roshan Worlds: MOLANA TARIQ JAMEEL

knowledge islamic quotes articles poims islamic education tips and tricks apps and games for pc android apps latest news for information technology

google Search

Showing posts with label MOLANA TARIQ JAMEEL. Show all posts
Showing posts with label MOLANA TARIQ JAMEEL. Show all posts

Friday, April 26, 2019

Nidamat ky Aanso by Molana Tariq jameel

April 26, 2019 0
Nidamat ky Aanso by Molana Tariq jameel

ندامت کے آنسو



اَلْحَمْدُلِلّٰہِ نَحْمَدُہ وَنَسْتَعِیْنُہ وَنَسْتَغْفِرُہ وَنُوْمِنُ بِہ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہ  ۔۔ وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّاٰتِ اَعْمَالِنَا  ۔۔ مَنْ یَّھْدِہِ اللّٰہُ فَلاَ مُضِلَّ لَہ وَمَنْ یُّضْلِلْہُ فَلاَ ھَادِیَ لَہ  ۔۔ وَنَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہ لاَ شَرِیْکَ لَہ   وَنَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہ وَرَسُوْلُہ  ۔۔۔۔
 اَمَّا بَعْد۔۔۔۔ُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ  ۔۔۔ قُلْ ھٰذِہ سَبِیْلِیْ اَدْعُوْا اِلَی اللّٰہ ۔۔۔ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ۔۔۔ وَسُبْحَنَ اللّٰہ وَمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْن۔۔۔وَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔ یَا اَبَا سُفْیَان جِئتُکُمْ بِکَرَامَۃِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃ 



کائنات کی وسعت


یہ کائنات اتنی لمبی چوڑی ہے …کہ اس میں جو کہکشائیں ہیں… اس میں جوسیارے گردش کررہے ہیں… ان کا اگر کوئی فرضی نام رکھا جائے جیسے ہم نے سورج… چاند… عطارد… اسی طرح ہر ستارے کا کوئی نہ کوئی نام رکھ دیا تو ان ستاروں کو صرف گنے کے لئے تین سو کھرب سال چاہئیں اور اتنی لمبی پھیلی ہوئی کائنات میں ہماری زمین ایک چھوتی سی گیند ہے… اس میں تین حصے پانی ہیں اور ایک حصہ خشکی ہے… اس ایک خشک حصے میں دو حصے جنگل ہیں… دریا ہیں… پہاڑ ہیں… صحراء ہیں… صرف ایک حصہ آبادہے… 

ساری کائنات میں صرف زمین کا تیسرا حصہ آباد ہے… اس ایک حصے میں ایک چھوٹا سا پاکستان ہے… اس میں ایک چھوٹا سا حیدرآباد ہے …اور اس میں ایک چھوٹا سا ڈاکٹر ہے… اور پروفیسر ہے اور وہ کہتا ہے …کہ میں سب کچھ جانتا ہوں …کہ تو اس سے بڑا بے وقوف کون ہوگا… عقل بھی اس کو تسلیم نہیں کرتی …کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں… پہلے عام طور پر یہ ہوتا تھا …کہ ارے جی! کوئی نئی بات بتائو! باقی ہم جانتے ہیں… الحمدللہ آج کل یہ کم ہوگیا ہے…

{واسرو قولکم اواجھروا بہ انہ علیم بذات الصدور}… تم آہستہ بولو… زور سے بولو… میں تو دل کے بھید کو بھی جانتاہوں… وہ بھاگیں گے کہاں ؟تو چھپیں گے کہاں…  یعلم مایلج فی الارض… زمین کے اندر چھپی ہوئی چیزوں کو جانتا ہے…

 ومایخرج فیھا……… زمین سے نکلنے والی ہر چیز کو جانتا ہے…

 وما ینزل من السمآء  …  آسمان پہ چڑھنے والی ہر چیز کو جانتا ہے… 

یعلم عدد ورق الاشجار …دنیا میں درختوں کو کوئی نہیں گن سکتا… 

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں… میں ساری دنیا کے درختوں کی تعداد کو بھی جانتا ہوں…

 پھر اس میں پتے کتنے ہوں گے… اس کو بھی جانتا ہوں آج کتنے گرے ہیں…

 ماتسقط من ورقۃ الا یعلمھا …آج کتنے پتے گر گئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں مجھے تو پتہ ہے۔

ہم اپنے گھر کے درخت سے گرنے والے پتوں کو نہیں گن سکتے… اللہ تعالیٰ کائنات میں پھیلے ہوئے لمبے لمبے سینکڑوں میل کے جنگلات اور کہیں کنارے میں کہیں پہاڑی پر کہیں دامن میں کہیں وادی میں کہیں صحرا میں کتنے درخت ہیں… ان تمام کے عدد کو جانتا ہے…

 ان کے پتوں کو جانتا ہے… ……………  سبز کو جانتا ہے…

 گرے ہوئے کو جانتا ہے… جو گرنے والا ہے…   ا سے جانتا ہے… 

جس پہ کلی بنی ہے اسی جانتا ہے… جو خوشہ بنے گا…  اسی جانتاہے…

اس خوشے پہ کتنے پھل لگیں گے…………… اس کو جانتا ہے…

 وہ پھل کب پکے گا ……………………اس وقت کا پتہ ہے… 

کب کٹے گا ؟………………………اس وقت کا پتہ ہے…

طوطا کھائے گا… کو ا کھائے گا…گلہری کھائے گی… اس کا بھی پتہ ہے…

 پھر کون سی منڈی میں فروخت ہوگا؟…………  اس کا بھی پتہ ہے…

 کون اسے خرید کے کھائے گا؟……………   اس کا بھی پتہ ہے… 

یہ گٹھلی کہاں پھینکی جائے گی اس کا بھی علم ہے… وہ گٹھلی آگے کہاں دخت بنے گی… اس کا بھی علم ہے… اس سے آگے کتنے درخت بنیں گے اس کا بھی علم ہے… ایک گٹھلی سے کتنے درخت بننے والے ہیں… اس کا بھی علم ہے… ہر ایک پر کتنے پھل لگنے والے ہیں… ان پھلوں کو کون کون کھانے والا ہے…

اللہ کا علم اتنا کامل اتنا تم کہ… وعدد مثاقیل الجبال… پہاڑوں کے وزن کو جانتا ہے… ان میں کتنے خزانے گھسے ہیں اسے… جانتا ہے…

 اس میں ہیرا کہاں پر ہے… یاقوت……… کہاں پر ہے… 

زمرد کہاں پر ہے؟………………… اسے جانتا ہے

… سمندر میں کتنا پانی؟……………… اس کا پتہ… 

کتنی مچھلیاں اس کا پتہ، چھوٹی کتنی… بڑی کتنی …اس کا پتہ… 

کتنی اس میں آج پیدا ہوئیں… کتنو ں کو آج بڑی مچھلیوں نے کھایا…

 یہ مچھلی کون سی مچھلی کھائے گی……… اسے کون سی مچھلی کھائے… 

پھر اس مچھلی کو کون سی مچھلی نے کھایا…… پھر یہ مچھلی کون سے شکاری کے جال میں پھنسے گی۔

 یورپ کا شکاری لے جائے گا ………کہ ایشیاء کا شکاری لے جائے۔

 پھر وہ کس کشتی میں سفر کرے گی… ……کس منڈی میں بکے…

 ………………………  کس ملک میں فروخت ہوگی… 

اس کے دس ٹکڑے ہوں گے ………  کہ آٹھ ہوں گے…

 …………………………اسے کون کون کھائے گا…

 اس کے پنجرے کو کون سی بلی کھائے گی…… کون سا کتا کھائے گا…

 اللہ کا علم اتنا کامل ہے اس سے ہم کیسے چھپ سکتے ہیں…

…وہ اللہ… جس نے آسمان اٹھا دیئے…

…وہ اللہ… جس نے زمین بچھادی…

…وہ اللہ… جس نے سورج چمکا دیا…

…وہ اللہ… جس نے چاند کو گھٹا دیا… بڑھا دیا…

…وہ اللہ… جس نے رات کو اندھیرا دے دیا…

…وہ اللہ… جس نے دن کو روشنی دے دی…

…وہ اللہ… جس نے ستاروں کو جگمگاہٹ دے دی…

…وہ اللہ… جس نے انسانوں میں روح ڈال دی…

…وہ اللہ… جو ہوائوں کا مالک …

…وہ اللہ… جو فضاء کا مالک…

…وہ اللہ… جو بحر و بر کا مالک

…امن خلق السموت والارض…کس نے زمین… آسمان بنائے؟ اللہ خود سوال کرتا ہے…

…وانزل لکم من السمآء مآئ…پانی کس نے اتارا؟…

فانبتنا بہ حدائق ذات بھجہ…یہ خوبصورت… سرسبز درخت کس نے اگائے؟

…ماکان لکم ان تنبتوا شجرھا…

…تم سارے انسان اکٹھے ہوکر ایک درخت اللہ کے بغیر پیداکرکے دکھادو!

…ء الہ مع اللہ ………ہے کوئی میرے علاوہ؟

…بل ھم قوم یعدلون…تمہارا کیا کہوں میں پھر بھی تم مجھے چوڑ کر میرے غیر کے پاس چلے جاتے ہو

…امن جعل الارض قرارا……یہ زمین میں قرار کس نے رکھا؟

…وجعل خلھا انھارا……اس میںنہریں کس نے چلائیں؟

…وجعل لھا رواسی ……پہاڑ کس نے گاڑے؟

…وجعل بین البحرین حاجزا…کڑوے…میٹھے پانی کو جدا کس نے کیا؟

…ء الہ مع اللہ ……ہے کوئی اللہ کے سوا؟

…بل اکثرھم لایعلمون…تو میں کیا کروں… تم میں سے اکثر کو سمجھ نہیں…

پانی اللہ کی قدرت کی نشانی

والسحاب المسخربین السمآء والارض

زمین و آسمان کے درمیان بادلوں کا مسخر ہوکر کھڑے ہوجانا…

 ایسے پانی کے ٹینکر جن کی نہ کوئی ٹنکی ہے… نہ کوئی ٹونٹی ہے…

نہ کوئی چھت ہے… نہ کوئی گیٹ ہے… نہ کوئی وال پمپ ہے اور

نہ کوئی اس پر والو لگا ہوا ہے…  نہ کوئی پریشر پمپ ہے…

دھواں ہے… دھواں… اندر جائو تو دھواں اور برسنے لگے تو ساری دنیا ڈبودے…

پھر اس کا پانی ختم نہ ہو…پانی کو اوپر پہنچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کیا غیبی نظام چلایا …اور ٹنوں ٹن پانی اللہ تعالیٰ نے فضا میں کھڑا کردیا… اتنا بے وزن ہے …کہ اگر آپ اندر جائیں تو دھوئیں کی طرح بکھرتا نظر آئے…اور اس کے بادلوں میں ایک قطرہ پانی کی کمی نہیں آئے گی… 

وہ مون سون کا محتاج نہیں… اس کا امر ہی سب کچھ ہے… جب امر ہوتا ہے تومون سون ہو یا نہ ہو اللہ تعالیٰ دوسری ہوائوں کو ہی مون سون بنادیتا ہے… اور اسی فصاء کو اللہ تعالیٰ پانی میں تبدیل کردیتا ہے…

کہا…  الایات …کہا… میری نشانیاں ہیں… لیکن کس کے لئے؟ فرمایا:

لقوم یعقلون …جو تھوڑی سی عقل رکھتے ہین… ان کیلئے ان سب میں نشانیان ہیں،

چھپکلی کے الٹے چلنے پر غور کرو


ایک دفعہ میں لیٹا ہوا تھا… چھپکلی اوپر جارہی تھی… میں نے کہا یااللہ تیری کیسی قدرت ہے… یہ الٹی چل رہی ہے… تھوڑی کے بعد مجھے خیال آیا …کہ ہم بھی تو الٹے بیٹھے ہوئے ہیں… یہ زمین ہے اور یہ پائوں ہے اور سر فضا میں ہے… ہم سارے کے سارے الٹے زمین کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں… کبھی محسوس ہوا …کہ ہم الٹے چل رہے ہیں؟…چھپکلی کو الٹا دیکھتے ہیں… تو بھئی اللہ کی کیا قدرت ہے… دیکھو بھئی الٹی چل رہی ہے… گری بھی نہیں آپ بھی تو پچاس سال سے الٹے چل رہے ہیں… کبھی گرے ہیں؟

آم کی جگہ تربوز لٹکے ہوتے تو؟


ایک آدمی جارہا تھا… تربوز دیکھا اتنا بڑا… آدم دیکھا چھوٹا سا… کہنے لگا… اتنا بڑ ا تربوز زمین میں رکھ دیا… چھوٹے چھوٹے آم اوپر لٹکادیئے… اسی سوچ میں تھا …کہ ایک آم سر پر گرا… کہا اے اللہ تیرا شکر ہے… تربوز ہوتا تو سر ہی ٹوٹ جاتا… اب سمجھ میں آیا …کہ تربوز زمین پر ہے… یہ اللہ کا نظام بالکل ٹھیک ہے…

بلی کی تربیت کون کررہا ہے؟


بلی حاملہ ہوتی ہے تو وہ کونہ تلاش کرنے لگتی ہے… بچہ دینے کے لئے… اس کو اس کی ماں نے نہیں بتایا …کہ تجھے بچہ دینا ہے …تو کسی کونے میں چھپنے کی جگہ دیکھنی ہے۔۔۔

کسی ٹیچر سینٹر سے نہیں سیکھا… کسی نرسنگ ہائوس سے ٹریننگ نہیں لی… اس کو اوپر سے الہام ہے …کہ میں ایک ایسی جگہ بچہ دے دوں …کہ وہ ضائع نہ ہوجائے… اس کا کوئی ٹیچر یا استاذ نہیں … اللہ کا اوپر سے نظام ہے… اس کو بھی ہدایت دیتا چلا آرہا ہے… بلی کونے میں جاکر بچہ دیتی ہے تو بچہ کو نہیں پتہ …کہ میری ماں کی چھاتی کہاں ہے اور اس میں میری غذا ہے…

 اس کو ماں نے نہیں بتایاہم تو خود اپنے بچے کوسینے سی لگاتے ہیں… اور اس کے منہ میں چھاتی دیتے ہیں …  وہ چوستا ہے… بلی تو ایسی نہیں کرتی… اس کے بچے کی آنکھیں بند ہوتی ہیں…

 خودسرکتا ہوا ادھر کو چل رہا ہے… اس کی تقدیر اور اللہ کی ربوبیت اس کو اس طرف لے جارہی ہے … اس کو چوسنے کا طریقہ بتارہی ہے… ہم تو بچے کی منہ میں چوسنی دے دیتے ہیں تو اس کو چوسنے کا طریقہ آجاتا ہے اور اس کی مختلف طریقوں سے تربیت کرتے ہیں تو وہ سیکھتا ہے… 

بلی کا بچہ ہے جس نے کبھی دیکھا نہیں سنا نہیں… وہ خودبخود چھاتی کی طرف لپکتا ہے اور دودھ پیتا ہے… یہ سارے کا سارا نظام اللہ تعالیٰ غیب کے پردوں سے چلا رہا ہے…

اس بچہ کو کس نے سکھایا


ایک مادہ ہے وہ انڈے دیتی ہے… انڈے دینے کے بعد وہ کیڑے کو ڈنگ مارتی ہے… ایسے ڈنگ مارتی ہے …کہ وہ مرے نہیں بے ہوش ہوجائے… مرجائے تو گر جائے گا… سڑ جائے گا تو اتنا ڈنگ مارتی ہے …کہ بے ہوش ہوجائے… مرے نہیں۔

 وہ ان کیڑوں کو اپنے انڈوں کے پاس رکھ لیتی ہے… اور ان کی بے ہوشی اتنی ہوتی ہے …کہ جب تک وہ بچے انڈے سے باہر نہیں آتے ہیں تو ان کو ہوش نہیں آتا… جب وہ بچہ انڈے کے اندر سے نکلتا ہے… تو پہلے سے اس کے لئے گوشت کا انتظام کیا جاچکا ہوتا ہے…

 وہ ماں چلی جاتی ہے… انڈے سے نکلنے والا بچہ جب دیکھتا ہے …کہ میرے لئے کھانا تیار ہے… تو پھر اس کو کھاتا ہے… پروان چڑھتا ہے… پھر اس کے پر لگتے ہیں… پھر پورے گائوں میں بکھر جاتے ہیں… یہ بچہ جب بڑا ہوکر انڈے دینے پر آتا ہے تو اسی کام کو کرتا ہے جو اس کی ماں نے کیا تھا… نہ وہ اپنی ماں کو دیکھتا ہے نہ اپنی ماں سے سنتاہے… نہ اپنی ماں سے سیکھتا ہے

{صببنا المآء صبا ثم شققنا الارض شقا فانبتنا فیھا حبا وعنبا وقضبا وزیتونا ونخلا وحدآئق غلبا وفاکھۃ وابا متاعاً لکم ولا نعامکم}

قربان جائوں تیری قدرت پر 


ہوائیں چلیں… بادل اٹھے… فرش سے قطرہ قطرہ بن کر زمین پر پھیلی… دانہ پانی اندر گیا… بلبل زرخیز ہوئی… پھر ہم نے دانہ ڈالا… اس کی ایک شاخ اوپر گئی… اس کی جڑ نیچے گئی… اس کو غذا پہنچائی… زمین کی رگوں سے سمیٹ کر جڑتک غذا کو پہنچایا… 

پھر اس کو اٹھایا ہے جو اوپر اٹھایا ہے… کہیں شاخ نکلی… … کہیں ڈالی نکلی…

 کہیں پھول نکلا… ………کہیں شگوفہ نکلا… … کہیں پھل لگا…

اس میں مٹھاس ڈالی……… اس میں رس ڈالا…  اس میں رس بھرا …

 اس میں ذائقے بدلے… …اس میں ذائقے بھرے،…  ہر رنگ الگ…

 مٹھاس الگ……………… ذائقہ الگ…… خوشبو الگ… 

ہر ایک پر ٹائم لکھا…… فرشتوں کو مقرر کیا …

کہ جب تک یہ آم میرے بندے کے منہ میں چلا نہ جائے میرے پاس واپس لوٹ کے مت آنا…اتنے بڑے رحیم و کریم نظام چلانے والے کے سامنے سر جھکانے کے بجائے شیطان کے سامنے جھکائیں گے… تو کہاں جائیں گے؟

بوٹ پالش کرنے والا آئن اسٹائن سے عقلمند


ایک چھوٹا ساسیل ہے… انسان کے جسم میں وہ ہمیں نظر نہیں آتا …سوائے خوردبین کے …کہ اس کے ساتھ دیکھنے سے نظر آتا ہے… ایک فیٹس ہے جو انسولین بناتا ہے… اس کے بگڑنے پر انسان کو شوگر ہوجاتا ہے…جب یہ انسولین بنانا چھوڑدیتا ہے تو اس کو کنٹرول کرنے سے شوگر کا جو سسٹم ہے وہ خراب ہوجاتا ہے… پھر شوگر کی وجہ سے کھانا ہضم نہیں ہوتا… اس لئے سارا کام خراب ہوجاتا ہے… اس ایک سیل جو …کہ خوردبین سے نظر آتا ہے… بغیر اس کے نظر نہیں آتا… اس وقت تک اس پر لاکھوں انسان پی ایچ ڈی کرچکے ہیں…

 ارب ہا ارب ڈالر اس پر خرچ ہوچکے ہیں… تو اس ایک سیل کے فنکشن کا پورا حال معلوم نہیں ہوسکا توانسانی جسم کل ۲۵ کھرب سیل پر مشتمل ہے… یہ سارے اندازے ہیں ۔۲۵،۲۶ کھرب سیل سے بنا ہوا انسان ہے… توایک سیل میں اتنے جہاں کا دماغ لگا اور اتنے پیسے لگے اور نتیجہ یہی ہے …کہ ابھی تک پورا فنکشن معلوم نہیں ہوا…



