Roshan Worlds: Sony Ke Adab – Islamic Gathering

knowledge islamic quotes articles poims islamic education tips and tricks apps and games for pc android apps latest news for information technology

google Search

Showing posts with label Sony Ke Adab – Islamic Gathering. Show all posts
Showing posts with label Sony Ke Adab – Islamic Gathering. Show all posts

Saturday, May 16, 2020

hazrat+nizamuddin+auliya

May 16, 2020 0
hazrat+nizamuddin+auliya







حضرت نظام الدین اولیاءؒ اکثر ایک جملہ کہا کرتے تھے کہ
’’ہم سے تو دھوبی کا بیٹا ہی خوش نصیب نکلا، ہم سے تو اتنا بھی نہ ہو سکا‘‘۔ پھر غش کھا جاتے-
ایک دن ان کے مریدوں نے پوچھ لیا کہ حضرت یہ دھوبی کے بیٹے والا کیا ماجرا ہے؟
آپؒ نے فرمایا ایک دھوبی کے پاس محل سے کپڑ ے دھلنے آیا کرتے تھے اور وہ میاں بیوی کپڑ ے دھو کر پریس کر کے واپس محل پہنچا دیا کرتے تھے،
ان کا ایک بیٹا بھی تھا جو جوان ہوا تو کپڑ ے دھونے میں والدین کا ھاتھ بٹانے لگا،
کپڑ وں میں شہزادی کے کپڑ ے بھی تھے،
جن کو دھوتے دھوتے وہ شہزادی کے نادیدہ عشق میں مبتلا ہو گیا،
محبت کے اس جذبے کے جاگ جانے کے بعد اس کے اطوار تبدیل ہو گئے،
وہ شہزادی کے کپڑ ے الگ کرتا انہیں خوب اچھی طرح دھوتا،
انہیں استری کرنے کے بعد ایک خاص نرالے انداز میں تہہ کر کے رکھتا،
سلسلہ چلتا رہا آخر والدہ نے اس تبدیلی کو نوٹ کیا اور دھوبی کے کان میں کھسر پھسر کی کہ یہ تو لگتا ہے سارے خاندان کو مروائے گا،
یہ تو شہزادی کے عشق میں مبتلا ہو گیا ہے،
والد نے بیٹے کے کپڑ ے دھونے پر پابندی لگا دی، ادھر جب تک لڑکا محبت کے زیر اثر محبوب کی کوئی خدمت بجا لاتا تھا، محبت کا بخار نکلتا رہتا تھا،
مگر جب وہ اس خدمت سے ہٹایا گیا تو لڑکا بیمار پڑ گیا اور چند دن کے بعد فوت ہو گیا۔
ادھر کپڑوں کی دھلائی اور تہہ بندی کا انداز بدلا تو شہزادی نے دھوبن کو بلا بھیجا اور اس سے پوچھا کہ میرے کپڑے کون دھوتا ہے؟
دھوبن نے جواب دیا کہ شہزادی عالیہ میں دھوتی ہوں،
شہزادی نے کہا پہلے کون دھوتا تھا؟
دھوبن نے کہا کہ میں ہی دھوتی تھی،
شہزادی نے اسے کہا کہ یہ کپڑا تہہ کرو،
اب دھوبن سے ویسے تہہ نہیں ہوتا تھا،
شہزادی نے اسے ڈانٹا کہ تم جھوٹ بولتی ہو،
سچ سچ بتاؤ ورنہ سزا ملے گی،
دھوبن کے سامنے کوئی دوسرا رستہ بھی نہیں تھا کچھ دل بھی غم سے بھرا ہوا تھا،
وہ زار و قطار رونے لگ گئی،
اور سارا ماجرا شہزادی سے کہہ دیا،
شہزادی یہ سب کچھ سن کر سناٹے میں آ گئی۔
پھر اس نے سواری تیار کرنے کا حکم دیا اور شاہی بگھی میں سوار ہو کر پھولوں کا ٹوکرا بھر کر لائی اور مقتول محبت کی قبر پر سارے پھول چڑھا دیے، زندگی بھر اس کا یہ معمول رہا کہ وہ اس دھوبی کے بچے کی برسی پر اس کی قبر پر پھول چڑ ھانے ضرور آتی۔
یہ بات سنانے کے بعد حضرت کہتے،
اگر ایک انسان سے بن دیکھے محبت ہوسکتی ہے تو بھلا اللہ سے بن دیکھے محبت کیوں نہیں ہو سکتی؟
ایک انسان سے محبت اگر انسان کے مزاج میں تبدیلی لا سکتی ہے اور وہ اپنی پوری صلاحیت اور محبت اس کے کپڑ ے دھونے میں بروئےکار لا سکتا ہے تو کیا ہم لوگ اللہ سے اپنی محبت کو اس کی نماز پڑھنے میں اسی طرح دل وجان سے نہیں استعمال کر سکتے؟
مگر ہم بوجھ اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگر شہزادی محبت سے تہہ شدہ کپڑوں کے انداز کو پہچان سکتی ہے تو کیا رب کریم بھی محبت سے پڑھی گئی نماز اور پیچھا چھڑانے والی نماز کو سمجھنے سے عاجز ہے؟
حضرت نظام الدین اولیاءؒ پھر فرماتے وہ دھوبی کا بچہ اس وجہ سے کامیاب ہے کہ اس کی محبت کو قبول کر لیا گیا جبکہ ہمارے انجام کا کوئی پتہ نہیں قبول ہوگی یا منہ پر ماردی جائے گی،
اللہ جس طرح ایمان اور نماز روزے کا مطالبہ کرتا ہے اسی طرح محبت کا تقاضا بھی کرتا ہے،
یہ کوئی مستحب نہیں فرض ہے!
مگر ہم غافل ہیں ۔
پھر فرماتے اللہ کی قسم اگر یہ نمازیں نہ ہوتیں تو اللہ سے محبت کرنے والوں کے دل اسی طرح پھٹ جاتے جس طرح دھوبی کے بچے کا دل پھٹ گیا تھا،
یہ ساری ساری رات کی نماز ایسے ہی نہیں پڑھی جاتی کوئی جذبہ کھڑا رکھتا ہے،
فرماتے یہ نسخہ
اللہ پاک نے اپنے نبی ﷺ کے دل کی حالت دیکھ کر بتایا تھا کہ آپ نماز پڑھا کیجئے اور رات بھر ہماری باتیں دہراتے رھا کیجئے آرام ملتا رہے گا، اسی وجہ سے نماز کے وقت آپ فرماتے تھے
’’أرحنا بها يابلال۔ اے بلال ہمارے سینے میں ٹھنڈک ڈال دے .