… اللہ کون ہے؟ …


جو بنجر زمین میں پھل پھول اور تناور دخت کو اگاتا ہے … جو دل کو پھاڑتا ہے… گٹھلی کو توڑتا ہے… زمین کی رگوں سے غذا کو کھینچ کر جڑوں تک پہنچاتا ہے… زمین کی رگوں سے اس کے لئے پانی آرہا ہے… غذا آرہی ہے… پھر اللہ نے جڑوں میں چھلنیاں لگادیں… ضرور تکی غذآکو اپور لارہا ہے اور غیر ضروری غذا کو وہیں چھوڑ دیتا ہے… یہ تمام کام ہم تو نہیں کررہے… بل…کہ یہ رب العالمین کررہا ہے… پھر یہ اللہ تعالیٰ درخت کی شاخ کو حکم دیتاہے تووہ موٹی ہوتی ہے… پھر اس کو حکم دیتا ہے تووہ تنا بنتا ہے… پھر اس کو حکم دیتا ہے …تو وہ شاخیں نکلتی ہیں… پھر وہ شاخیں اس کے حکم سے پتے نکالتے ہیں… پھر ا ن کو حکم دیتا ہے …تو اس میں پھول آتے ہیں… پھر اللہ کے حکم سے وہ خوشے بنتے ہیں… پھر اس کے حکم سے اس میں پھل بنتا ہے… وماتخرج من ثمرات من أکمامھا … تیرا رب ہی ہے …کہ درخت کی شاخوں سے پھول او رپھول سے پھل پیدا کرتا ہے! یہ کون کررہا ہے… رب العالمین…

پھیکے پانی سے میٹھے آم کا پیدا ہونا


پھر اس کو الگ کردیا… پھر اس میں مٹھاس بھردی… خوشبو بھردی…ہم نے تو زمین کے اندر چینی کو دفن نہیں کیا… لیکن زمین کے اندر اللہ پاک گنے کو چینی سے بھر کر اس میں مٹھاس پیدا کرکے اوپر لاتا ہے… یا آم کے درخت کے نیچے ایک دو بری شکر ڈال دو…

 آم کا درخت یہاں کی شوگر لے لے کے میٹھا ہوجائے گا… سبحان اللہ… پھیکی زمین اور پھیکے پانی سے آم میں میٹھا پانی پیداکررہا ہے… ہوائوں کو چلنا… سورج کی کرنیں اور چاند کی چاندنی … یہ اللہ کا نظام ہے… 

چھ مہینے کے بعد خوبصورت آم اور سیب ہمارے لئے تیار ہوکے آتا ہے… یہ تمام امور انجام کس نے دیئے؟ یہ خوبصور ت رنگ والے سیب کہاں سے لے کر آیا؟ سیب کیسا خوبصورت رنگ پکڑتا ہے… ایک سیب رکھا ہوا ہو تو وہ سارے کمرے کو مہکادیتا ہے… یہ خوشبو سیب کے اندر کہاں سے آگئی… رب العالمین کی طرف سے…

بادل اللہ کی قدرت کا نمونہ

یہ پانی بادل کی صورت میںسمندر پر برسا… شہروں پر برسا… بیابانوں میں برسا… صحرائوں میں برسا… ایک پانی سے اللہ تعالیٰ اپنی ربوبیت کا رنگارنگ نظام دکھا رہا ہے… 

اسی پانی کو گائے پی رہی ہے………… تو دودھ بن رہا ہے… 

سانپ اور بچھو پی رہے ہیں………… تو زہر بن رہا ہے…

 انسان پی رہا ہے تو……………… زندگی کا سامان بن رہا ہے…

 درخت پی رہے ہیں……………    تو پھل میوے بن رہے ہیں…

 پھول پی رہا ہے… تو کلیاں بن رہی ہیں… خوشبو پھیل رہی ہے او رمہک رہی ہے۔۔۔۔۔

 ہم اوپر ٹنکی میں پانی پہنچانے کے لئے پریشر موٹر لگاتے ہیں…جو پانی کو پمپ کرکے پانی کو اوپر پہنچاتی ہے… اللہ تعالیٰ کے درخت ہیں …جو سو دو سو فٹ اونچے ہوتے ہیں… اللہ تعالیٰ پانی زمین کی رگ سے اٹھاتا ہے… اور جڑ میں پہنچاتاہے… اوربغیر کسی پریشر موٹر کے درخت کے آخری پتے تک زمین کا پانی پہنچانا ہوتا ہے…

پھر اللہ تعالیٰ اس پانی کو مساوی اور برابر تقسیم کرتا ہے… تنے میں پہنچاتا ہے… ڈالیوں میں پہنچاتا ہے… پتوں اور شاخوں میں پہنچاتا ہے… پھر پانی خوشبوئوں تک اور پھلوں تک پہنچاتا ہے… پھر پانی کورس میں بدلتا ہے… پھر رس میں مٹھاس پیدا فرماتا ہے… پھر اس کو رنگ میں تبدیل کرتا ہے… پھر اس کو ذائقہ دیتا ہے… یہ سارے کا سارا اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا نظام ہے… جو فرعون کے لئے بھی چل رہا ہے… اور موسیٰ علیہ السلام کے لئے بھی چل رہا ہے…

 اتنے بڑے عظیم الشان رب کا دربار ہے… جو دشمنوں کے لئے کھلا رہتا ہے… اور دوستوںکے لئے بھی کھلا رہتا ہے… اپنے کو بھی دیتا ہے… اور پرائے کو بھی دیتاہے… ماننے والے کو بھی دیتا ہے… اور نہ ماننے والے کو بھی دیتا ہے… حرام کھانے والے کو بھی اور حلال کھانے والے کو بھی دیتا ہے… جھوٹ بول کے کمانے والے کو بھی دیتاہے… اورسچ بول کر کمانے والی کو بھی دیتا ہے… رشوت دینے والے کو بھی دیتا ہے… اور حلال پر گزارہ کرنے والے کو بھی… نظام اس کا سارا چلتا ہے…

اللہ کو ناراض کرنا بہت بڑا ظلم ہے


میرے بھائیو! ایسے رب کو نہ ماننا او راس کی اطاعت نہ کرنا بہت بڑی زیادتی ہے… بہت بڑی ہلاکت ہے… او ربہت بڑا ظلم ہے… میرے دوستو! اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتا… ہم ہی اپنے جانوں پر ظلم کرتے ہیں… اللہ کی ربوبیت کا یہ نظام ہمیشہ سے چل رہا ہے اور آئندہ بھی چلے گا

تو بھائیو!

ہم خود ہی توبہ کریں …کہ اللہ سے کٹ گئے… بچہ ماں سے بچھڑ کے اتنا نہیں تڑپتا … جتنا اللہ سے بچھڑ کے انسانیت تڑپتی ہے او رایک بات بتائوں… ماں سے بچھڑ کر ماں کو بچے کے لوٹنے کا اتنا انتظار نہیں ہوتا جتنا اللہ کو اپنے نافرمان بندے کے لوٹنے کا انتظار رہتاہے … ماںرات کو کنڈی نہیں لگاتی… ذرا کھلا رکھتی ہے شاید… شاید… رات کے کسی وقت آجائے… وہ ہوا کے جھونکے کو بھی بیٹے کے قدم کی آہٹ سمجھ کر اٹھ بیٹھتی ہے…

 وہ ہر دستک میںاپنے بیٹے کی آواز سنتی ہے… اس سے زیادہ اللہ کو انتظار ہوتا ہے … نافرمان بندے کا …کہ آجا میرے بندے! آجا… تیرے لئے راہیں کھلی ہیں… بازو پھیلے ہیں… دامن کشادہ ہے تو آ تو سہی… توبہ تو کر… پھر دیکھ تیرا میرا تعلق بنتا کیسے ہے؟

سب سے بنا دیکھی………  اب مولا سے بھی بنا کے دیکھ لے…

سارے ہی گھاٹ کاپانی پی لیا… اب نبوی گھاٹ کا بھی پانی پی کے دیکھ لے…

نظر اٹھانے کے مزے چکھ لئے… نظر جھکانے کا بھی مزہ چکھ لے…

تو توبہ کر پھر دیکھ میری رحمت


… من اقبل الی… جو میری طرف چل پڑتا ہے… چاہے سارا دامن اس کا گناہوں سے آلودہ ہے… اور روواں روواں اس کا گناہوں میں جکڑا ہوا ہے… میری طرف چل پڑے… تلقیۃ من بعید… میں آگے بڑھ کر اس کا استقبال کروں گا… اللہ اکبر… جس سے آپ کو تعلق ہوتا ہے ناں آپ اسے دیکھ کر اٹھ پڑتے ہیں…

 اور آگے بڑھ کر اس کو ملتے ہیں… نہیں ملتے…؟ اللہ تعالیٰ کہہ رہے ہیں…

 جو میری طرف آجائے……………میں آگے بڑھ کر اس کو ملوں گا…

 پھر یہی نہیںجو ہم سے منہ موڑے……… ہم دس د فعہ منہ موڑتے ہیں…

 اللہ کیا کہہ رہے ہیں… ومن اعرض عنی… اور جو مجھ سے منہ موڑ لیتا ہے…

 نادیتہ عن قریب… میں اس کے قریب جاکر اسے کندھے سے پکڑ کر یوں بلاتا ہوں …

اے میرا بندہ کہاں جارہا ہے… مسئلہ تو ادھر حل ہوگا… مجھے چھوڑ کر کہاں چل دیا… اور اس کو قرآن میں اللہ نے یوں بیان کیا ہے:

{… یاایھاالناس… ماغرک بربک الکریم…}

اے میرے پیارے بندے… تجھے کس نے دھوکہ دے دیا… اپنے رب کی ذات کے بارے میں …جو تو رب سے دور جا کر بیٹھا اور مخلوق سے وفا کر بیٹھا ہے… ماغرک بربک الکریم … کیا ہوا تجھے …کہ رب کو بھلا کر مخلوق کے پیچھے بھاگ پڑا؟ یہ قرآن کے الفاظ ہیں…

…تو بھائیو! اللہ کی طرف آئیں جو انتظارمیں ہے… 

…اس کا فضل… اس کا کرم اس کی پکڑ سے آگے…

…اس کا درگزر اس کا انتظام سے آگے…

اللہ کے نافرمانوں کے لئے خوشخبری

…عرش پر کچھ نہیں… سوائے اللہ کے…اس پر اس نے ایک تختی پر خود لکھوایا ہوا ہے:

…{ان رحمتی سبقت غضبی}…’’میر ی رحمت میرے غصے سے آگے ہے…‘‘

…{یداود بشر المذنبین}……اے دائو!جائو میرے نافرمانوں کوخوشخبری سنادو…

…دائود علیہ السلام حیران… یااللہ! تیرے نافرمانوں کو کیا خوشخبری سنائو؟ کون ہیں بتائو؟

…{لایتعازم علی ذنب ان اغفرہ}…

تمہارا رب بڑے سے بڑا گناہ معاف کرتے ہوئے نہیں گھبراتا… پس ادھر تم توبہ کرتے ہو اور ادھر وہ معاف کردیتا ہے… ایک ماں کو منانا ہو تو دانتوں پسینے آتے ہیں… باپ کو منانا ہو تو کیا کیا پائوں پکڑنے پڑتے ہیں…

میرے بھائیو!آج تک جو ہو ا اپنے اللہ کے سامنے سرجھکادو… یااللہ! بس میری توبہ! میں آگیا…جئتک تائبا فاقبلنی: میری توبہ! بس قبول فرما !

اور ادھر بھی اتنا کھلا دربارہے… لاالہ الااللہ… 

شیطان نے کہا : ولاابرح اغفا عبادک: تیرے بندوں کو مسلسل گمراہ کروں گا… 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ولا ابرح اغفرلھم استغفرلی: او ر میں بھی انہیںمسلسل معاف کروں گا… جب تک وہ توبہ کرتے رہیںگے… شیطان نے گمراہی کا در کھولا اور اللہ نے معافی کا در کھولا… اس نے گمراہی کے اسباب بنائے… اللہ نے توبہ کے اسباب بنائے…

 کہا: چل توبہ کر !تیرے لاکھ برس کے ہوں… یا ہزار برس کے ہوں… تیرے ایک بول پر سب معاف کردوں گا… کہاں تک ہوں؟ آسمان کی چھت تک گناہ چلے جائیں…

اتنے کرے گا کون؟ …اور کون کرسکتا ہے؟

اور کیسے کرسکتا ہے؟ …اور کیسے ہوسکتے ہیں؟

زمین آسمان کے برابر گناہ اور اللہ کی معافی

 اللہ کہتا ہے …کہ تو اتنے کر اور سارے دل کے ارمان نکال… اور کائنات کو اپنے گناہوں سے بھر کر آسمان کی چھت تک اپنے گناہوں کو پہنچادے… تو تیرے ایک بول پر کہ:یاللہ! معاف کردے… میں سارے معاف کردوں گا… اور مجھے کوئی پرواہ نہ ہوگی… 

لاابالی کہا: مجھے پرواہ ہی نہیں… کیا ہوا…ان استطالنی اقلت لہ: اگر تو پھر توبہ توڑ دے اور پھر منہ مارلے گناہوں میں… پھر آجا پھر توبہ کرلے… ہم پھر معاف کردیں… پھر ٹوٹ گئی … پھر توبہ کرلے ہم پھر معاف کردیں گے… کیوں؟

{…لاتضرہ الذنوب ولاتنقصہ المغرہ…}

ہمارے گناہوں سے اس کو نقصان نہیں ہوتا… اور معاف کرنے سے وہ کم نہیں پڑتا… لہذا وہ انتظار میں ہی رہتا ہے …کہ کب توبہ کرے اور ہماری معافی کا پروانہ دے دیا جائے…

ماتھوں کو سجدہ سے سجا لو

میرے بھائیو!اللہ کے واسطے اللہ کی گھروں کو آباد کرلیں…

ان ماتھوں کو سجدہ سے سجالیں…

اس زبان کو سچ سے مزین کرلیں…

اس دامن کو پاک کرلیں… پاکیزہ کرلیں…

اور اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی دیر… دیر نہیں… ادھر ہم توبہ کریں گے…

 اور ادھر ساری زندگی کے گناہ دھوکے اللہ تعالیٰ باہر نکال دے گا…

 اور ایک دفعہ بھی طعنہ نہیں دے گا… دیر سے کیوں آئے ہو؟

ماں طعنے دے گی… باپ طعنے دے گا…

بچے طعنے دیتے ہیں… دوست طعنے دیتے ہیں…

پہلے کہاں تھے؟اللہ طعنہ نہ دے گا… پچاس سال کے بعد توبہ کرنے آگئے ہو… پہلے کہاں تھے؟

وہ تو جوں ہی ہم کہیں گے:یااللہ! میں آگیا…اللہ تعالیٰ کہے گا: مرحبا!

میں تو پچاس سال سے تیرے انتظار میں بیٹھا تھا… مرحبا! آجائو… 

میں ستر سال سے تیرے انتظار میں بیٹھا تھا… مرحبا! 

میں تو بیس سال سے دیکھ رہا تھا …کہ کب تیری زندگی میری طرف مڑجائے…

آجائو! آجائو!آجائو… میرے راستے کھلے ہیں… میری بانہیں کھلیںہیں… میرا در کھلاہے… میرا دربار کھلاہے… تیری توبہ ہوئی اور ساتوں آسمان پہ ڈنکا بجا… ساتوں آسمان یہ چراغاں ہوتا ہے…ساتوں آسمان پہ روشنیاں… جیسے شادی والے گھر میں روشنی… پتہ چلا شادی ہورہی ہے… ساتوں آسمان میں روشنی… فرشتے کہتے ہیں… یہ روشنی کیسی روشنی ہے؟

اللہ کا پسندیدہ بول ،اللہ میری توبہ!


میرے بھائیو! اللہ پاک کی ذات منفعل ہے… منفعل عربی زبان کا لفظ ہے اس کا مطلب ہے کسی واقعے سے دل پر اثر نہ لینا… اللہ پاک کی ذات منفعل ذات ہے … اثر سے پاک ذات ہے… یہ نہیں کہتا…اچھا اب آئے ہو جب منہ میں دانت نہیں رہے اور نظر آتا نہیں… اب آئے ہو توبہ کرنے… نہیں نہیں… زندگی کے آخری سانس میں بھی توبہ کرے تو قبول ہے… پر توبہ کرے… اے اللہ مجھے معاف کر… یہ جملہ اللہ کو ایسا پسند ہے …کہ حضور اکرم  ﷺ نے فرمایا! تم اگر سارے فرمانبردار بن جائو اور تم میں کوئی گناہ نہ کرے …تو اللہ تم سب کو موت دے کر ایسی قوم لائے جو گناہ کرے … پھر توبہ کرے… پھر اللہ ان کو معاف کرے… لوجداللہ توابارحیما… کہا… تم مجھے مہربان پائوگے توبہ کرو…

 میری توبہ ہوگئی… میری دنیا او رآخرت کی مصیبتیں اب ٹل جائیں گی… خوشی اللہ تعالیٰ منارہے ہیں… جس کو ہماری توبہ کی پرواہ نہیں… ہم توبہ کریں تو وہ غنی… ہم ناز پڑھیں تو وہ غنی… نہ پڑھیں پھر غنی…

ہماری اطاعت اس کو اونچا نہیں کرتی…

ہماری نافرمانی اس کو پست نہیں کرتی…

ہماری فرمانبرداری سے اس کی عزت زیادہ نہیں ہوتی…

ہمار نادانی سے اس کی عزت کم نہیں ہوتی…

لیکن پھر بھی وہ چراغاں کرتا ہے… چلو بھئی میرا بندہ میرے پاس آگیا…

اور جو مجھ سے روٹھ جاتا ہے تو میں اس کے پیچھے جاتا ہوں… اسے کندھے سے پکڑتا ہوں… ادھر آجا… ادھر آجا… جیسے ماں شفقت سے بچے کو پکڑتی ہے ادھر آجا میرا بچہ… اسی طرح اللہ اپنے بندے اور بندی کے کندھے پہ ہاتھ رکھتا ہے… ادھر آجا… ادھر تیرے لئے ہلاک کے سوا کچھ نہ ہوگا… میں تیرا انتظار کررہا ہوں…

میں تیرے انتظار میں ہوں تو آ تو سہی


 ان ذکرتنی ذکرتک

تومجھے یاد کرتا ہے میں تجھے یاد کرتا ہوں…

ان نسیتنی ذکرتک

تو مجھے بھول جاتا ہے میں پھر بھی تجھے یاد کرتا ہوں…

طوالینی واوالیق

تو مجھ سے دوستی لگاتا ہے میں تجھ سے بڑھ کے دوستی لگاتا ہوں…

اللہ کہہ رہا ہے:

نحن اقرب الیہ من حبل الورید

میں تیری اس شہ رگ سے زیادہ تیرے قریب ہوں اور اللہ مل گیا… سب کچھ مل گیا… مال نہیں ملا کوئی بات نہیں… مل گیا… الحمدللہ… نہ ملا پھر بھی الحمدللہ… اللہ مل گیا… سب کچھ مل گیا…

تو مل گیا توسب مل گیا 


لیتک تحلو ولایام مریرۃ… لیتک ترضٰی… ولانام غطاب

تو مل گیا مگر سارا جہان روٹھ گیا تو کوئی پرواہ نہیں

لیت الذی بینی وبینک عامر… وبینی وبین العالمین خراب

تیرا میرا تار جڑ گیا مگر سارے جہان سے میرا تار کٹ گیا تو کوئی پرواہ نہیں…

فاذاتح منک الود فلکل ھین وکل الذی فوق التراب التراب

اے میرے مولا… تیرے میرے تعلق میں کوئی حرف نہ آئے… کوئی فرق نہ آئے اور سارا جہاں چھن چھن جائے اور مٹی ہوجائے… چاہے میں بھی مٹی ہوجائوں… پر کوئی پرواہ نہیں …کہ میری تیری محبت باقی رہے گی… او راسی پر تو مجھے اٹھائے گا…

ادھر توبہ ! ادھر مغفرت کا پروانہ


 میرے بھائیو!جب اللہ اتنا کریم ہے تو آج نیت تو کرلو… یااللہ  میری توبہ… ارے بولو تو سہی… بھائی ہم آج توبہ کرلیں… اب خوشخبری سنو… مجھے نہیں پتہ …کہ کس نے سچی کی… کس نے منہ زبانی کی… لیکن جس نے سچی توبہ کی ہے…مجھے اس رب کی قسم جس نے :

٭… آسمان کی چھت کو تانا…

٭… زمین کے فرش کو بچھایا…

٭… چاند کو گٹھایا اور بڑھایا…

٭… رات کو اندھیرا بخشا…

٭… دن کو اجالا بخشا…

مجھے اس ذوالجلال والا کرام کی قسم… جو اس مجمع میں سچی توبہ کرچکے ہیں انہیں مبارک ہو… آج اس وقت وہ ویسے ہیں …کہ ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہوں … موج کرو… تمہارے الٹے ہاتھ والی فائل اللہ نے پھاڑ دی… پھینک دی… فرشتے کی تیس سالہ محنت ضائع چلی گئی… بیس سالہ … پچاس سالہ… ستر سالہ… اسّی سالہ… پچیس سالہ… چالیس سالہ… اس کی محنت ضائع ہوگئی… ساری فائل اللہ نے پھاڑ دی… جلادی اور فرمایا نئی لگادو…

 مبارک ہو اس کو جنہوں نے سچی توبہ کی… اب جنہوں نے جھوٹ موٹ کی ہے وہ اب سچی توبہ کرلیں… معاملہ پاک ہوجائے… صاف ہوجائے… اب کیا ہوا چند معاف… حقوق باقی… سور روپے دبالیا… سو روپے کی چوری معاف ہوگئی… سو روپے ادا کرنا باقی ہے…

 نماز چھوڑی … نماز کا چھوڑنایہ جرم معاف… نماز کی ادائیگی باقی… اس لئے کہہ رہاہوں… سارے معاف ہوگئے… ہاںحقوق ہیں … ان کی ادائیگی رہ گئی… جرم معاف ہوگیا تو بھائی یہ کام تو کرلیا سب نے؟

آج شیطان بھی اللہ سے امید لگائے بیٹھا ہے


اللہ اس درجے کا رحیم ہے …کہ ایک حدیث میں آتا ہے …کہ اگر شیطان کو بھی اللہ کی رحمت کا پتہ چل جائے تو وہ بھی جنت کا امیدوار بن جائے… حالانکہ اس کو اللہ نے کہہ دیا ہے …کہ تیرے لئے جہنم ہے… اللہ کے ہاں شدت نہیں ہے… مریض کا آپریشن ہو تو کیا ڈاکٹر ظلم کرتاہے؟ مسلمانوں کے پاس وسائل نہیںہیں تو کیا مطلب اللہ غافل ہے؟… نہیں عین رحمت ہے …کہ ان کو دنیا میں گناہوں سی دھونا چاہتاہے… آگے پکڑے تو برباد ہوجائیں…     ہماری گاڑی کا پہیہ پنکچر ہے… ورنہ سڑک تو بہت اچھی ہے… جب ہماری گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو تو سڑک پر کیسے چلے؟



نافرمانی کے باوجود اللہ کی کرم نوازی تو دیکھئے


اللہ فرماتے ہیں میرے بندے جب تم میں جوانی کی لہر اٹھی… اور توبڑا ہوا… تیرے بازو مضبوط ہوئے… تو نے کیا کیا؟ اے برے انسان تو میرا ہی نافرمان بن گیا… تو نے مجھے کیسے للکارا… میرا نافرمان ہوگیا… میرے حکموں کو توڑ دیا۔

… بالمعاصی… نافرمانی کے ساتھ مجھ سے ٹکر لی… ماذالک… اس کے باوجود …

کہ تو میرا نافرمان ہے… ماذالک… ان سالتنی اعطیتک… تو مانگتاہے میں دیتا ہوں

 استغفرتنی غفرۃ لک… تو توبہ کرتا ہے… میں تیری توبہ کو قبول کرلیتا ہوں۔۔۔

… استغلتنی اغلت لک… تو پھر توبہ توڑتا ہے… پھر آکے توبہ کرتا ہے…

 میں تیری توبہ قبول کرلیتا ہوں…ھکذا جزاء من احسن الیک … اللہ تعالیٰ فرماتا ہے! 

 فیصلہ کر …کہ احسان کرنے والے کے ساتھ یہی کیا جاتا ہے… جو تو میرے ساتھ کررہا ہے؟…ھکذآ جزاء من احسن الیک… یہی کیا جاتا ہے جو تم کررہے ہو؟۔۔۔۔

ماں باپ کیوں دکھی ہوتے ہیں اولاد پر … اولاد نافرمان ہوتی ہے… احسان یاد آتے ہیں ہم نے یہ کیا… یہ کیا… اللہ کا احسان تو دیکھ …کہ اس نے گندے پانی سے خوبصورت انسان بنایا… پھر اس کا کتنا بڑا احسان ہے …کہ اس نے اسلام کی دولت بخشی… کتنا بڑا ظلم… کتنی بڑی ہلاکت ہے کفر پر مرجانا… کبھی بھی تو نہیں جہنم سے نکلیں گے… وماھم بخارجین من النار… کوئی تو دن آتا …کہ یہ جہنم سے نکلتے… کوئی دن نہیں آتا… کتنا بڑا اللہ نے احسان کیا …کہ ایمان کی دولت دی…



میں تیرے انتظار میں بیٹھا ہوں


عرش کے اوپرایک بہت بڑی تختی ہے… جس کی لمبائی چوڑائی کو اللہ کے علاوہ کوئی جانتا… اللہ نے خود لکھوایا ہے… میری رحمت میرے غصے سے آگے چلی گئی… (اللہ فرماتے ہیں) اے میرے بندے میں تو تجھے یاد رکھتا ہوں… تو مجھے بھول جاتا ہے… میں تو تیرے گناہوں پر پردہ ڈالتا ہوں… تو پھر بھی مجھ سے نہیں ڈرتا… میں پھر بھی تجھے یاد رکھتاہوں تومجھے بھول جاتا ہے…میں پھر بھی تجھے یاد رکھتا ہوں… تو ناراض ہوکر منہ پھیر جاتا ہے… میں نہیں منہ پھیرتا… میں تیرے انتظار میں رہتا ہوں…  

گھوڑے سے وفاداری سیکھو


میرے بھائیو ! اللہ کی رحمت کا مطلب یہ تھوڑا ہے …کہ اللہ بڑا مہربان ہے… اس کی نافرمانی کرو… اللہ نے سورہ عادیات میں کیسا گلہ کیا ہے؟…

 اللہ تعالیٰ نے گھوڑے کی کیوں قسمیں کھائیں؟… اے میرے بندے! نہ تو نے گھوڑا بنایا ہے… نہ تو نے اسے پالا… میں نے تیری ملکیت میں دیا… چند دن تونے دانہ کھلایا… پانی پلایا… اب تو اس پر زین رکھتا ہے؟ اس کو ایڑ لگاتا ہے اور وہ تیری مان کے چلتا ہے… دشمن پر حملہ کرتا ہے  سینے پر تیر کھاتا ہے… تھکا ہارا آتا ہے… پھر تو صبح اٹھ کر اس کی پیٹھ پر زین رکھتا ہے…

 پھر اس کو ایڑ لگاتا ہے… وہ نہیں کہتا میں تھکا ہوا ہوں… چھوڑ دو… مجھے آرام کرنے دو… نہیں  تیری لگام کے اشارے کو سمجھتا ہے… تھاپ مارتا ہے… چنگاڑی اڑاتا ہے… دوڑتا جاتا ہے… غبار اڑاتا جاتا ہے… دشمن کے درمیان میں گھستا ہے…

اے میرے بندے! گھوڑے نے تو تیری فرمانبرداری کی پر تو میرا نافرمان نکلا…    میرا ناشکرا نکلا… کیسا گلہ اللہ نے کیا… تجھے کس نے دھو…کہ میں ڈال دیا… 

مجھ سے جس کی رحمت کی انتہاء نہیں… پور دنیا مل جائے تو اتنے گناہ نہیں کرسکتی ۔۔۔

کہ زمین بھرجائے… آسمان اور خلاء بھر جائے ۔۔۔۔۔پوری دنیا مل جائے تو اتنے گناہ نہیں کرسکتی…

 لیکن اس کی رحمت پہ قربان جائیں…ایک آدمی کو اللہ بلائے گا قیامت کے دن جو توبہ کرچکا ہے ۔ میرے بندے تو نے یہ گناہ کیا… جی ہاں… یہ گناہ کیا ہے… اللہ گناہ گنتا جائے گا او روہ کانپتا جائے گا …کہ اب مرگیا… تو جب اس کی حالت غیر ہوگی تو اللہ فرمائے گا…

     اچھا سنو… تو نے جتنے گناہ کئے ہیں… میں نے سب کو نیکیوں سے بدل دیا تو وہ جلدی سے کہے گا اے اللہ! وہ میرے گناہ تو تو نے گنوائے ہی نہیں… جو پچھلے کئے ہوئے ہیں تاکہ اور نیکیاں مل جائیں… یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اتنی آگے ہے …کہ ان کے گناہوں کوبھی اللہ نیکیوں سے بدل دے گا…

کسی نے بے شمار گناہ کئے ہوں اور ہزاروں سال کے بعد ایک دفعہ کہہ دے یا اللہ! معاف کردے… اللہ وہیں کہتا ہے: آجا ! آجا! میں نے معاف کردیا…

لاکھ بار گناہ !لاکھ بار توبہ


ماں کو منانا پڑتا ہے… منتیں کرنی پڑتی ہیں… اللہ کی تو منت نہیں کرنا پڑتی… اتنا کہنا پڑتا ہے… یااللہ معاف کردے… اللہ کہتا ہے میں تو کب سے انتظار میں تھا… تو ایک دفعہ تو کہہ معاف کردے… جا میں نے معاف کردیا… جا میں نے معاف کردیا… اور دیکھ سن لے اگر توبہ ٹوٹ جائے تو گھبرانا نہیں… پھر آجانا… پھر معاف کردوں گا…پھر ٹوٹ جائے…

 پھر آجانا… میں پھر معاف کردوں گا…میں دنیا کا بادشاہ نہیں ہوں …کہ تنگ پڑجائوں… تیری توبہ لاکھ دفعہ ٹوٹ جائے… تو لاکھ دفعہ جوڑے اور ہو توسچا… سچے دل کے ساتھ تو میں لاکھویں دفعہ بھی اسی محبت کے ساتھ تیری توبہ کو جوڑ دوں گا… جیسے تیری پہلی توبہ کو قبول کرکے جوڑا تھا… اسی سے بغاوت کرنی ہے…

جب آدمی توبہ کرتا ہے تو سارے آسمان پر چراغاں کیا جاتا ہے… ارے بھائی یہ کیا ہورہا ہے… توایک فرشتہ اعلان کرتا ہے …کہ آج ایک بندے نے اپنے اللہ سے صلح کرلی… اور توبہ کرلی ہے… اس کی خوشی میںچراغاں ہے… چراغاں تو وہ کریں… جس نے توبہ کی ہے… چراغاں وہ کررہا ہے… جس کو ہماری توبہ کی ضرورت ہی نہیں… اللہ اکبر…

گناہگار کی توبہ پر اللہ کی خوشی 


جب آدمی توبہ کرتا ہے… تو آسمان پہ ایسے چراغاں ہوتی ہے… جیسے یہ آپ نے لائٹیں جلائی ہوئی ہیں… تو فرشتے کہتے ہیں کیا ہوا بھائی… یہ روشنیاں کیوں ہیں؟… تو فرشتہ اعلان کرتا ہے… اصطلح العبد علی مولاہ … بھائی آج ایک بندے نے اپنے مولا سے صلح کرلی ہے… توبہ کرلی ہے… اللہ تعالیٰ نے کہا ہے …کہ اس خوشی میں چراغاں کرو! …کہ میرا بندہ آگیا… تو بھائی ہم چاہے پولیس والے ہوں … چاہے زمیندار ہوں… چاہے تاجر ہوں… مسئلہ تو ہم سب کا اللہ ہی سے جڑا ہوا ہے… لہذا بھائی ہم اپنے اللہ کو منانے کے لئے اللہ کی طرف رجوع کریں… اور توبہ کریں…مزے ہوگئے بھائی کیا کریں؟ بھائی توبہ کرلیں۔

شیطان کی اسکیم


شیطان کیا کہتا ہے… اللہ بڑا غفورالرحیم ہے… لہذا سب کام کرو… جھوٹ بھی بولو… شراب بھی پیو… رشوت بھی لو… یہ تمام کام کیوں کرو …کہ اللہ بڑا غفور الرحیم ہے… یہ عجیب فلسفہ چل پڑا ہے… اللہ بڑا مہربان ہے… جی… لہٰذاب سب جھوٹ… رشوت… بددیانتی… خیانتی… خیانت… تمام کام کرو… کیوںکہ اللہ بڑا مہربانی ہے… ہاں بھئی کتے سے سبق لو …کہ ایک روٹی کے ساتھ وہ وفا کرتاہے …کہ ساری زندگی آپ کا در نہیں چھوڑتا… آپ اس کو ماریں تو آگے ٹوں کرتا ہے … کاٹتا نہیں ہے… آپ کے سامنے لیٹ جاتا ہے اور پٹنے کو تیار ہوجاتاہے… دو دن روٹی نہ ڈالو… آپ کے در کو چھوڑ کے کسی دوسرے کے در پر نہیں جاتا… اللہ تھوڑا اسے چھٹکارا دے دے تو سب کی ہائے ہائے… ہم ہی ملے ہیں اللہ کو اور کوئی ملا ہی نہیں

تو بھائی اللہ کریم ہے تو ہم کیا کریں …کہ ہم توبہ کریں …جو میرے اوپر اتنا احسان کررہا ہے… تو میں بھی اس کے احسان کا بدلہ دوں… جس نے ہوائوں کو حکم دیا… چلو میرے بندے کے لئے کبھی بادلوں کے ٹولے لے کر… کبھی کشتیوں کو لے کر… جس نے زمین کو حکم دیا …کہ نکالو اپنے خزانے…کبھی سونے کی شکل میں… کبھی چاندی کی شکل میں… کبھی پیتل کی شکل میں… کبھی لوہے کی شکل میں… کبھی تانبے کی شکل میں… کبھی کھوٹ کی شکل میں… کبھی تلواروں کی شکل میں… جس طرح بادلوں کو حکم دیا …کہ برسو !میرے بندوں پر قطرہ قطرہ بن کے

میں تجھے عذاب دے کر کیا کروں گا


اور ایک وجہ نہ پکڑنے کی یہ ہے …کہ اللہ اپنے بندوں پہ مہربان ہے… رحیم ہے … کریم ہے… ان سے توبہ چاہتا ہے… 

…{مایفعل اللہ بعذابکم ان شکرتم وامنتم وکان اللہ شاکراً علیماً}…    میں تمہیں عذاب دے کے کیاکروں گا… اگر تم ایمان لے آئو اور میرے فرمانبردار بن جائو …   تو میں تمہیں عذاب دے کر خوش نہیں ہوں… 

اللہ تعالیٰ اپنے عذاب کو ٹالتاہے… بندے کی توبہ کا انتظار کرتا ہے… سبحان اللہ… قربان جائیں اس کی رحمت پر…میں اس ظالم کی توبہ کا انتظار کررہا ہوں…

…{ان اعطانی لیلاً قبلتہ}…شاید کسی رات میں توبہ کرلے…

…{ان اعطانی نھاراً قبلتہ}…شاید کسی دن میں توبہ کرلے…

 کوئی وقت تو آئے گا اس پر… کسی رات تو خیال آئے گا… کسی دن میں تو خیال آئے …کہ اب توبہ کرلوں… اب اللہ کی طرف لوٹوں اور جب توبہ کرتا ہے… السبحان الخالق… سارے متقی ہوجائیں… اسے پرواہ نہیں… سارے مجرم ہوجائیں اسے پرواہ نہیں… اس کے باوجود وہ اللہ وہ رحیم … کریم … حنان… منان… مہربان ہے …

آنسوئوں کی کرامت


جب کوئی مرد یا عورت اپنی پچھلی زندگی سے توبہ کرتا ہے… اور اللہ کی طرف جھکتاہے… اور اس کی آنکھوں سے آنسوئوں کے دو قطرے نکلتے ہیں… تو اللہ تعالیٰ اس خوشی میں سارے آسمان پر چراغاں کردیتے ہیں… پورے آسمان پہ روشنیاں ہی روشنیاں ہوتی ہیں۔

فرشتے کہتے ہیں یہ کیوں روشنیاں ہورہی ہیں؟

تو اوپر سے اعلان ہوتا ایک فرشتہ اعلان کرتا ہے:

…{اصلح العبد علی مولاہ}…

آج ایک روٹھا ہوا بندہ اپنے مولیٰ کے پاس پہنچ گیا اور اپنے رب سے صلح کرلی… 

ہمیں ضرورت ہے چراغاں کرنے کی یااللہ کو ضرورت ہے… توبہ کی ہمیں ضرورت ہے …یااللہ کو ضرورت ہے اور میں ضرورت مند… محتاج ہوں… قدم قدم پر ہر سانس ہر آن… ہر گھڑی میں اللہ کا محتاج ہوں… بجائے اس کے …کہ ہم خوش ہوں… اللہ خوش ہورہا ہے… اللہ تعالیٰ فرشتوںمیں اعلان کررہا ہے… جائو جائو… اعلان کرو… آج میرا ایک بندہ جو مجھ سے روٹھا ہوا تھا… آج مجھ سے مل گیا اور اس نے توبہ کرلی…

میں تو ماں سے بھی زیادہ مہربان ہوں 


 آج میری ایک باندی نے… آج میری ایک بندی نے جو مجھ سے روٹھی ہوئی تھی… آج اس نے توبہ کرلی ہے اور میرے در پہ آگئی ہے… اللہ خوش ہورہے ہیں… اس لئے اللہ نہیں پکڑتا ہے… بل…کہ اللہ مہلت دیتا ہے… اے میرا بندہ کرلے توبہ کرلے… توبہ کرلے… توبہ…وہ ایسا رحیم و کریم ہے …کہ جب تک آدمی توبہ کرتا ہے… معافی ہوتی رہتی ہے… ماں باپ سے آدمی ایک دفعہنا فرمانی کرکے معافی مانگے وہ کردیں گے… دوسری دفعہ…تیسری دفعہ کریں گے… تو پھر وہ کہیں گے… تو نے وتیرہ بنارکھا ہے… ہمارا مذاق اڑاتا ہے… تو ہماری بے فرمانی کرتا ہے… پھر کہتاہے معاف کرو…

اللہ پاک کی ذات کے قربان جائیں… ساری زندگی توبہ توڑتا ہے اور ساری زندگی کہتا ہے اے اللہ معاف کردے… پر ہو سچی توبہ… اللہ تعالیٰ کہتا ہے:

…{ان تستغفرنی غفرت لک}…

اے بندہ تو کہتا ہے …کہ معاف کردے تو میں معاف کرتا ہوں… تو پھر توبہ توڑتا ہے او رپھر کہتاہے :…{یاللہ ان استقالنی}… پچھلا معاملہ تو خراب ہوگیا اب میں نیا معاہدہ کرتا ہوں… پھر نئے سرے سے توبہ کرتا ہوں… میرے پچھلے جرم کو معاف کردے… تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے:…{ان استقالنی عفوتہ}…بندہ کہتا ہے …کہ پچھلی چھوڑ دو تو میں کہتا ہوں …  کہ اچھا چھوڑ دیئے… ختم کردیئے…

…{ان استعاذنی اعذتہ}…بندہ کہتا ہے اے پناہ دے دے… تو میں دوبارہ پناہ دے دینے کیلئے تیار ہوجاتا ہوں…

…{لوبلغت ذبونک عناک السمائ}…تم اتنے گناہ کرو …کہ زمین بھرجائے… سیارے… ستارے بھر جائیں… پھر تمہارے گناہ میرے آسمان کو لگ جائیں… میرا آسمان تیرے گناہوں سے کالا ہوجائے… لیکن پھر تجھے خیال آئے توبہ کااور تو کہے اے اللہ تو مجھے معاف کردے تو اللہ تعالیٰ کہتے ہیں:…{غفرت لک ولا ابالی}…

ماں سے زیادہ پیار کرنے والا کون؟


میں سارے ہی معاف کردیتاہوں… مجھ سے کوئی پوچھنے والا نہیں… ایسا کوئی نہیں ملے گا …کہ جب ہم کہتے ہیں یااللہ وہ آگے سے کئی دفعہ کہتا ہے… لبیک لبیک یاعبدی

جو ماں کا اکلوتا بیٹا جگر کا ٹکڑا آنکھوں کا تارا جب کہتا ہے ماں! وہ کہتی ہے جی وہ کہتا ہے اماں! وہ کہتی ہے جی… پھر وہ کہتا ہے اماں!… وہ کہتی ہے چپ کر سر نہ کھا…

باپ بھی یہی کہتا ہے… وہ کہتاہے ابا! تو وہ کہتا ہے جی! وہ کہتا ہے ابا! وہ کہتا ہے ہوں! وہ کہتا ہے ابا!… وہ کہتا ہے بکواس نہ …

اس مالک کے قربان جائیں پور اجسم نافرمانی میں نمایاں ہے… رواں رواں اللہ کی بے فرمانی سے داغدارہے… سارا دامن تارہے… اس زندگی کا کوئی گوشہ خیر کا نہیں… کوئی عمل بھلائی کا نہیں… اس ساری گندیوں کے باوجود اگر وہ ہاتھ اٹھا کر کہتا ہے …یااللہ تو کہتا ہے: لبیک لبیک یا عبدی اور میرا بندہ بول تو سہی… کیا کہتا ہے؟ ہم اللہ اللہ پکارتے ہیں… وہ لبیک لبیک کہتا ہے رہے گا… ہم پکارتے پکارتے تھک جائیں گے… جواب دیتا نہیں تھکے گا…

ایک گلوکار کی توبہ کا محبت بھرا واقعہ


حضرت عمر ؓ کے زمانے میں ایک گویا تھا… چھپ چھپ کے گاتا تھا… گانا بجانا تو حرام ہے… چھپ چھپ کر گاکے وہ اپنا شوق پورا کرتا تھا… لوگ کچھ اس کو پیسے دے دیتے تھے… ایک دفعہ جب وہ بوڑھا ہوگیا… آواز ختم ہوگئی… تو آیا فاقہ… آئی بھوک… اب گیا جنت البقیع میں ایک جھاڑی کے پیچھے بیٹھ گیا اور کہنے لگا اے اللہ! جب آواز تھی تو لوگ سنتے تھے…   جب آواز نہ رہی تو سننا چھوڑ گئے تو سب کی سنتا ہے… تجھے پتہ ہے میں ضعیف ہو… کمزور ہوں… بے شک تیرا نا فرمان ہوں… پر اے اللہ میری ضرورت کو پورا فرما…

ایسی آواز لگائی… ایسی صدا بلندکی …کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسجد میں لیٹے ہوئے تھے… آواز آئی …کہ میرا بندہ مجھے پکار رہا ہے… اس کی مدد کو پہنچو…بقیع میں فریادی ہے اسی کی فریادرسی کرو…

عمر رضی اللہ عنہ ننگے پائوں دوڑے… دیکھا تو بڑے میاں جھاڑی کے پیچھے اپنا قصہ سنارہے ہیں… جب انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو اٹھ کر دوڑنے لگے… کہا بیٹھو بیٹھو… ٹھہرو… ٹھہرو … میں آیا نہیں بلکہ بھیجا گیا ہوں… کہا کس نے بھیجا ہے؟…

کہا… جسے تم بلارہے ہو… اسے نے بھیجا ہے… جسے تم پکار رہے ہو اسی نے بھیجا ہے…

تو اس نے آسمان پر نگاہ ڈالی … اے اللہ ستر سال تیری نا فرمانی میں گذرے… تجھی کبھی یاد نہ کیا… جب یاد کیا تو اپنے پیٹ کی خاطر یاد کیا…تو نے پھر بھی میری آواز پہ لبیک کہا… اے اللہ مجھ نا فرمان کو معاف کردے… اور ایسا رویا …کہ جان نکل گئی… موت ہوگئی۔

حضرت عمر ؓ نے خود اس کا جنازہ پڑھایا… تو میرے بھائیو! اللہ تعالیٰ پکڑتے اس لئے نہیں …کہ اللہ جل جلالہ رحیم ہیں… کریم ہیں اور اپنے بندے پر رحم چاہتے ہیں… اپنے بندے پر فضل کرنا چاہتے ہیں… اپنے بندے کو جہنم میں میں ڈالنا نہیں چاہتے… تو میرے بھائیو! اللہ تعالیٰ نے دروازے کھول دیئے ہیں… موت تک کے لئے توبہ کے دروازے کھلے ہوئے ہیں… باب التوبۃ مفتوح مالکم یغرغر … توبہ کا دراوزہ کھلا ہوا ہے… جب تک آدمی کی جان نکل کر حلق میں نہ آجائے… غرغرہ کے شروع ہونے سے پہلے پہلے توبہ کا دروازہ کھلاہوا ہے… مردوں کے لئے بھی عورتوں کے لئے بھی…

گنہگار بندے کی توبہ کا حیرت انگیز واقعہ


بنی اسرائیل میں ایک نوجوان تھا… بڑا نافرمان تھا… شہر والوں نے اس سے بائیکاٹ کردیا… اس کو شہر سے باہر نکال دیا… وہ ویرانے میں چلا گیا… کسی کو راہ رات پرلانے کا یہ طریقہ نہیں ہوتا …کہ اس کا بائیکاٹ کردیا جائے… بل…کہ اس سے محبت کی جائے… اس کے لئے دعا کی جائے… اس کو سمجھایاجائے تو انہوں نے نکال دیا… وہ ویرانے میں چلا گیا…وہاں کوئی آنے والا نہیں… جانے والا نہیں… حالات کی تنگی نے جب جھٹکادیا تو بیمار ہوگیا… بیمار ہوا تو کھانے کو کچھ نہیں… پینے کو کچھ نہیں… موت کے آثار شروع ہوئے… مرتے دم تک توبہ نہیں کی… اکڑتا رہا… جب موت کے آثار نظر آئے تو اب کہنے لگا…

 اے اللہ! ساری زندگی کٹ گئی تیری نافرمانی میں… اب موت دیکھ رہا ہوں… سامنے ہے… لیکن مجھے بتا مجھے عذاب دینے سے تیرا ملک زیادہ ہوجائے گا؟ اور معاف کرنے سے تیرا ملک تھوڑا ہوجائے گا؟… اے میرے رب! اگر مجھے یہ پتا ہوتا …کہ مجھے عذاب دے گا اور تیرا ملک بڑھ جائے گا اور معاف کردے گا تو تیر املک گھٹ جائے گا …تو میں تجھ سے کبھی بخشش نہ مانگتا… مجھے پتہ ہے …کہ مجھے عذاب دے تو تیرے ملک میں زیادتی نہیں… مجھے معاف کرے تو تیرے ملک میں کمی نہیں… یہ دیکھ لے میںنافرمان تو ہوں …اور بڑے ذلت میں مررہا ہوں… کوئی میر اسنگی نہیں… کوئی ساتھی نہیں… سب نے مجھے چھوڑ دیا… میرے سارے سہارے ٹوٹ گئے ہیں… اب تو مجھے نہ چھوڑ… مجھے معاف کردے… مجھے معاف کردے اور اتنے میں جان نکل گئی…

موسیٰ علیہ السلام پر وحی آئی …کہ ’’اے موسیٰ! میرا ایک دوست وہاں کھنڈرات میں مرگیا ہے… اس کا جاکے غسل کا انتظام کرو… اس کا جنازہ پڑھو اور شہر کے سارے نافرمانوں میں اعلان کرو… آج جو بخشش چاہتا ہے اس کا جنازہ پڑھ لے… اس کی بھی بخشش ہوجائے گی…‘‘

جب موسیٰ علیہ السلام نے اعلان کیا تو لوگ بھاگے ہو ئے گئے… دیکھا تو وہی جواری … شرابی… زانی… تو انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا آپ کیا کہتے ہیں… یہ تو وہ ہے جس کو ہم نے نکال دیا تھا اور آپ کا رب کہہ رہا ہے …کہ جس کو بخشش چاہئے… اس کا جنازہ پڑھ لے… 

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جب عرض کی تو اللہ پاک نے فرمایا… ’’یہ بھی سچے ہیں… میں بھی سچا ہوں… یہ ایسا ہی تھا جیسے بتارہے ہیں… لیکن یہ مرنے لگا:

…{فرأیت نفسہ حقیرہ وسعیرہ وذلیلہ}…

میں نے اس کو دیکھا …کہ ذلیل ہوکر مررہا ہے… تنہائی میں مررہا ہے… ولا کریما ولا قریبا …کوئی دوست نہیں… کوئی رشتہ دار نہیں… ایسی بے بسی میں جب اس نے کہا:

اے اللہ! سب نے چھوڑا تو نہ چھوڑنا تو میری رحمت کو اور میری محبت کو جوش آیا… میری غیرت کو جوش آیا …کہ جب سب چھوڑچکے ہیں… میں اپنے بندے کو نہیں چھوڑوں گا… اے موسیٰ!میری عزت کی قسم وہ کم ظرف نکلا… صرف اپنی بخشش مانگی… میری عزت کی قسم اگر آج پوری دنیا کے انسانوں کی بخشش مانگتا تو میں سب کو معاف کردیتا…

ہم صرف کہتے ہیں …کہ اس رب سے صلح کرلیں اور ہم کچھ نہیں کہہ رہے… ہم کہتے ہیں اللہ سے جڑ جائو بھائیو… اور کچھ نہیں کہہ رہے… کیوںکہ ہمارا واسطہ اللہ کی ذات سے پڑنے والا ہے… یہ جہاں چھوٹ جائے گا او رپھرمسئلہ آسان ہے …کہ اللہ پاک کو راضی کرنے کے لئے ہمیں یہ گھر نہیں چھوڑنے… ان گھروں کے طریقے چھوڑنے ہیں… ہمیں یہ شہر کو نہیں چھوڑنا… اس میں غلط طریقوں کو چھوڑنا ہے اور اللہ کے محبوب مصطفی سید الکونین تاجدار مدینہ  ﷺ کا طریقہ داخل کرنا ہے… بس اور کچھ نہیں کرنا… بس ہم وہ کریں جو اللہ کاحبیب ہمیں بتاگیا ہے

 جادوگری چھوڑی تمغہ شہادت مل گیا


بھائی سمجھ میں نہیںآرہا کہ ایک ڈاکٹر تھا وہ ایک منٹ کی ایک ہزار ڈالر فیس لیا کرتا تھا… دنیا کے بڑے بڑے ہوٹلوں میں اس کے پروگرام ہوتے تھے… اور اس نے مسخر کئے ہوئے تھے… شیاطین اور پتہ نہیں کیا چیز عجیب چیز تھا وہ… ہمیں بھی اس نے بہت سی چیزیں دکھائیں… تو ایک دن مجھ سے کہنے لگا… جمعے کی نماز کے بعد میرے پاس آکر کہنے لگا…     میرا شیطان آیا تھا …میرے پاس اور آکے بیٹھ کر رونے لگا …کہنے لگا ڈاکٹر راکی… راکی اس نے اپنا نام رکھا ہوا تھا …عبدالقادر تھا …ویسے وہ عبد القادر جیلانیؒ کی نسل میں سے تھا …نسل عربی… حسنی… قادری… اور کام یہ کررہا تھا ۔تو کہنے لگا …کہ آج میرا شیطان میرے پاس آیا تھا …اور کہہ رہا تھا …کہ ڈاکٹر را کی تم نے بیس سال کی دوستی کو پانچ منٹ میں توڑ دیا …

تو میں نے ان سے کہا بیس سال میں نے جھوٹ کو آزمایا ہے …اب کچھ دن سچ کو بھی آزمانے دو تو آگے مجھ سے کہتا ہے …بات تو تمہاری ٹھیک ہے …کہ سچ ہی میں نجات ہے… لیکن پھر بھی جلدی کیا ہے… بعد میں توبہ کر لینا …یہاں آکے ماردیتا ہے …کہ ابھی جلدی کیا ہے… پھر توبہ کر لینا …اس میں بہت سے بغیر توبہ کے مرجاتے ہیں… دوسرا کیا کہتا ہے… توبہ کا کیا فائدہ ادھر کروں گا …توٹوٹ جائے گی… ایسی توبہ کا کیا فائدہ…

شیخ عبدالقادر جیلانی قافلے میں علم حاصل کرنے کے لئے جارہے تھے … چودہ سال کی عمر تھی… راستے میں ڈاکہ پڑ گیا لوٹ لیا انہوںنے… یہ بچے تھے کسی کو خیال نہیںآیا …کہ ان کے پاس کچھ ہوگا… ایک ڈاکو نے ایسے ہی سرراہ پوچھا بیٹا تیرے پاس کچھ ہے… کہا ہاں ہے … کیا ہے … کہا چالیس دینار ہیں… چالیس دینار کا مطب تھا …کہ وہ پورے ایک سال کا راشن ہے تو بہت بڑی دولت تھی…۴۰ دینار… تو وہ حیران ہوگیا …کہنے لگا کہاں ہیں کہاں۔یہ میرے اندر سیئے ہوئے ہیں… اندر کی آستین میں… اس نے کہا :بچہ اگر تو مجھے نہ بتاتا تو مجھے کبھی خبر نہ ہوتی … …کہ تیرے پاس ہیں… تو تونے کیوں بتا دیا … کہا مجھے میری ماں نے کہا تھا …کہ بیٹا سچ بولنا… چاہے جان چلی جائے… اب یہ ماں کا سبق ہے ناں …

اور جب ماں کو ہی نہ پتا ہو …کہ سچ بولنے میں نجات ہے …تو وہ بچے کو کیا بتائے گی… تو وہ ڈاکو اس کو پکڑ کر …ڈاکوؤں کے سردار کے پاس لے گیا …کہ سردار اس بچے کی بات سنو… تو ساری کہانی سنائی …تو سردار نے کہا بیٹا کیوں تونے بتا دیا ۔۔۔نہ بتاتا تو ہمیں تو کوئی پتا نہ چلتا… کہا میری ماں نے مجھے کہا تھا… جھوٹ نہ بولنا۔۔۔ سچ بولنا… چاہے جان چلی جائے … اس پر جووہ رویا ہے ڈاکوؤں کا سرداراور اس کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی ۔۔۔۔

 اے اللہ یہ معصوم بچہ اپنی ماں کا اتنا فرمانبردار اور میں پور امر دجوان ہو کر تیرا نافرمان مجھے معاف کر دے …سارے ڈاکو ؤں سے توبہ کر وائی …اور اس کا ذریعہ وہ ماں بنی جو گیلان میں بیٹھی ہوئی ہے …جس کو پتہ بھی نہیں ہے …کہ اس کا بچہ کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا ہے…

ادھر توبہ! ادھر مغفرت کا پروانہ مل گیا


بنی اسرائیل میں قحط آیا… جو بڑا زبردست قحط تھا… بنی اسرائیل نے کہا! اے موسیٰ دعا کرو اللہ قحط دور کر دے … موسیٰؑ نے ستر ہزار لوگوں کو لے کر نماز پڑھی اور دعا مانگی … اے اللہ بارش برسا… فما زادت الشمس الا تقشعا… سورج کی آگ اور بڑھ گئی…… وہ کہیں یا اللہ ہم بارش کی دعا کررہے… آپ سورج کی تپش کو بڑھارہے ہیں… تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا… ان فیکم رجلا یبار زنی بالمعاصی منذاربعین عام…تم میں ایک آدمی ہے … جس نے پچھلے چالیس سال میں ایک نیکی بھی نہیں کی اور چالیس برس ہوگئے… مجھے للکار رہا ہے… اور میری نافرمانی پہ تلا ہوا ہے… اس کی وجہ سے بارش رکی ہوئی ہے … اسے کہو …  کہ باہر آکر اپنے آپ کو ظاہر کرے… تب بارش ہوگی…

 موسیٰؑ نے فرمایا… یا من عصی اللّٰہ اربعین سنۃ … ارے او بد بخت انسان… جسے چالیس سال گزر گئے …کوئی اچھا کام نہ کیا … باہر آ!تیری وجہ سے ہم عذاب میں ہیں… اسے تو پتہ ہے …کہ میں کون ہوں… لیکن کسی کو نہیں پتہ …کہ کون ہے… نہ اللہ نے بتایا …کہ فلاں آدمی ہے… اب لوگوں نے ادھر ادھر دیکھا… کوئی بھی باہر نہ نکلا… وہ اپنے دل میں کہنے لگا …میں اگر باہر نکل کے آؤ ں تو اپنے آپ کو ذلیل و رسوا کروں …اور اگر کھڑارہوں تو میری وجہ سے بارش رکے… ساری مخلوق پریشان ہوگی …

اس نے اپنی چادر میں اپنے منہ کوچھپا لیا …کہ کوئی دیکھے نہیں …کہ میرے آنسو نکل پڑے ہیں… سرجھکا یا اور سر پر چادر ڈال کر آنسوؤں کے دو قطرے نکالے اور کہنے لگا:

 یا اللہ … عصیتک اربعین سنۃ فامھلتی… یا اللہ میں چالیس سال نافرمانی کرتا رہا اور تومجھے مہلت دیتا رہا … تو نے کسی کو نہ بتایا …کہ میری رات کیسے گزرتی ہے … تو نے کسی کو نہ بتایا …کہ میرا دن کیسے گزرتا ہے… فجئتک تائبا فاقبلنی… اب میں تیرے سامنے توبہ کرتا ہوں…   تو کسی کو نہ بتا میری توبہ قبول کر لے… 

ابھی اس کی دعا پوری نہیں ہوئی …کہ کالی گھٹا اٹھی اور چھما چھم بارش ہوئی موسیٰؑ کہنے لگے یا اللہ نکلا تو کوئی بھی نہیں… تو بارش کیسے ہوگئی؟… ارشاد فرمایا جس کی وجہ سے رکی تھی… ا س کی وجہ سے کردی… وہ تائب ہوگیا ہے … ایسا بڑا زمین وآسمان کا بادشاہ اور مہربان ایسا …کہ چالیس سال کی نافرمانیوں کو دو آنسوؤں سے دھودیا… موسیٰؑ فرمانے لگے یا اللہ اب تو بتا دے وہ کون ہے؟ …ارشاد فرمایا… جب میرا نافرمان تھا… تو میں نے کسی کو نہ بتایا جب میرا فرمانبردار ہوگیا ہے تو اب میں کسی کو کیسے بتاؤں…؟

تو روٹھتا رہے گا میں مناتا رہوں گا


…تعرض عنی وانا مقبل الیک… تو مجھ سے روٹھ جاتاہے میں پھربھی تیرا پیچھا کر تا ہوں …کہ میری طرف آجا…

حضرت ابراہیمؑ کا مہمان آیا… تھا کافر… انہوںنے پوچھا مسلمان ہو… کہا نہیں! … کہا میں کافر کو روٹی نہیںکھلاتا… وہ اٹھ کے چلا گیا… اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا… کس کے لئے؟ ایک کافر کے لئے… فرمایا…

 اے ابراہیمؑ ! نافرمان تو میرا تھا… ستر سال سے میں نے تو روٹی بند نہیں کی…    ایک وقت کی تجھے کھلانی پڑی تو تو نے کیوں بند کر دی؟… جاؤ اس کو واپس بلاؤ اور اس کو روٹی کھلاؤ … جو رب کافر پہ ایسا مہربان ہو… تو حضور کی امت پر کیسے مہربان نہ ہوگا… مگر ہم توبہ توکریں…مسلمانو! ہم اپنی زندگی سے بہت دور نکل گئے ہیں …آیئے واپسی کی راہ اختیار کریں اور گذشتہ زندگی سے توبہ کریں … اللہ کا فرمان ہے :

…{توبوا الی اللہ جمیعا ایھا المؤمون}…

اے ایمان والو اکٹھے مل کر اللہ کے دربار میں توبہ کرو…

 یاد رکھو ادھر ہم توبہ کریں گے… ادھر اللہ پاک ایک ایک کانام لے کر اعلان کرے گا …کہ فلاں ابن فلاں نے توبہ کر لی ہے… فرشتو! تم گواہ بن جاؤ میں نے ان کو بخش دیا … اللہ کی قسم نو سو نہیں نوکڑ ور چوہے کھائے ہوں پھر بھی توبہ کرلو…

  آج کا تو کافر بھی قارون سے بہتر ہے… ہم تو سارے اللہ کے حبیب  ﷺ کے امتی بیٹھے ہیں… ایک آنسو ندامت کا یا اللہ کے خوف کا جو چہرے پر نہ ڈھلکے صرف ایک آنکھ کے کٹورے کو تر کر دے… اس ایک آنسو سے اللہ ستر سال کے گناہ دھودے گا… ایک کرتہ دھونا ہو تو دو بالٹیاں پانی کی ضرورت ہے… ادھر ۷۰ برس کے گناہوں کو دھونے کے لئے صرف ایک قطرہ پانی اللہ کو دے دے… اگر آنسو نہ نکلے تو ہائے کردو اللہ اس ہائے کو برسات بنا دے گا اور گناہ دھو دے گا…ادھر آپ توبہ کریں گے … ادھر آسمان پر نقارہ بج جائے گا…

ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے …کہ اس محفل میں ہو…

 اے اللہ! بس اب ان راہوں پر نہ لوٹوں گا… اے اللہ! بس اب میں نے تجھے راضی کر نا ہے … میری جان چلی جائے… مال چلا جائے … میں بک جاؤں … مگر تیرے نام کو نہ چھوڑوں گا… سود نہیں کھاؤں گا… جھوٹ نہیں بولوں گا … گانے نہیں سنوں گا … وہ جنید جمشید گانے اور ناچنے والا اللہ کی قسم چار ماہ میں چل رہاہے … مجھے فیصل آباد میں ملا ہے کہتا پھرتا ہے… لوگوں نے گندی زندگی سے توبہ کر لی ہے … اب میں اللہ کے حبیب ﷺ کی زندگی سیکھ رہا ہوں … گانا گانے والے توبہ کر رہے ہیں… گانا سننے والو تم بھی توبہ کر لو… ڈرو نہیں…

 اگر توبہ ٹوٹ گئی تو پھر کر لینا… ہاں وہ دنیا کے حکمرانوں کی طرح نہیں …کہ دل میں کددورت رکھ لے گا بل…کہ وہ تو کریم ہے ادھر ہائے ہوتی ہے… اس کی باہیں کھل جاتی ہیں آ میرے بندے آجا…

…{وآخر الدعونا ان الحمد للّٰہ رب العالمین}…

ALLAH KY NAFARMAANO KA INJAAM

April 26, 2019 0
ALLAH KY NAFARMAANO KA INJAAM

Image result for ‫اللہ کا عذاب‬‎

اللہ کے نافرمانوں کاعبرتناک انجام

بیان حضرت مولاناطارق جمیل صاحب دامت برکاتھم

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ نَحْمَدُہ وَنَسْتَعِیْنُہ وَنَسْتَغْفِرُہ وَنُوْمِنُ بِہ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہ  ۔۔ وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّاٰتِ اَعْمَالِنَا  ۔۔ مَنْ یَّھْدِہِ اللّٰہُ فَلاَ مُضِلَّ لَہ وَمَنْ یُّضْلِلْہُ فَلاَ ھَادِیَ لَہ  ۔۔ وَنَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہ لاَ شَرِیْکَ لَہ   وَنَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہ وَرَسُوْلُہ  ۔۔۔۔
 اَمَّا بَعْد۔۔۔۔ُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ  ۔۔۔ قُلْ ھٰذِہ سَبِیْلِیْ اَدْعُوْا اِلَی اللّٰہ ۔۔۔ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ۔۔۔ وَسُبْحَنَ اللّٰہ وَمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْن۔۔۔وَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔ یَا اَبَا سُفْیَان جِئتُکُمْ بِکَرَامَۃِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃ 
میرے بھائیوں !
اللہ تعالیٰ نے یہ جہا ں نہ بے کار بنایا …نہ باطل بنا یا… نہ کھیل کود کیلئے بنایا… پھر ہمیں بھی نہ بے کار بنایا… نہ ہمیں چھوڑ دیا …کہ جو مرضی کرو… نہ بالکل آزادانہ اختیار دیا ہے… خبر دی ہے… ولا تحسبن اللہ غا فلا عما یعمل الظالمون …تمہارے ظلم سے …تمہارا رب غافل نہیں …ظالم ظلم کر رہا ہے …کوئی پکڑ تا نہیں… کیا اس اندھیرے میں کوئی ہے …نہیں… نہیں …اس اندھیرے میں کوئی نہیں ہے …دنیا اور آخرت سنسان ہورہا ہے …لیکن دیکھنے والا دیکھ رہا ہے …ایک دن تیری گردن کو مروڑ دے گا …سارے بل نکل جائیں گے …پھر انسان جو کچھ اعمال کرتا ہے …ان سب کی اللہ خبر دے رہا ہے۔

 اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز بھی چھپی ہوئی نہیں

کمرے میں بند ہوگیا …کنڈیاں لگا دیں …پردے لگا دئے …کہ اب تو کوئی نہیں دیکھ رہا …ایسے تو کوئی نہیں دیکھ رہا …اب اس کو اللہ نے خبردی … ما یکون من النجوی ثلثہ الا ہو رابعہم …تم تین بیٹھے ہوئے ہو …تو چوتھا اللہ ہے… ولا خمسۃ الا ہو سادسہم …تم پانچ ہو …تو چھٹا اللہ ہے … ولا ادنیٰ من ذالک …اس سے تھوڑے ہوں … پانچ… چار… تین… دو… ایک …ولا اکثر پانچ سے پانچ ہزارہوں …الا ہو معہم این ما کانو …تمہارا رب تمہارے ساتھ ہے…  ثم ینبئہم بما عملوا …پزر جو کچھ تم نے کیا… ایک دن تمہیں دکھادے گا …کہ یہ کیا تھا تم نے… پھر اللہ تعالیٰ کہہ رہے ہیں … 
واسرواقولکم …آہستہ بولو …اور  اجہرووابہ زور سے بولو… انہ علیہم بذات الصدور … وہ تمہارے دل کے اندر کو بھی جانتا ہے… و نعمل ما تو سوس بہ نفسہ …کچھ باتیں ایسی ہیں… جو آدمی اپنے دل ہی دل میں کرتا ہے… جس کو وہ خود بھی نہیں سنتا …نہ اس کے کان سنتے ہیں …تو پرایا کیسے سنے گا …وہ تو خود نہیں سن رہا …
اس کو حدیث النفس کہتے ہیں …اور اس کو اخفاء کہتے ہیں ۔
تو اللہ تعالیٰ یہ کہہ رہے ہیں …کہ یہ جو تم اپنے آپ سے باتیں کرتے ہو… میںاس کو بھی سنتا ہوں …اب اللہ سے کوئی بات کیسے چھپے … خیال میں بھی نظریوں اٹھی …یا یوں اٹھی کہ… فرشتوں کو بھی یہ پتہ نہیں چلتا …کہ یہ بد نظر ہے …یا اچھی نظر ہے …یا برائی کی نظر سے دیکھا …یا نیک نظر سے دیکھا… کسی کو عزت سے دیکھا … کسی بھی چیز کو دیکھا …فرشتوں کو بھی پتہ نہیں چلتا… ذہن میں جو باتیں گھوم جاتی ہیں …جس کے ساتھ چالاک بنتے ہیں …
اللہ تعالیٰ اس کو الگ سمجھا رہا ہے ۔

اللہ سے کائنات کا ایک ذرہ بھی نہیں چھپا ہوا

…یعلم خائنۃ الا عین …کہ تمہاری نظر غلط ہوئی …تیرے رب نے اس کو بھی دیکھ لیا… وما تخفی الصدور …نظر کے غلط ہونے سے دل میں غلط خیال آیا …اس کو بھی اللہ نے دیکھ لیا …اور پکڑ لیا …جو کچھ انسان کر رہا ہے… ویعلم ماجرحتم بالنہار …دن میں جو کچھ تم کرتے ہو …اللہ جانتا ہے …صرف دن میں کرنے کو …رات کو نہیں…
{سواء منکم من اسر القول ومن جہر بہ ومن ہو مستخف بالیل وسارب بالنہار ہ لہ معقبات من بین یدیہ ومن خلفہ یحفظونہ من امراللّٰہ}
کہ یہ نہیں کہ روشنی ہوگی… تو اللہ کو پتہ چلے گا …یا لائوڈاسپیکر کا اعلان ہوگا …تو اللہ کو پتہ چلے گا …اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرمارہے …کہ تم زور سے بولو …تم آہستہ بولو …بلکہ اللہ نے وہ سب کچھ سنا …جو تم نے دن میں کہا …اللہ نے وہ سب کچھ دیکھا …جو تم نے رات کو کیا …اللہ نے دیکھا… مستخف بالیل … رات تو چھپی ہوئی ہے… و سارب بالنہار …دن میں کر رہا ہے …اللہ پاک کے ہاں رات کا اندھیر ا …اور دن کی روشنی برابر ہے… اللہ تعالیٰ کے لئے اندر کمرے میں آدمی اکیلا …اور ایک لاکھ کا مجمع برابر ہے …اللہ کے لئے سمندر کے نیچے کی دنیا …اور عرش کی دنیا او پر برابر ہے… جیسے وہ جبرائیل کو دیکھ رہا ہے ۔
اسی طرح …اس زمین پر چلنے والی چیونٹیوں کو بھی دیکھ رہا ہے… اور وہ جبرائیل … اسرافیل… میکائیل کی بھی سنتاہے… اور سمندر میں تیر نے والی مچھلیوں کی بھی سنتا ہے… اور وہ اپنی جنت کو اپنے سامنے دیکھ رہاہے… اس کے سامنے دور …اور قریب برابر ہے… بلکہ دور قریب کچھ نہیں …سارا ہی قریب ہے… وہ اپنی ذات میں اتنا دور ہے… کہ… لا یراہ العیون …کہ آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں …پھر آنکھ تو بس یہاں تک دیکھتی ہے… لا تخالطہ الظنون …کہ آدمی خیال کرے …یا تصور کرے …پھر اس کو بھگائے …دوڑا ئے …اللہ تعالیٰ یہی کہتا ہے… کہ تمہارا خیال بھی اللہ تک نہیں پہنچ سکتا ہے… بھئی جب اللہ اتنا دور ہو گیا… تو کام کیسے بنے گا… تو یوں ارشاد فرمایا …اس کا اوپر ہونا …اسے تم سے دور نہیں کرتا…
… نحن اقرب الیہ من حبل الورید …وہ تمہاری شہہ رگ سے زیادہ تمہارے قریب ہے… تو سارا جہاں اس کے سامنے برابر ہے …ظالم ظلم کر رہا ہے …مظلوم ظلم سہہ رہا ہے …عادل عدل کر رہا ہے …اور ظالم ظلم کر رہا ہے… دیانت دار دیا نت سے چل رہا ہے… بدودیانت بد دیانتی کر رہا ہے… سچا سچ بول رہا ہے … جھوٹا جھوٹ بول رہا ہے… زانی زنا کر رہا ہے… پاک دامن اپنی عزت کے ساتھ چل رہا ہے… حرام کھانے والا حرام میں چل رہا ہے … حلال کھانے والا …اپنی ضرورتوں میں پس رہا ہے۔
 میرے بھائیو!
اپنے اعمال درست کرلو ورنہ! اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جگہ جگہ  …پچھلی قوموں کا تذکرہ کیا ہے… اس کا مقصد… قصہ کہانیاں بیان کرنا نہیں ہے… بلکہ ہمیں تنبیہ کرنا ہے… کہ اپنی حرکتوں کو درست کولو… ورنہ تمہارا بھی ایساہی انجام نہ ہوجائے۔
 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے … ایک قوم تم سے پہلے آئی …نوح علیہ السلام کی …جنہوں نے زمین کو کفر سے بھر دیا…وہ میرے نبی سے کہنے لگے …
…{فائتنا بما تعدناان کنت من الصادقین }…
وہ عذاب لائوجس سے تم ہمیں ڈراتے تھے… اور وہ عذاب لائو… جس کا تم نے وعدہ کیا ہوا ہے  پھر ہمارا دن آیا… ففتحنا ابواب السماء … بمائٍ وفجرنا الارض عیونا فالتقی الماء … علی امرقد قدر… فجر نا الار ض عیونا ۔۔۔
 ہم نے پو ری زمین کو چشمہ بنا دیا ،روئیں روئیں سے پانی ابلنے لگا اور آسمان سے پانی گرا …زمین سے اپنا نکلا …اور ساری کائنات میں وہ پانی پھیلا ۔۔۔
اپنے ہی پیشاب میں ڈوب گئے
ایک تفسیر میں …میں نے پڑھا …کہ اگر اللہ تعالیٰ اس دن کسی پہ رحم کرتا ۔۔۔
تو ایک عورت پر رحم کرتا …جو بچے کو لے کے بھاگ رہی تھی کہ کوئی جائے پناہ ملے ۔۔۔
اور میں بچ جائوں …اور وہ بھاگتے بھاگتے …ایک اونچے پہاڑ پر چڑھی…
 جس سے اونچا پہاڑ کوئی نہیںتھا …پیچھے سے پانی آیا اس نے پہاڑ کو جوڈبویا…
 پھر اس کے پاؤں پر چڑھا …پھر اس کے سینے پر آیا …پھر اس نے بچے کو اوپر کر لیا۔۔۔
پھر اس کی گردن تک آیا… تو اس نے بجے کو یوں اپنے سر سے اوپر کر لیا …
شاید بچہ بچ جائے۔۔ پر پانی کی موج نے۔۔ نہ بچے چھوڑے۔۔ نہ بڑے چھوڑے۔۔
 سب کو برابر کر دیا… یہاں تک کہ نوح کے اپنے بیٹے کو اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے غرق کر دیا… 
… وحال بینھم الموج فکان من المغرقین… تین آدمی ایک غار میں چھپ گئے…
 اور اوپر سے پتھر رکھ لیا …کہ یہاں پانی نہیں آیئے گا… چاروں طرف جو پانی کا تماشا دیکھا… تو اندر بیٹھ گئے… تھوڑی دیر میں تینوں کو تیز پیشاب آیا… اور بے قرار ہوکر پیشاب کرنے بیٹھے …اللہ نے پیشاب کو جاری کر دیا… اور وہ پیشاب کرتے کرتے… اپنے ہی پیشاب میں غرق ہوکے مر گئے… جو کام قوم نوح کرتی وہ کام آج ہورہے ہیں… ساری دنیا میں ہورہے ہیں…

قوم عادکی ہلاکت

قوم عاد کوئی بڑی طاقتور یہاں تک کہ للکار نے لگے… من اشد مناقوۃ… کوئی ہے ہم سے بڑا طاقتور تو لاؤنا …ہمیں کس سے ڈراتے ہو؟… ان نقول الا اعتراف بعض الھتنا بسوء …ہمارے خدا نے تیری عقل خراب کر دی ہے… ہم سے بڑا کوئی طاقتور نہیں ہے  تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا…{ اولم یروا ان لاذی خلقھم ھو اشد منھم قوۃ}…
 اے ہود! انہیں بتاؤ جس نے تمہیں پیدا کیا وہ تم سے زیادہ طاقتور ہے…
 تو جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ حجت پوری ہوئی …اور وہ اپنے تکبر میں بڑھتے رہے …نافرمانی میں بڑھتے رہے …تو اللہ تعالیٰ نے عذاب کا دروازہ کھولا… قحط آگیا۔۔۔
 انسان ایسے بھوکے …اور وہ انسان ہماری طرح تو نہیں تھے… بلکہ چالیس ہاتھ قد ہوتا تھا… تیس ہاتھ قد ہوتا تھا…آٹھ سو سال …نو سو سال عمرہوتی تھی … نہ بوڑھے ہوتے تھے… 
نہ بیمار ہوتے تھے… نہ دانت ٹوتے نہ کمزور ہوں… نہ نظر کمزورہو… جو ان تندرست و توانا …صرف موت آتی تھی …اس کے علاوہ انہیں کچھ نہیں ہوتا تھا…
 اب ان کو بھوک بھی زیادہ لگی… اور وہ اپنی ضرورتوں کا غلہ بھی کھاگئے… حلال بھی کھاگئے… حرام بھی کھا گئے… پھرکتے بھی کھا گئے… بلے بھی کھاگئے … چوہے بھی کھاگئے … جو چیز ہاتھ میں آئی… سانپ بھی کھاگئے… ہر چیز کھا گئے… پر نہ بارش کا قطرہ گرانہ زمین کا دانہ پھوٹا… یہاں تک کہ درخت توڑ توڑ کے ان کے پتے بھی چبا گئے …قحط دور نہ ہوا ۔
تو پھر انہوں نے ایک وفد بیت اللہ بھیجا …کہ ہمیں بارش دو …تو جب مصیبت آئی تھی اوپر والے کو پکارتے تھے… جب وہ کام کر دیتا تھا …پھر سرکش ہوجاتے تھے …پھر انہیں پتھروں کو پوجتے تھے ۔تو اللہ تعالیٰ نے تین بادل سامنے کئے …آواز آئی… ان میں سے ایک کا انتخاب کرو… ایک سفید… ایک سرخ… ایک کالا…
 تو آپس میں کہنے لگے… سفید تو خالی ہوتا… سرخ میں ہوا ہوتی ہے… کالے میں پانی ہوتا ہے… انہوں نے کہا …یہ کالا بادل چاہئے…
 آواز آئی کہ پہنچے گا… یہ واپس پہنچے… انہوںنے کہا بارش ہوگئی… تو پھر جب ساری قوم اکٹھی ہوئی… تو اللہ نے وہ بادل بھیجا…{ فلما راؤہ عارضا مستقبل اودیتھم} 
 وہ بادل آیا کالا کہنے لگے…ہذا عارض ممطرنا… وہ دیکھو آئی بارش!
 اللہ نے کہا… بل ھواما استعجلتم بہ… یہ بارش نہیں ہے… یہ وہ عذاب ہے جو تم ہود سے کہتے تھے … کون ہے ؟…ہم سے بڑا …جو ہمیں کچھ کرے؟ …اب تیار ہوجاؤ…
…{ ریح فیھا عذاب الیم… تدمر کل شئی بامرربھا}… 
اب دیکھو …کیسے تمہارا رب تمہیں اڑاتا ہے… ان کے گھروں کو ہوا نے اڑا دیا… ان کو ہوانے اڑا دیا… ساٹھ ساٹھ ہاتھ اونچے قد کے لوگ …اورتنکے کی طرح… ہوا میں اڑ رہے تھے… ان کے سروں کو آپس میں ہوا ٹکڑا رہی تھی…وہ گھومتے تھے… سر ٹکراتے تھے…
گھومتے تھے… سر ٹکراتی تھے… بعض لوگ بھاگ کے …غاروں میں چھپ گئے۔۔۔۔
 تو ہوا کا بگولہ ایسے زور دار طریقے کے سات غار کے اندر جاتا …اور پھر ایک دھما کے ساتھ ان کو باہر نکالتا پھر ان کو ہوا میں اچھال دیتا… گیند کی طرح …پھر ان کے سر آپس میں ٹکراتے…
 ان کی کھوپڑیاںپھٹ گئیں… اور ان کے بھیجے ان کے چہروں پہ نکل آئے… او رپھر اللہ نے الٹا کے ان کو زمین پر مارا …سر الگ ہوگیا… دھڑا لگ ہوگیا… 
پھر اللہ نے للکار کے پوچھا…{ فھل تری لھم من باقیہ…کوئی ہے باقی تو دکھاؤ}…
کہ اس کا بھی صفایا کردوں …کوئی نظر نہ آیا …سب کو اللہ نے مٹایا …جو کام قوم عاد کرتی تھی …وہ کام آج فیصل آباد میں ہورہے ہیں…

قوم ثمود کی نافرمانی اور عذاب

پھر ایک قوم ثمود آگئی… انہوںنے سنا تھا …کہ عاد کو ہوا نے اڑادیا تھا…تو انہوں نے پہاڑ کے اندر گھر بنالئے …کہ اندر کون ہمیں کچھ کہے گا …اندر تو ہوا جاہی نہیں سکتی…جائے  گی بھی تو کہاں تک اندر جائے گی…نافرمانی نہیں چھوڑی… اکیلے کام کو چل پڑے …تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہوا نہیں بھیجی… ایک فرشتہ آیا…  مکرو مکرا … انہوںنے… مکر کیا … ومکرانا مکرا …ہم نے ان کے مکر کو توڑ دیا… فانظر کیف کان عاقبہ مکرھم … آج ان کا انجام دیکھو… انی دمر نھم وقومھم اجمعین… فتلک بیوتھم خاویہ بما ظلموا… ان فی ذالک لا یہ لقوم یعلمون … وانجینا الذین امنووکانوا یتقون… اللہ تعالیٰ نے کہا… کہ یہ دیکھو …ایک فرشتہ آیا …اس نے چیخ ماری … اور ان کے کلیجے پھٹ گئے… چہرے نیلے اور …کالے ہوگئے… اور ساری قوم کو اللہ آن کی آن میں ہلاک کر دیا…

قوم شعیب کا دہشناک انجام

پھر اس پر قوم شعیبؑ کا اللہ نے قصہ سنایا… یہ تاجر قوم تھی… فیصل آباد کے بازاروں میں جو ناپ تول میں کمی ہے… وہ وہاں ہورہی تھی… جو جھوٹ ہے… وہ وہاں چل رہا تھا… اور دیکھا نہ دنیا یہ وہاں چل رہا تھا… تو میں زیادہ ناپنے میں زیادہ یہ سارا کام جو کچھ ہورہا ہے… 
وہ وہاں ہوا… اور بڑھتا گیا …اور ساری دنیا کی تجارت انہوںنے اپنے قبضے میں کر لی… اور شعیب نے کہا… کہ بھائی اس سے باز آجاؤ… اوفوالکیل …وزنوابا لقسطاس المستقیم… صحیح تو لو… صحیح… ناپ تول میں کمی نہ کرو …جواب آیا…
 اے شعیب تو مسجد میں بیٹھ جا …ہمارے کاروبار میں دخل نہ دے… یہ تیری نمازیں …ہمیں کہتی ہیں …کہ ہم باپ دادا کا طریقہ چھوڑ دیں… اور ہم اپنے کارو بار تیرے طریقے پر کریں …تو ہم تو تیرے ہوجائیں … 
اگر کسی سے آپ کہیں کہ بھئی دیانت سے تجارت کرو …تو کہے گا کہ مجھ سے تو بجلی کابل بھی ادا نہیں ہوسکتا… میں روٹی کہاں سے کھاؤںگا… میں نے ایک تیل والے سے کہا …تم ملاوٹ کیوں کرتے ہو؟… اس نے کہا کہ اگر ملاوٹ کریں تو ایک ڈرم کے پیچھے ہیںپانچ سو روپے اورپانچ سو روپے میں تو کتنے دن گزر جاتے ہیں… تو قوم شعیب نے کہا
… اصلاتک تامرک ان نترک ما یعبداٰ باؤنا اوان نفعل فی امو انھا مانشائ… اے شعیب اپنے گھر بیٹھ جا… ہمیں تیری تبلیغ نہیں چاہئے… ہمیں اپنا کاروبار کرنے دے۔

اللہ کے تین عذاب

تو اللہ تعالیٰ نے اس قوم پہ تین عذاب مارے… جو پہلی کافر قومیں تھی… ان پہ ایک ایک عذاب آیا…یہ کافر کے ساتھ بددیانت تھے… لوگوں کا حق بھی لو ٹتے تھے… اللہ نے ان پر تین عذاب مارے…
 اخذتھم الرجفۃ………   زلزلہ…
 اخذ الذین ظلموالصیحۃ …چیخ …
اخذا ھم عذاب یوم الظلۃ … انگاروں کی بارش…
ہماری جماعت شعیب علیہ السلام کی قوم کے علاقے میں گئی ہے وہ اتنا ٹھنڈا علاقہ ہے کہ جب ہم وہاں سے گزرے تو وہاں تقریباً تین تین فٹ برف پڑھی ہوئی تھی ایسا ٹھنڈا علاقہ ہے ۔
اللہ نے ایک گرم ہوا بھیجی …وہ جھلس گئے … تڑپ گئے… آبلے پڑ گئے…
 تو اس کے بعد ایک دم ہوا ٹھنڈی ہوئی …تو سارے بھاگ کے باہر آئے …
کہ شکر ہے ٹھنڈی ہوا آئی …اوپر سے بادل آیا …کہا شکر ہے بادل آیا… 
اس کے ساتھ ہی زمین میں زلزلہ آنا شروع ہوا …اور اس کے اوپر فرشتے کی چیخ آئی۔۔
 اور اوپر وہ بادل کالا ایک دم سرخ ہوگیا …پھر اس میں سے ایک دم بڑے بڑے انگارے برسے!
 اور ساری شعیب علیہ السلام کی قوم کو …اور مدین کی منڈی کو اللہ نے جلا کر راکھ کر دیا…
 اگر یہ بازاروں والے توبہ نہیں کریں گے… تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں ان منڈیوں پر بھی وہ انگارے نہ برس جائیں جو مدین کی قوم پہ برسے تھے …اللہ تعالیٰ کی کسی سے رشتے داری کوئی نہیں ہے…
میرے بندے! تیری ایک ایک حرکت میرے سامنے ہے
میرے بھائیو او ربہنو! یہاں ہم آزاد نہیں ہیں… افحسبتم انما خلقنکم عبثا  میرے بندو! …تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟…کیسے زندگی گزار رہے ہو؟… کہ جیسے تمہیں آزاد پیدا کیا گیا ہے… تم پر کوئی نگہبان نہیں ہے… تمہیں خبر نہیں ہے کہ … 
…{مایلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید}… 
تمہاری زبان کا ہر بول میںلکھ رہا ہوں۔
…{بلی ورسلنا لدیھم یکتبون}… 
میرے فرشتے تمہارے ہر بول کو لکھ رہے ہیں…
ا ور اللہ تعالیٰ کی کھلی کتاب ہمیں بتا رہی ہے …کہ تمہارا ہر بول لکھا جاتاہے…
…{ یعلم خائنۃ الا عین}… 
تمہاری آنکھ غلط دیکھتی ہے …وہ بھی لکھا جاتا ہے …
 {وما تخفی الصدور}… 
تمہارے اندر غلط جذبات پیدا ہوتے ہیں …وہ بھی لکھا جاتا ہے
 {وما خلقنا السماء والارض وما بینھما لعبین}… 
زمین و آسمان اور جو کچھ اس میں ہے …میں نے کوئی کھیل کو دکے لئے تو نہیں پیدا کیا…
…{لواردناان انتخذلھوا لا تخذنہ من لدنّا}…
 اگر مجھے کھیل کا کوئی تماشہ بنانا ہی ہوتااپنے پاس بناتا تمہیں پیدا میں نے اس لئے تھوڑا ہی کیا ہے۔
دل کو توڑنے والے اعمال بد
حدیث پاک میں ہے: 
…{لا تحبسسوا…ولا تحاسدوا… ولا تدابروا… ولا تباغضوا }…
یہ پانچ اعمال ہیں …جو دلوں کو توڑتے ہیں… اور چھٹا{ ولا یغتب بعضکم بعضا}… یہ چھ ہوئے… اگر یہ چھ چیزیں نہ ہوں …توایک نیو یارک میں دس دین ہوجائیں …تو کچھ بھی نہ ہوگا… محبت ہی محبتیں ہوں گی… اگر یہ چھ ہوں تو سارے کے سارے …ایک ہی مصلے پر آکے کھڑے ہوجائیں …پھر بھی بغض ونفرتوں سے بھری ہوئے ہوں گے…
 {۱}{لا تجسسوا} … کسی کے عیب تلاش نہ کیا کرو… کسی برائیوں کی تانک جھانگ نہ کیا کرو …کہ کیا کرتا ہے کیا نہیں کرتا۔
{۲}{ لا تحاسدوا}… حسد نہ کیا کرو… 
{۳}{لا تدابروا} …کسی کو آگے بڑھتے ہوئے دیکھ کر …اس کی ٹانگیں نہ کھینچا کرو… اس پر رشک کریں …کہ اللہ اور دیں …اللہ اور دیں… یا اللہ مجھے بھی دیں… اور اس کو بھی دیں… حسد مت کرو… تجسس مت کرو۔
{۴}{لا یغتب} …غیبت مت کرو… بغض مت رکھو… یہ چھ کام ہیں …جب ہوں گے … تو امت محبت سے محروم ہوجائے گی… ساری امت آپس میں ٹوٹ پڑے گی… چاہے سب کے سب …ایک ہی مصلے پر نماز کیوں نہ پڑھ رہے ہوں۔۔۔
میرے بیٹے یاد رکھ! اللہ دیکھ رہاہے
حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی… 
{یابنی انھا ان تک مثقال حبۃ من خردل فتکن فی صخرۃ اوفی السموت اوفی الارض یات بھا اللّٰہ} (سورۃ لقمان)
ژ… اے میرے بیٹے! یاد رکھنا گناہ کرو گے… 
ژ… یا برائی کرو گے… یا اچھائی کرو گے…
ژ… پہاڑ کے اندر چھپ کے کرو… تو اللہ کو پتہ چلرہا ہے…
ژ… اور وہ رائی کے برابر …برائی یا اچھائی ہے …
ژ… یا زمین کے اندر گھس جاؤ… وہاں بیٹھ کر کرو …
ژ… کہ کسی کو پتہ نہ چلے …یا آسمان پر چڑھ کے کرو… 
ژ… پھر بھی تیرا رب تجھے دیکھ رہا ہے…
ژ… یات بھا اللہ …اللہ اسے ظاہر کر دے گا…
ژ… لہٰذا اللہ کی ذات کو ہر وقت سامنے رکھ کر …اس سے ڈرتے رہو…

ہم بے کار نہیں پیدا ہوئے 

جنید بغدادیؒ کے پاس ایک آدمی آتا ہے …کہ نصیحت فرمایئے… تو جنید بغدادیؒ نے فرمایا …بیٹا گناہ کرنا ہے …تو وہاں چلا جا جہاں اللہ نہ دیکھتا ہو… کہا اللہ تو ہر جگہ دیکھتا ہے …تو فرمایا پھر گناہ کرنا ہی چھوڑ دے… جب اللہ ہر جگہ دیکھتا ہے …تو توبہ کر لے۔
میرے بھائیو اور بہنو!اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے کار پیدا نہیں کیا… نہ بے مقصد پیدا کیا ہے… افحسبتم انما خلقان کم عبس وانکم الینا لا ترجعون …تمہار اکیا خیال ہے …کہ تم بے کار ہو… اور میرے پاس آنے والے نہیں ہو… اللہ تعالیٰ کا زبردست نظام میرے …اور آپ کے گرد ہے… 
ژ… زبان کی ہر حرکت… آنکھوں کی حرکت…
ژ… کان کی سماعت … دل میں آنے والے جذبات… احساسات…
ژ… سب پر اللہ تعالیٰ کازبردست پہرا ہے…
… مایلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید …بولتے ہیں… تو لکھا جاتاہے … انا علیکم لحافظین …کراماً کاتبین… سورہے ہوں… جاگ رہے ہوں… کاروبار میں ہوں… تنہائی میں ہوں …دو نگہبان دائیں بائیں بیٹھے ہیں … جنہیں نہ کھانے کی ضرورت نہ سونے کی ضرورت… نہ آرام کی ضرورت… ہماری ہر ہر حرکت پر کڑی نگاہ ہے…
آج جو کرنا ہے کر لے مگر کل!!!
{ان السمع والبصر والفواد کل اولئک کان عنہ مسٔولاً}
اور اللہ پاک اعلان فرما رہے ہیں… کہ میرے پاس سنبھل کے آنا …تمہاری آنکھوں سے پوچھوں گا …کیا جذبات لے آئے ہو… اور اس دن ان پر تیرا زور نہیں چلے گا…
 بلکہ یہ میرے حکم سے بولیں گے …اور جسم کا ایک ایک عضو بولے گا …اور یہ کہے گا …
تمہیں کیا ہوا …میرے ہی خلاف تم گواہی دینے لگ گئے؟ …وہ جواب میں کہیں گے… …{انطقنا اللّٰہ الذی انطق کل شیئی} …ہم کیا کریں …ہمیں وہ بلوا رہا ہے …
جس نے ہر چیز کو قوت کو یائی عطا فرمائی ہے۔ کہے گا…{ سقلکن ان کنت کنت انا بل} تمہارا بیڑا غرق ہو …تمہاری وجہ سے تو میں اللہ کی نافرمانی کرتا رہا …آج تم ہی میرے خلاف ہوگئے 
{الیوم نختم علی افواھھم وتکلمنا ایدیھم وتشھد ارجلھم بما کانوا یکسبون}
آج ہم تمہاری زبانیں بند کر دیں گے… تمہارے ہاتھ پاؤں …تمہارے کئے کرائے کا کھلا ثبوت… اپنی زبان سے پیش کریں گے … 
اس وقت ساری دنیا کے مرد اور عورت …اس اعتبار سے زندگی نہیں گزار رہے کہ ان پر کوئی نگہبان ہے… جو انہیں دیکھ رہا ہے… دن رات ان کی نقل و حرکت پر اس کی نگاہ ہے …اور اس سارے کئے کرائے کو …وہ سامنے رکھ کر پیش کرے گا… اس اعتبار سے ہماری زندگی نہیں گذر رہی…
 {یعلمون ظاہرامن الحیوۃ الدنیا وھم عن الآخرۃ ھم غفلون} …
ہم اس دنیا ہی کی چار روزہ زندگی کے جھمیلوں میں …اتنا پھنس گئے ہیں …کہ آخرت کی زندگی سے ہی غافل ہوگئے … آنے والی گھاٹیوں سے غافل ہوگئے… آنے والے عذاب سے غافل… {ولا تحسبن اللہ غافلاً عماً یعملوا الظلمون} …بتا دو … میرے بندوں کو …میری بندیوں کو …عورتوں مردوں کو بتا دو …جو کچھ تم کرتے ہو …میں غافل نہیں ہوں… پکڑتے کیوں نہیں… کیوں نہیں پکڑتے…
{ انما یؤخرھم لیوم تشخص فیہ الا بصار}
…پکڑ کا ایک دن رکھا ہے …اس وقت تک مہلت دی ہوئی ہے… پکڑنے پر طاقت پوری ہے … 
۔۔۔۔۔{افا من الذین مکروا العیات ان یخسفا اللّٰہ بسم الارض} …
اے میرے حبیب انہیں بتایئے …کہ میں زمین کو حکم دوں …تم سب کو اندر لے جائے …دھنسا دے تمہیں …ایک کو زندہ نہ چھوڑے…
 {یصیبھم العذاب من حیث لا یشعرون} …یا وہاں سے عذاب کا کوڑا برساؤں …کہ تمہیں وہم وگمان بھی نہ ہو…

قیامت کی نشانیاں

یہ ترمذی شریف کی روایت ہے… اذا تخذالفئی دولا… جب حکومت کے مال میں حکومت کے کارندے خیانت کریں گے… یا جب مال چند ہاتھوں میں آجائے گا… جب لوگ دولت سمیٹ لیں گے …سود کے نظام سے …سٹہ بازی کے نظام سے … جوئے کے نظام سے… ذخیرہ اندوزی کے نطام سے …جب دلوت چند ہاتھوں میں ہوگی… والا مانۃ مغنما… امانت کھائیں گے… کوئی امانت والا نہیں رہے گا… والزکوٰۃ مغرما… کوئی زکوٰۃ دینے والا نہیں ہوگا… زکوٰۃ کو ٹیکس کہیں گے… زمیندار کہیں گے …ہمارے خرچے پورے نہیں ہوتے… ہم عشر کہاں سے دیں؟ …تاجر کہیں گے ہم نے خود کمایا ہے …ہم کیوں غریب کو دیں؟… ہماری ذاتی محنت کی کمائی ہے…
…وتعلم لغیر الدین۔۔۔اورجب یہ امت علم دین کو …دنیا کمانے کے لئے پڑھے گی… اللہ کے لئے نہیں پڑھے گی……واطاع الرجل زوجتہلوگ اپنی بیویوں کی فرمانبرداری کریں گے…
 …وعق امہ اور ماؤں کی نافرمانی کریں گے …
…وادنی صدیقہ اپنے دوست کو گلے لگا کے ملیں گے …
…واقصی اباہ باپ کو دیکھ کے راہ بدل جائیں گے کہ کہیں باپ سے بات نہ کرنی پڑے…
…وساد القبیلۃ فاسقھم۔۔۔۔قبیلے کا سردار شرابی ہوگا… نافرمان ہوگا…
 …وکان رئیس القوم ارذلھم حکومت نا اہل اور ذلیل انسانوں کے ہاتھ میں ہوگی 
 …واکرم الرجل مخالفۃ شرہ ایک دوسرے کو سلام کریں گے مگر اللہ کیلئے نہیں… اس کے شڑ سے بچنے کے لئے…
وارتفعت الا صوات فی المساجد مسجدوں میں لڑائیاں ہوں گی…اونچی آوازیں ہوں گی …
 …وظھرت الغنیات۔۔۔۔۔گانے والیاں معززو محترم ہوجائیں گی…
۔۔۔۔گانے والیوں کو شہرت مل جائیں گی …
…والمعازف۔۔۔۔۔اور گانا بجانا عام ہوجائے گا…
…وشربت الخمور۔۔۔۔اور شراب پی جائے گی اور اسکو گناہ نہیں سمجھا جائے گا
…ولبس الحریر۔۔۔۔اور مرد ریشم پہنیں گے …
…ولعن آخر ھذہ الامۃ اولھا اور آج کے لوگ پہلے لوگوں کو برا کہیں گے…
 وہ ایسے ہی ان پڑھ زمانہ تھا… آج ترقی کا زمانہ ہے… وہ اونٹوں کا دور تھا…
آج راکٹ کا دور ہے… جب یہ پندرہ کام یہ امت کرے گی… حالانکہ اس سے زیادہ سخت گناہ کافرکررہے ہیں …مگر ان کو چھٹی ہے… یہ ان کے مقابلے میں چھوٹے کام ہیں …
جب یہ کام میری امت کرے گی …تو ان پر موسم بدل جائیں گے …اور ہواؤں کے طوفان آئیں گے …اور زمین پرزلزلہ ہوں گے …آسمان سے پتھر برسیں گے …ان کے چہرے مسخ ہوجائیں گے …اور وہ پہ در پہ عذاب میں مبتلا ہوں گے…

لوگوں سے توبہ کرائو

ہم نے کاروبار کو نہیں چھوڑا… دوکان کو نہیں چھوڑا… زمین کو نہیں چھوڑا… بیوی بچوں کو نہیں چھوڑا… گھر کو نہیں چھوڑا… اگر چھوٹی موٹی آگ لگ جائے …تو فائر برگیڈ کا انتظار ہوتا ہے… اگر پورے محلہ میں آگ لگ جائے… تو ہر آدمی بالٹی لے کر بھاگتا ہے… ہر آدمی سمجھتا ہے… کہ اگر فائر برگیڈ کا انتظار کیا …تو پورا شہر جل کر خاک ہوجائے گا… اب جب کہ پوری دنیا میں نافرمانی کی آگ لگ چکی ہے… ہر ایک کو بھاگنا ہوگا …
ہر ایک سے منت کرنا ہوگی …تب جاکر لوگوں میں …اللہ کی طرف رجوع نصیب ہوگا…
 ورنہ سارے اعمال ایسے ہیں… جو اللہ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں …
لوگ کہتے ہیں …کہ مہنگائی ہوگئی… ہم کہتے ہیں …کہ شکر کرو… کہ ہم زندہ ہیں …
ورنہ ہمارے اعمال ایسے ہیں …کہ زمین پھٹ کر ہمیں اندر لے جا چکی ہوتی جو ہم کررہے ہیں …کب سے آسمان کی بجلیاں کڑک جائیں …جو کچھ ہورہا ہے… کب کا آسمان کے فرشتے اگر کر زمین کو پتخ دیتے …جو ہورہا ہے یہ اللہ کا شکر ہے …کہ ہم زندہ ہیں …اس لئے ہم کہتے ہیں …حکومتوں کے پیچے مت بھاگو… ہڑتالیں نہ کرو… مسجد میں آجاؤ… تو بہ کرلو…
آج پاکستان ہی میں کتنے مسلمان شراب پیتے مرگئے… چوری کرتے مرگئے …زنا کرتے مر گئے… ڈاکہ ڈالتے ہوئے مرگئے… سود کھاتے ہوئے مر گئے …آپ بتاؤ …یہ کہاں چلے گئے؟
جو دنیا میں شراب پیتا ہوا مر گیا …تو جہنم میں شرابی عورتوں کی شرم گاہ سے جو پیپ نکلے گی… اس کو اللہ تعالیٰ جمع کر کے شراب پینے والوں کو پلائے گا …جو اس حالت میں مر گیا …بتاؤ تو اس کا کتنا بڑا نقصان ہوا… جو تکبر کے ساتھ مرے گا… اس کو جنت کی ہوا نہیں لگے گی… اگر اس سے ہم توبہ کروا لیتے تو کتنے بڑے نقصان سے وہ بچ جاتا…

اللہ کی ڈھیل کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائو

اس کا ہماری گردنوں پر قبضہ ہے …دل پر قبضہ ہے …دماغ پر قبضہ ہے …
سوچ پر قبضہ ہے… جسم کے ایک ایک ذرے پر قبضہ …ایک ایک رگ پر قبضہ ہے …
جسم کی ایک ایک بوٹی پر قبضہ ہے …تو وہ اللہ انسانوں کو سیدھا نہیں کر سکتا …
جونہی آنکھ نے غلط دیکھا… ایک تھپڑ پڑا…اور آنکھ نکل کر وہ گئی …
کانوں سے گانا سنا …تو اللہ کا تیرآیا اور کانوں سے پار ہوگیا …سماعت گئی …
چھوڑ دے یہ گانے بجانے …جونہی ہاتھ سے ظلم ہونے لگا …ہاتھ شل ہوگیا۔۔۔
 پاؤں غلط چلا تو شل ہوگیا …شہوت غلط راہ پر چلی…  تو اللہ نے زمین پر پھٹک کر دکھایا 
زبان جھوٹ بولے توفالج گرادے …کیا اللہ کو قدرت نہیں ہے؟… پوری طرح قادر ہے…
دو عرب سردار آئے مشورہ کر کے …کہ اللہ کے رسول  ﷺ کو (نعوذ باللہ) قتل کریں گے… ایک نے کہا میں ان کو باتوں میں لگاؤںگا …اورتو قتل کردینا …ایک باتیں کرنے لگا …تو دوسرے نے تلوار پر ہاتھ رکھا… ہاتھ شل ہوگیا …وہ ہٹانا چاہتا ہے …مگر ہاتھ تلوار سے دستے سے ہٹتا ہی نہیں…
ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سارا کو… بادشاہ ظالم نے پکڑ لیا …غلط ارادے سے تو اللہ نے سارا منظر ابراہیم علیہ السلام کی تسلی کے لئے کھول کر دکھادیا …اور ابراہیم علیہ السلام دیکھ رہے ہیں …کہ وہ ہاتھ بڑھاتاتو ہاتھ شل ہوکر گر پڑتا نیچے… تھوڑی دیر کے بعد وہ پھر ہاتھ بڑھاتا… تو ہاتھ شل ہو کر نیچے گر پڑتا…(سارے زانیوں کو اللہ نہیں پکڑ سکتا؟) قادر ہے …طاقتور ہے …

غافل بہت بڑاظالم ہے

… لا تحسبن اللّٰہ غافلا عما یعمل الظلمون… ظالمو اللہ کو غافل مت سمجھو …یہ سارے کام جو میں نے بتائے یہ ظلم ہیں… گانا سننا بھی کوئی ظلم ہے؟ …ارے اللہ کے بندو اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا …کہ اتنے بڑے اللہ کے حکم کو توڑ دیا ہے؟
… الجفاء ماالجفاء من سمع النداء فلم یجبہ …ظالم ہے… سب سے بڑا ظالم…سب کی نظریں اٹھیں …یارسول اللہﷺ کون ؟…فرمایا :جس نے اذان کی آو از سنی …اور مسجد کو نہیںگیا… دیکھو !…یہ ساری مارکیٹ …بازار ظالموں سے بھری پڑی ہے …
کہ جس اللہ نے ان کو مٹی سے وجود دیا ہے …اس اللہ کے حکم کو ماننے سے انکاری ہوئی پڑی ہے …دو ہزار کا ملازم رکھا ہوتو اپنی بات منواؤ گے اس سے …کہ نہیں؟

موسیقی… زوال کا بڑا سبب

یہ موسیقی جس قوم میں آئی… وہ قوم تباہ ہوئی… دنیا کی تاریخ پڑھو… جس قوم نے راگ ورنگ چھیڑا… جس قوم کی نسل کے ہاتھوں میں بنسریاں آئیں …اور ان کے قدم اس کی آو از پر تھرکنے لگے …اور رنڈیوں کے گانے عام ہوئے… اس قوم کو زمین آسمان نے دیکھا …اور یہ گواہ ہیں… یہ ہوا گواہ ہے … یہ فضا گواہ ہے …کہ وہ قومیں برباد ہوئیں… وہ قومیں تباہ ہوئیں… وہ قومیں ہلاک ہوئیں… ان قوموں کو ایٹمی طاقت نہ بھا سکی… ان قوموں کو مادی طاقت نہ بچا سکی… ان قوموں کو ثقافتی طاقت نہ بچا سکی… ان قوموں کو ان کے سیاسی نظام نہ بچا سکے… کافر ہو کر بھی… مشرک ہو کر بھی جن قوموں میں موسیقی پھیلے اور زنا پھیلا اور سود پھیلا… اللہ تعالیٰ نے انہیں صفحہ… ہستی سے مٹایا اور ان پر رندہ پھیر دیا… اپنے عذاب کا کوڑا برسایا… وہ نہ دنیا میں زندہ رہنے کے قابل رہتے ہیں نہ آخرت میں کوئی قابل ذکر قوم ہیں…
 حرام چھوڑا ہر جگہ عزت مل گئی 
میرے بھائیو! ان کانوں کو حرام سننے سے بچالو… تو کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ کی تسبیح پڑھتا آپ کو سنائی دے گا… ایک ایک چپہ… ایک ایک پتھر… ایک ایک تنکا… ایک ایک پہاڑ …ایک ایک گلی کی ایک ایک اینٹ تمہیں اللہ اللہ کرتی سنائی دے گی… ان کانوں کو حرام سننے سے جو بچائے گا… ان آنکھوں کو حرام دیکھنے سے جو بچائے گا …اس زبان کو حرام بولنے سے جو بچائے گا… اس پیٹ کو حرام کھانے سے جو بچائے گا… اپنی شہوت کو حرام استعمال کرنے سے جو بچائے گا…اللہ کائنات میں اپنا آپ اسے دکھا دے گا…

 دنیا مٹ جانے والا گھر ہے

اس کائنات کی ہر چیز اس کے زوال کا… اس کی ہلاکت اور تباہی کا خود پتہ بتاتی ہے … یہ دنیا مٹ جانے کا گھر ہے …آئی ہوئی بہار دیکھ کے یوں لگتا ہے …کہ یہ کبھی نہیں جائے گی… ہوا کا ایک جھونکا جب اسے خزاں میں بدلتا ہے …تو لوگ بھول ہی جاتے ہیں …کہ کبھی بہار بھی تھی… جوانی کی ترنگ میں جب آدمی مچلتا ہے… اچھلتا ہے…
{فلما ترع رع وکدرت واشتداعبدک…}
اس کے اندر جوانی کی لہریں دوڑتی ہیں… وہ سمجھتا ہے …کہ یہ جوانی سدا رہے گی … گھنٹوں اپنے چہرے کو دیکھتا ہے… کبھی ایک زاویے سے کبھی دوسرے زاویئے سے… بڑے بڑے شیشے لگے ہو ئے آگے سے بھی دیکھتا ہے… پیچھے سے بھی کیسا نظر آتا ہوں… اپنے اوپر خود اتراتا ہے… اپنے اوپر خود اسے گمان ہوتا ہے… مان ہوتاہے … اپنی ذات سے پیار ہوتا ہے …کہ میں کیسالگ رہا ہوں…
چند صبحیں گزرتی ہیں… …چند شامیں گزرتی ہیں… 
وہی شخص ہے وہی مرد ہے… وہی عورت ہے… 
آئینے کا سامنا کرتے ہوئے گھبرا تا ہے… نہیں! نہیں! …
یہ وہ چہرہ نہیں جو کبھی تروتازہ تھا…
 جو کبھی گلاب سے تشبیہ دیا جاتا تھا…
 جو کبھی صبح صادق سے تشبیہ دیا جاتا تھا… 
نہیں!نہیں! یہ وہ نہیں! اس پر تو مکڑی کے جالے کی طرح …
بڑھاپے نے جھریوں کا تانا بانابن دیا ہے … 
وہ چشم غزال… اس کی توہر نی جیسی آنکھ ہے…
ان آنکھوں کو بڑھاپے کے زبردست…
اور ظالم ہاتھ نے اس کے پپوٹوں کو اس کی آنکھوں پر گرادیا…
وہ آنکھ اٹھنے کو نہیں… دیکھنے کو نہیں… چشمے چڑٓ گئے …
پھر انہونںے بھی دیکھنے سے انکار کر دیا…
اللہ کا کھا کر اس کی نافرمانی کرنا اچھا نہیں ہے
میرے بھائیو! بغیر توبہ کے نہ رہیں… یہ ظلم نہ کریں … یہ ظلم نہ کریں… اللہ کے واسطے …
اسی کی کھاکر اسی کو غرانا۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تو کتا بھی نہیں کرتا… یہ توبلی بھی نہیں کرتی…
 یہ تو شیر بھی نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔۔ وہ چڑیا گھر میں ہویا سر کس والے ہوتے ہوں گے …
اس کو جو گوشت کھلاتا ہے… اس کے سامنے وہ بھی بکری بن جاتا ہے…
ہاں! اللہ کی زمین پر رہیں۔۔۔۔۔ اور اللہ کی زمین کو گناہوں سے جلا دیں …
اللہ کی فضا کو استعمال کریں …اور ساری فضاجوں میں گناہوں کا دھواں بھر دیں ۔۔
 آنکھوں کی شمع اس نے جلائی ۔۔۔اور ہم اوروں کی عزتوں کو دیکھیں …
 کانوں کے ٹیلی فون اس نے دے دیئے …اور ہم رنڈیوں کے گانے سنیں…
 دل… دماغ اس نے دیا …اور ہم نافرمانی میں استعمال کریں…
 شہوت اس نے رکھی ……اور وہ زنا میں استعمال ہو…
 جسم اس نے دیا ………اور وہ نافرمانی میں استعمال ہو…یہ تو کوئی عقل کی بات نہیں ہے… 
کتا ایک روٹی کھا کر ساری زندگی کے لئے ……وفادار بن جاتا ہے … 
آپ سوتے ہیں… وہ جاگتا ہے … 
ساری رات پہرہ دیتا ہے…تو میں کتے سے نیچے نہ جاؤں ……
کہ جو ایک روتی پہ ایسی وفا کر جائے…او رمیں سارے جہاں کی نعمتیں کھا کر …
اسی سے ٹکڑا جاؤں … کوئی انسانیت نہیں ہے …
ورنہ آخری سانس میں بھی توبہ کر لے…تو وہ بھی قبول ہے …
لیکن موت کا پتہ نہیں کب آجائے …تو آج ہی کرنی ہے…

من چاہی چھوڑ دو

جب پردہ کے حکم کی آیت اتری …
{قل لا زوا جک وبناتک ونسآء المؤمنین یدنین علیھن من جلابیبھن…}
اے میرے حبیب! بتا دو اپنی بیٹیوں کو… اپنی بیویوں کو… ساری مسلمان عورتوں کو …کہ اب پردے کا حکم آگیا ہے…ساری رات بیٹھ کر عورتوں نے اپنے لئے … فخر کی نماز میں جب آئیں توحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
…کانھن غراب:… یوں لگا جیسے کوے مسجد میں آگئے…
 کالی چادروں میں ڈھکی ہوئی… چھپی ہوئی…
 ادھر حکم آیا ادھر اطاعت آئی…
ادھر حکم آیا ادھر اطاعت آئی…
 …کہ اپنی من چاہی کو اللہ پر قربان کرنے کا جذبہ پیدا ہوگیا تھا…
اپنی چاہتیں اللہ پہ قربان کرنے کے جذبے آگئے… بس وہ کریں گے جو اللہ کہے گا…
 عبداللہ ابن ام مکتومؓ نابینا گھر میںآئے … حضرت عائشہؓ اور حفصہؓ بیٹھی تھیں …آپ  ﷺ نے فرمایاع اندر چلی جاؤ… انہوںنے کہا: جی ! اندھا ہے… وہ تو اندھا ہے … تو آپ  ﷺ نے کہا: تم تو اندھی نہیں ہو… فعمیا وان انتما … وہ تو اندھا… لیکن تم تو اندھی نہیںہو… 
یہ کون عورتیں ہیں؟ نبی کی بیویاں… جن کی پاکیزگی قران بتائے۔ اور عبداللہ ابن ام مکتومؓ کون ہے جن کے لئے حضور(ﷺ) کو ڈانٹ پڑ گئی… یہ وہ ہستی ہے… سوالاکھ صحابہؓ میں… یہ ایک شخص ہے ایسا …کہ جس کے بارے میں دو دفعہ قرآن میں ایسے حیرت انگیز طریقے سے آیا ہے …کہ کسی کے بارے میں نہیں آیا…
حضور(ﷺ) تشریف فرما ہیں اور دعوت دے رہے ہیں …قریش مکہ کو…سرداران مکہ کو…یہ آگئے… انہیں کیا پتہ کون بیٹھے ہوئے ہیں؟ آکے کہا: یارسول اللہؒ کچھ مجھے تو بتائیں… آپ  ﷺ کو اچھا نہیں لگا …کہ یہ سردار بیٹھے ہوئے ہیں… یہ نفرت کھا جائیں گے …کہ یہ اس وقت نہ آتاتو اچھا تھا… تو آپ  ﷺ اس کی سنی ان سننی کرتے ہوئے انہی سے بات کرتے رہے … ابھی وہیں بیٹھے تھے …کہ وحی آگئی:
{عبس وتولی ان جأء ہ الاعمی وما یدریک لعلہ یزکی او یذکر فتفعہ الذکری)…}
 اے میرے حبیب! آپ  ﷺ نے اس سے منہ پھیر لیا اور اس سے ماتھے پہ بل پڑ گئے…
 کیوں آپ  ﷺ کے ماتھے پہ بل پڑے؟ یہ وہ شخص ہے … اس کے بعد جب کبھی عبداللہ ابن مکتومؓ جب کبھی حضور(ﷺ) کے دربار میں آتے …تو آپ(ﷺ) فرماتے:
{مرحبا لمن عاتبنی فیہ ربی مرحبا! مرحبا!}
’’جس کی وجہ سے میرے رب نے مجھے تنبیہ فرمائی…‘‘
 اور یہ وہ شخص ہے …کہ قرآن میں آیت آئی:
{لا یستوی القاعدون من المؤمنین والمجاھدون فی سب یل اللّٰہ)}
یہ آیت آئی …کہ اللہ کی راہ میں نکلنے والے… جہاد کرنے والے… گھر بیٹھنے والے برابر نہیں ہوسکتے… تو عبداللہ ابن ام مکتومؓ نابینا تھے… کہنے لگے: یا اللہ! میں کیا کروں؟ …تو تو جانتا ہے… میں اندھا ہوں… میرے لئے تو گنجائش نکال… میں کیسے تیری راہ میں نکلوں؟…آیت اتر چکی ہے… جبرائیل علیہ السلام پھر ایک لفظ لے کر دوبارہ آئے…
 ایک لفظ جس کے لئے قران میں دوبارہ اتارا گیا اور آیت کو بدلاگیا… یارسول اللہ  ﷺ! اب اس آیت کو یوں پڑھئے:
{لا یستوی القاعدون من المؤمنین غیر اولی الضرر}
یہ لفظ بڑھایا گیا …(غیر اولی الضرر والمجاھدون فی سبیل اللّٰہ)  وہ مسلمان جنہیں عذر کوئی نہیں اور گھر بیٹھے ہوئے ہیں… وہ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے برابر نہیں ہوسکتے… ہاں! جو عذر والے ہیں ان کے لئے معافی ہے …
(غیر اولی الضرر) …ایک لفظ کے لئے جبرائیل ؑ کو بھگایا گیا …
 یہ ہے وہ عبداللہ ابن ام مکتوم… ان سے حضور(ﷺ) اپنی فرشتوں سے پاکیزہ بیگمات کو فرما رہے ہیں: اندر چلی جاؤ… اندر چلی جاؤ… یا رسول اللہ  ﷺ! اندھا ہے … کہا: تم تواندھی نہیں…ارے! یہ ان کی وجہ سے نہیں ہورہا… اس محبوب(ﷺ) کو پتہ تھا… میری امت آگے آکر کیا کرنے والے ہے … یہ ان کے لئے اصول بنائے جارہے ہیں…
قرآن اوراق سے نکل کر جسم میںآجائے…
 کتابوں سے نکل کر اندر میں آجائے…
پورے تیس پارے انسان کے پانچ فٹ کے جسم میں آجائیں…
پھر اس مسلمان پر جس کا ہاتھ اٹھے گا اللہ اس ہاتھ کو توڑ ے گا…
 جو پاؤں اٹھے گا اللہ اس پاؤں کو کاٹے گا…
 جو آنکھ اٹھے گی اللہ اس آنکھ کو پھوڑے گا…
 جب مسلمان حضور اکرمﷺ والی کتاب کو لے کر کھڑا ہوجائے گا…
نرس کی مریض سے التجا !آپ مجھ سے شادی کرلیں
گلاسکو میں ہمارا ایک ساتھی تھا… بیمار ہوگیا… ہسپتال میں داخل ہوا… تین دن تک داخل رہا… چوتھے دن نرس اس سے کہنے لگی … جو اٹینڈینس تھی… آپ مجھ سے شادی کر لیں… اس نے کہا کیوں؟ میں مسلمان ہوں… تیرا میرا ساتھ نہیں ہوسکتا… کہنے لگی میں مسلمان ہوجاؤں گی… کیا وجہ ہے؟ کہا میری جتنی سروس ہے ہسپتال میں میں نے آج تک کسی مرد کو کسی عورت کے سامنے آنکھیں جھکاتے نہیں دیکھا سوائے تیرے…تم میری زندگی میں پہلے شخص ہو …جو عورت کو دیکھ کر نظر جھکا لیتے ہو… میں آتی ہوں …تو تم اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہو… 
اتنا بڑا حیا سچے دین کے سوا کوئی نہیں سیکھ سکتا… آنکھوں کی حفاظت نے اس کے اندر اسلام داخل کر دیا… مسلمان ہوگئی… دونوں کی شادی ہوگئی… وہ لڑکی اب تک کتنی لڑکیوں کو اسلام میں لانے کا ذریعہ بن چکی ہے… کتنی وہاں کی برٹش خواتین مسلمان ہوچکی ہیں…
اللہ کے لئے خوبصورت کو ٹھکرا دیا !حسن کو چھوڑا تمغہ یوسف مل گیا
حضرت اربیع ابن خفینؒ ایک بڑے بزرگ گزرے ہیں… کچ لوگ ان سے حسد کرنے لگے… ایک فاحشہ عورت تھی… بڑی خوبصورت اورحسن و جمال والے … اسے انہوںنے ہزار درہم دے کر کہا …کہ تو ربیع کو گمراہی پر لے آ… اور سب سے بڑآ فتنہ تو اسی وقت شروع ہوتا ہے… جب مرد اور عورت کا آزادانہ اختلاط ہوتاہے… ہزار درہم مال آدمی کو اندھا کر دیتا ہے… جیسے آج ہم اندھے ہوچکے ہیں… اس عورت نے … لبست باحسن ماعندھا ماقدرت … جو سب سے عمدہ لباس تھا وہ پہنا… اور سب سے عمدہ خوشبو لگائی… اور سب اعلیٰ بناؤ سنگھار کے ساتھ اپنے آپ کو سجایا…
وہ رات کو نماز پڑھ کے جب مسجد سے نکلے… فبرزت لہ وھی سافرۃ …     ایک دم ان کے سامنے چہرہ کھولے بڑے انداز سے چلتی ہوئی آئی… جب حضرت ربیع کی نظر پڑھی… تو فوراً چہرہ جھکا لیا … اور فرمایا اے بہن! جس حسن پر تجھے ناز ہے اور جس حسن پر تو مجھے بہکانے آئی ہے… تو اس دن کو یاد کر… کیف بک لو حلت بک الحمۃ…
 وہ دن یاد کر جب اللہ تجھے کوئی بیماری ڈال دے … اور تیرے چہرے کی رونق کو چھین لے…
 اور تو ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جائے… تو تیرا حسن کہاں جائے گا؟
…کیف بک لو بک الحمۃ……تیرا کیا حال ہوگا؟
جب تجھے قبر کے گڑھے میں ڈالا جائے گا…
 اور تیرے اسی خوبصورت چمکتے دمکتے چہرے پر…
 جس پر آج تجھے ناز ہے…
 اس پر قبر کے کیڑے چل رہے ہوں گے…
اور وہ تیری آنکھوں کو کھائیں گے…
اور تیرے بالوں کو نوچ لیں گے…
 اور تیر ہڈیوں کو تیرے گوشت سے الگ کر دیں گے…
او ر تو ایک ڈھانچہ پڑی ہوگی…
اور تو وہ دن یاد کر جب تجھے قبر میں منکرنکیر اٹھاکے بٹھائیں گے…
 اور تجھ سے سوال کریں گے…
 تو بتا آج تو کس حسن پر ناز کرتی ہے؟
 جو کل کو کیڑوں کا شکار ہونے والا ہے…
 انہوںنے ایسے درد سے اس عورت سے با ت کی …
کہ وہ بے ہوش ہو کے زمین پر گر گئی…
جب اسے ہوش آیا تو ا س نے ایسی توبہ کی …کہ اپنے وقت کی بہت بڑی ولیہ عابدہ اور زاہدہ بنی… اس کے پاس دعائیں کروانے کے لئے لوگ آتے تھے…

میں کیسا لگ رہا ہوں

انسان میں اللہ نے ایک مادہ رکھا ہے… یہ نمایاں ہونا چاہتا ہے … اپنی مدح چاہتا ہے اور یہ بہت چھوٹی عمر سے یہ چیز ہوتی ہے …
 میرے دو بھتیجے کھڑے تھے… دونوں چھوٹے چھوٹے… کوئی ڈیڑھ سال کا فرق دونوں میں … تو وہ جو چھوٹا تھا …اس نے ابھی نئے کپڑے پہنے تھے… اور جو بڑا تھا …اس نے نہیں بدلے تھے… تو میں نے چھوٹے سے کہا: …ماشاء اللہ بڑے پیارے لگ رہے ہو… وہ جو ساتھ اس کا بھائی کھڑآ تھا… اس کو یہ بات پسند نہیں آئی …کہ میری تو تعریف کی نہیں… چاچانے اس کی کی!… تو جلد ی سے بولا… چاچا! جوتے اس نے میرے پہنے ہوئے ہیں …یعنی مجھے بھی تعریف میں شامل کریں… مجھے آپ نے کیوں نیچے کردیا؟ یہ جوتے اس نے میرے پہنے ہوئے ہیں… میںنے کہا: اچھا بابا! آپ بھی بڑے اچھے لگ رہے ہیں… اتنی عمر سے یہ احساس پیدا ہوجاتا ہے…
 تو یہ ایک فطری چیز ہے… اس کو ہم روک نہیں سکتے … یہی جذبہ انسان کو دوڑلگواتا ہے  اس جذبے کو اگر صحیح رخ پہ موڑ دیا جائے …تو پھر یہ روسن شاہرہ ہے… جس کے آخر میں جنت ہے … یہ جذبہ اگر غلط مڑجائے …تو ا سکے آغے خوفناک گھاتیاں ہیں …جس کی انتہاء کوئی نہیں
نہیں ناخوش کریں گے نفس کو اے دل تیرے کہنے سے
ارے میرے بھائیو! 
رقص وسرور کی محفلوں کے مزے تو چکھے ہوئے ہیں …
کبھی رات کو اللہ کے سامنے رونے کا مزہ بھی چکھ کے دیکھو…
 نظر کو اٹھانے کا مزا تو چکھے ہوئے ہیں …کبھی نظر جھاکنے کا مزہ بھی چکھ کے دیکھو… 
میرے رب کی قسم! اگر دل میں لہریں نہ دوڑ جائیں …تو میرا گریبان پکڑ لینا…
 راتوں کوناچنے کو دنے کی لذتیں دیکھیں ہیں …رات کو مصلے پر کھڑا ہونے کی لذت کو بھی چکھو …
اوروں کو بھی رلاتے پھرو گے …خود کیا رؤوگے… 
یہ وہ لذت ہے …کہ جس کے سامنے ساری لذتیں ختم ہوجاتی ہیں…
  نظر جھکانے کی جو لذت ہے …نظر اٹھانے کی لذت اس کے مقابلے میں کچھ نہیں… 
بے حیائی کی لذت کو دیکھا ہے… پاک دامنی کی لذت کو بھی چکھ کے دیکھو… 
ان قدموں کو غلط محفلوں میں لے کے چلیں ہیں… وہ لذت دیکھی ہیں…
 ان قدموں کو مسجد میں آنے کا عادی بناؤ… یہ لذت بھی چکھ کر دیکھو…
بڑے لوگوں کے سامنے سر جھکانا …چاپلوسی کرنا سیکھا ہے …
کبھی اپنے مالک الملک کی خوشامد میں سرکو زمین پہ ٹکا کے… یہ لذت بھی دیکھو 
کہ کیسی لذتوں کے …کیسے محبت کے…دروازے کھلتے ہیں… 
جب سر آپ کا زمین پر ہو …زبان پہ اللہ کانام ہو…
 عرش تک دروازے کھل چکے ہوں 
اور اللہ اپنے بندے کو دیکھ رہا ہو …کہ سارا اسلام آباد…… سویا ہے …
یا شراب کی محفل ہے…  یا رقص کی محفل ہے …
 ارے فرشتو آجاؤ آجاؤ… دیکھو یہ میر ابندہ …جب لوگ ناچنے گانے میں مشغول ہیں … یہ میرے سامنے سر رکھے ہوئے تڑپ رہا ہے… مچل رہا ہے … رورہا ہے … دیکھو اسی وجہ سے میں نے تمہیں کہا تھا …کہ میرا انسان خلیفہ بن سکتا ہے… تم نہیں میرے خلیفہ بن سکتے … تم میں تو لذت کا احساس ہی نہیں… تمہارے اندر نہ دکھ کا احساس… نہ خوشی کا احساس… نہ لذت کا احساس …نہ تکلیف کا احساس …اسے دیکھو جو ساری حرام لذتیں …چھوڑ کر میرے سامنے پڑا ہوا رورہا ہے اللہ اکبر… 
سارے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں… جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں …اور جب جنت کی حوریں… جنت کے دروازوں …پر آکر کھڑی ہو کر…اس نوجوان کو مبارک دیتی ہیں …کہ اللہ تجھے اسی حال پہ پکار کھے… جب تو آئے گا تو دیکھے گا … کہ کیا تیرے استقبال ہوتے ہیں… 
اور میرے بھائیو کبھی اس واری میں بھی تو چل کر دیکھو… کب تک ان قدموں کو پھراؤ گے غلط راستوں پر کب تک ان نظروں سے غلط دیکھو گے … کب تک ان کانوں سے غلط سنو گے… صحیح سننے کی لذت چکھو …کبھی نظر جھکانے کی بھی لذت بھی چکھو …کبھی پاک دامنی کی لذت بھی چکھو… یہ وہ لذت ہے …جو ساری لذتوں کو توڑ رکھ دیتی ہے…
کیا اللہ یہ نہیں کر سکتا …کہ سب کو سیدھا کر دے… ہوجاؤ سیدھا…
 جو نہی نظر نے غلط دیکھا وہ ہمیں تھپڑ مارا… آنکھ نکل کر وہ گئی …
 جو نہی کانوں نے گانا سنا …وہیں تیر آیا اللہ کا اور کانوں سے پار ہو کر نکل گیا …
چھوڑ دے تو! شیطانی گانے سنتا ہے…
جونہی ہاتھ سے ظلم ہونے لگا… ہاتھ شل ہوگیا…
 پاؤں غلط محفل کو اٹھا… پاؤں شل ہوگیا…
شہوت… زنا کو چلی تو اللہ پاک نے زمین پہ گرا کے پچھاڑ کے دکھادیا…
 کیا اللہ کو قدرت نہیں ہے؟زبان جھوٹ بولے تو فالج گرادے…
 ہاتھ غلط تولے تو ہاتھ شل کرا کے دکھا دے … پوری طرح قادر ہے …

اللہ کی مدد

دو عرب سردار آئے … ایک نے کہا: میں اللہ کے رسول سے بات کروں گا… تو قتل کر دینا(یہ دونوں نے منصوبہ بنایا پھر آپ کے پاس آئے )…
اب ایک نے باتوں میں لگایا اور دوسرے نے تلوار پہ ہاتھ رکھا… نکالنے کے لئے ہاتھ رکھا… ہاتھ وہیں شل ہوگیا… وہ ہٹانا چاہے… ہٹتا ہی نہیں… وہ سمجھا …کہ ہاتھ کی طاقت میری اپنی ہے 
شاہ ملک نے ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سارہ کو پکڑ لیا… اور اس سے زیادتی کرنے لگا …تو اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو تسلی کے لئے …کہ کہیں ان کو شک نہ پڑے سارا منظر ابراہیم کو کھول کے دکھادیا… ابراہیم علیہ السلام اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں… وہ یوں ہاتھ بڑھاتا تو ہاتھ شل ہو کے نیچے گر جاتا…پھر وہ ہاتھ بڑھاتا تو ہاتھ شل ہوکے نیچے گرجاتا…
سارے زانیوں کو اللہ نہیں روک سکتا؟جو زنا کو چلے اللہ پکڑ کے دکھادے… جو عورت فحاشی کو چلے … اس کو رسوا کر کے دکھا دے … یہ طاقت نہیں ہے؟
خالق کی نافرمانی سے مرجانابہتر ہے
آپ ﷺ نے فرمایا:
{الامیتہ فی طاعۃ اللہ خیر من حیوۃ فی معصیۃ الخالق}…
یاد رکھنا! فرمانبرداری میں مرجانا… یہ نافرمان بن کر زندہ رہنے سے بہتر ہے…
 یہ حدیث یہ بتا رہی ہے …کہ حکومتوں کی دوڑ میں اگر اللہ ناراض ہورہا ہو… تو حکومت چھوڑ دو۔
ایک ذہن تو یہ ہے …کہ کائنات میں آئے… جیسے مرضی آئے… زندگی گزارے وہ ایک بہت بڑا طبقہ اس طرح زندگی گزار رہا ہے… اس چیز سے متاثر ہو کر مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ ہے …جو اپنی چاہت کی من چاہی زندگی گزار رہا ہے ۔۔۔
سن لو ! میں دیکھ رہا ہوں
لیکن میرے بھائیو!اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی کتاب میں… ولا تحسبن اللہ غافلا۔۔
اے میرے بندو مجھے غافل نہ سمجھو… میں دیکھ رہا ہوں…
شراب پی رہے ہو… یہ بھی دیکھ رہا ہوں…
ناچ رہے ہو… یہ بھی دیکھ رہا ہوں…
 سجدہ کر رہے ہو… یہ بھی دیکھ رہا ہوں…
 حلال کمارہے ہو… یہ بھی دیکھ رہا ہوں…
حرام کمار ہے ہو… یہ بھی دیکھ رہا ہوں…
لا تاخذہ سنۃ… تیرا رب اونگھتا نہیں… ولا نوم… سوتا نہیں… لا یودہ حفظھما… تھکتا نہیں…ولا تحسبن اللہ غافلا… غافل نہیں ہوتا… وما کان ربک نسیا… وہ بھولتا نہیں… وما ھم بمعجزین… وماکان اللہ لیعجزہ من شئی… کائنات میں کوئی چیز تمہارے رب کو عاجز نہیں کر سکتی… اسی طاقت کو روک نہیں سکتی… کسی چیز کو چھپا نہیں سکتی… وہ کائنات کی تہہ تک چلا جاتا ہے… انھا ان تک مثقال حبۃ من خردل فتکن فی صخرۃ اوفی السمآء اوفی الارض یاتی بھا اللہ…
 ایک رائی کے دانے کے برابر اچھائی کرو… برائی پہاڑ کے اندر چھپ کر کرو…
 زمین کے نیچے جا کر کرو…آنکھوں میں دیا جلا کر کرو…
جہاں کرو گے اللہ کی آنکھ وہاں چل رہی ہے… الم تران اللہ یعلم مافی السموت وما فی الارض… بتاؤ ان ظالموں کو …کہ تمہارا رب تمہیں دیکھ رہا ہے…    شرم کھاؤ… ما یکون من نجوی ثلثۃ الا ھو رابعھم… تم تین آدمی چھپ کر… اپنے دروازے بند کر کے…برائی کر تو چوتھا اللہ ہے تم کو دیکھنے والا …توبہ کرلو…
 اللہ کے محبوب(ﷺ) کی زندگی کو اپنی زینت بناؤ…
 اپنی آنکھوں کو حیاء کا کاجل لگاؤ…
 اپنے کانوں کو قرآن کے نغموں سے آشنا کرو …
 اپنے چہرہ کو حضو ر  ﷺ کی سنت سے سجاؤ…
اپنے لباس کو حضور  ﷺ والا لباس بناؤ…
 اپنے پاؤں میں اللہ کی محبت کی بیڑیاں ڈالو…
اپنے ہاتھوں میں اس کے عشق کی ہتھکڑیاں ڈالو…
اپنے لگے میں اس کی اطاعت کا گلو بند ڈالو…
اپنے ماتھوں پہ اس کے سجدوں کا جھومر سجاؤ…
پھر دیکھو اللہ کو کیسے پیارے لگو گے…
ہم تو کتے سے بھی زیادہ بے وفا ہیں
جب انسان دنیا میں آیا… اور اس میں جوانی کی لہریں دوڑیں… وبدن قد آور ہوگیا… اس کے بازو طاقتور ہوگئے… جوانی کی طاقت پیدا ہوگئی… تو اب چاہئے تویہ تھا …کہ ساری پچھلی زندگی کو دیکھ کر میرے سامنے جھک جاتا…
 جیسے کتا تمہاری ایک روٹی کھا تا ہے… اور سر جھکادیتا ہے… اس کو کھانا کھاتے بلاؤ روٹی چھوڑ کر آجاتا ہے… اس کو لات مارو… چھری مارو… سر نہیں اٹھاتا… گھر کا بچہ بھی اس کی پٹائی کرے تو سر نہیں اٹھاتا… باہر سے کوئی چھ فٹ کا بھی آجائے تو اس کی ٹانگوں کو پڑ جاتا ہے … جان کی پروا نہیں کرتا… دوروتی وفا کرتاہے… بلاؤ تو اٹھ کر آیجاتا ہے… کھانا کھاتا چھوڑ کر آجاتا ہے… ایک ہمارا حال ہے …کہ جس مالک کی کھاتے ہیں… اسی کی نافرمانی کرتے ہیں
ہم تو اچھا کتا ہے جو مالک سے وفا تو کرتا ہے… ہم کتے سے گئے گزرے نہ بتائیں کچھ تو سوچیں کب تک اللہ کی نافرمانی کرتے رہیں گے… آخر یہ کل ہماری کب ختم ہوگی ایسا نہ ہو اللہ کو اور نفس کو دھو…کہ دیتے دیتے عمر ہی تمام ہوجائے…

اللہ کے رحمت کے جھونکے

اس امت کا نوجوان ایسا قیمتی ہے …کہ اگر یہ اللہ پاک کی اطاعت پر آجاتا ہے… تو میرے بھائیو! …اس کے نکلے ہوئے خوف کے آنسو اللہ کے عذاب کو اڑا دیتے ہیں …اور اس امت کا بوڑھا اتنا قیمتی ہے… اگر یہ جھکی ہوئی کمر کے ساتھ قدم اٹھاتا ہے …تو اللہ کا عرش بھی ہلتا ہے… اور آئے ہوئے عذاب بھی اٹھ جاتے ہیں… اس امت کے ساتھ اللہ کا خصوصی معاملہ تھا
{ اذا بلغ عبدی خمسین سنۃ حاسبۃ حساباً یسیرا}ً
جب یہ میرا بندہ پچاس برس کا ہو جائے… میرے نبی کا کلمہ پڑھتا …تو میں پھر اس کا حساب آسان کر دیتا ہوں…
{واذابلغ ستین سنۃ حببت الیھم انایاً}
اور جب یہ ساٹھ برس کا ہوجائے …تو میں اسے اپنے محبت دینا شروع کر دیتا ہوں…
کہ اب تو میرے آنے کے قریب ہوگیا ہے … اب تو دنیا سے نکل … دکان میں بیٹھنا جائز نہیں ہے… اب تو نکل… حببت الیھم انایاً …اب تو ساٹھ برس کا ہوگیا… میری طرف کو آ… میں اپنی طرف رجوع دیتا ہوں…
…{واذا بلغ سبعین سنۃ احب اواھل السمآئ}…
جب ستر سال کو ہوجاتا ہے اللہ تعالیٰ کہتے ہیں پھر میں بھی اور میرے فرشتے بھی محبت کرتے ہیں کہ ستر برس کا بوڑھا ہوگیا ہے… داڑھی سفید ہوگئی ہے 
واذا بلغ ثمانین سنۃ…جب اسی برس کا ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{ابناء الثمانین استحمی ان اعبھم بالنار}…
اسی برس کے بوڑھے کو دوزخ کا عذاب دیتے ہوئے مجھے ویسے ہی شرم آتی ہے…
 اللہ اکبر میں کیسے عذاب دوں …کہ یہ بوڑھا ہوگیا … ہاں کتبت حسناتہ والقیت سیئاتہ …اللہ تعالیٰ کہتا ہے… بھائی اب اس کی نیکیاں ہی لکھتے رہو بس سٹھیا گیا… بوڑھا ہوگیا… فزوق ایک شاعر گزرا ہے … شاعر آزاد ہی ہوتے ہیں عام طور پر لیکن اس زمانے کا آزاد سے آزاد بھی آج بڑے قطب غو ث سے بھی اونچا درجہ رکھتاہے …
اللہ سے یاری لگا لو!
میرے دوستو بھائیو!… اللہ سے یاری کر لو… تبلیغ کا کام کسی جماعت کا کام نہیں ہے… تبلیغ کا کام اللہ سے یاری لگانے …اور دوستی جوڑنے کا کام ہے …اللہ سے دوستی جوڑ و… بتوں سے دوستی توڑو… آج دوکان بت بن گئی ہے… کاروبار بھی بت بن گیا ہے …تجارت بھی بت بن گئی…زراعت بت بن گئی… حکومت بھی بت بن گئی …قوم کی بھی بت بن گئی ہے …پیشہ بھی بت بن گیا ہے… سونا چاندی بھی بت بن چکے ہیں …ان سب سے ہٹ کر ابراہیم والا اعلان کرو…
…{انی وجھت وجھی للذی فطر السموات والارض حنیفا وما انا من المشرکین}…
 میں سب سے ہٹ گیا …سب کو چھوڑ دیا سب سے منہ موڑا اللہ کی طرف رخ کر دیا… 
سب پر تھوک دیا اللہ کی طرف چلا اللہ کی طرف کوئی چلے اللہ کہتا ہے …
من تقرب الی فلقیتہ من بعید… جو میری طرف چل کے آئے گا …
میں آگے بڑھ کر تمہارا استقبال کروں گا… 
…{من تقرب الی سیرا تقربت الیہ زراعا… من تقرب ای ذراعا تقربت الیہ باعاً من اتینی یمشی ایتیہ ھرولۃ}… 
تم میری طرف ایک بالشت آؤ… میں ایک ہاتھ آؤں گا… تم ایک ہاتھ آؤ میں دوہاتھ آؤں گا… تم چل کے آج میں دوڑ کے آؤں گا… تم آؤ تو صحیح میں انتظار کر رہا ہوں …
تمہاری نافرمانیوں کے باوجود تمہیں مہلت دے رہا ہوں… میرے فرشتے غصے میں ہیں آسمان اور زمین غصے میں ہیں …کہ اجازت ہو تو نافرمانوں کے سر قلم کر دیں… زمین پھٹ جائے… بادل گر پڑیں… ہوائیں چل پڑیں …کہ اڑا دیں پہاڑ بھی… چل پڑیں …کہ ریزہ ریزہ کردیں… لیکن وہ رحیم کریم ذات ہے انتظار میں ہے …کہ میرا بندہ کبھی بھی توبہ کر لے گا تو میں اس کی توبہ قبول کرلوں گا…
…{وآخر الدعوانا ان الحمداللہ رب العالمین}…


close