Wednesday, April 17, 2019

Sonay Jagnay Kay Adaab

April 17, 2019 0
Sonay Jagnay Kay Adaab





 نیند سے جاگنے کے متعلق ہدایات اورسنتیں


الحمدﷲرب العالمین والصلاۃ والسلام علی رحمۃللعالمین وعلی اٰلہ وأصحابہ أجمعین ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین۔
عن حذیفۃ قال کان رسول اﷲ ا اذا اخذ مضجعہ من اللیل وضع یدہ تحت خدہ ثم یقول اللھم باسمک اموت وأحیا وإذاأستیقظ یقول الحمد ﷲالذی احیانا بعد ماأماتناوالیہ النشور۔
حضرت حذیفہ رضی اﷲعنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرم ا جب رات میں اپنے بستر پر تشریف لاتے اور سونے کے لیئے لیٹتے تو اپنا ہاتھ ( دا ہنی ہتھیلی) اپنے (دائیں) گال کے نیچے رکھتے اور یہ فرماتے اللھم باسمک أموت واحیی (اے اﷲ!میںتیرے ہی نام پر مرتا (یعنی سوتا) ہوں اور تیرے ہی نام پر زندہ ہوتا (یعنی جاگتا) ہوں اور جب آپ ا نیند سے بیدار ہوتے تو یہ فر ماتے الحمدﷲ الذی احیانا بعد مااماتنا وإلیہ النشور…سب تعریفیں اﷲ ہی کے لئے ہیں جس نے زندہ کیا ہم کو مرنے کے بعد (یعنی نیند سے بیدار کیا) اور اسی کی طرف لوٹناہے ۔
اس حدیث شریف میں نبی کریم ا کے سونے اور سوکر اٹھنے کے وقت کی دعاؤں کاذکر ہے۔ لہٰذا سب سے پہلے سوکر اٹھنے کے بعد کی سنتیں نقل کی جائیں گی ۔ حدیث شریف کا پہلا حصہ جس میں آپ ا کے سونے کے وقت کی دعاکا ذکر ہے اسے آخر میں نقل کیاجائے گا۔

نیند موت کی مانند ہے 

انسان جب سوتا ہے تو گویاوہ مردے ہی کے حکم میں ہوتاہے ،کیونکہ حق تعالیٰ شانہ اس کی روح عارضی طورپر قبض کرلیتا ہے پھر اس کے بعد اسکی روح اس کے جسم میں واپس بھیج دیتا ہے یعنی نیند سے بیدار کردیتاہے یا اس کی روح کو رکھ چھوڑ تاہے یعنی قبض کرلیتاہے ۔ 
اسی کے متعلق قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ،فرمایا:{اﷲیتوفی الأنفس حین  مو تھاوالتی لم تمت فی منامھافیمسک التی قضی علیھا الموت ویرسل الأخری إلی أجل مسمی إن فی ذلک لآیت لقوم یتفکرون} (۱)اﷲ کھینچ لیتاہے جانیں جب وقت ہو ان کے مرنے کا اور جو نہیں مریں ان کو کھینچ لیتا ہے ان کی نیندمیں پھر رکھ چھوڑتاہے جن پر مرنا ٹھیرادیاہے اور بھیج دیتاہے اور وں کو ایک وعدہ ٔمقرر ہ تک اس بات میں نشانیاں ہیںان لوگوں کیلئے جو دھیان کرتے ہیں۔
 اس آیت میں حق تعالیٰ شانہ نے یہ فرمایاہے کہ جانداروں کی ارواح ہر حال اور ہر وقت میں اﷲ تعالیٰ کے زیر تصرف ہیں جب چاہیں ان کو قبض کرسکتے ہیں اور اس تصرفِ باری تعالیٰ کا ایک مظاہرہ تو ہر جاندار روزانہ دیکھتا اور محسوس کرتاہے کہ نیند کے وقت اس کی روح ایک حیثیت سے قبض ہوجاتی ہے پھر بیداری کے بعدواپس مل جاتی ہے اور آخر کار ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ بالکل قبض ہوجائے گی واپس نہ ملے گی۔
تفسیر مظہری میں ہے کہ قبض روح کے معنی اس کا تعلق بدنِ انسانی سے قطع کردینے کے ہیں۔ کبھی یہ ظاہراً وباطناً بالکل منقطع کردیاجاتاہے اس کا نام موت ہے اور کبھی صرف ظاہراً منقطع کیاجاتاہے باطناً باقی رہتاہے جس کا اثر یہ ہوتاہے کہ صرف حس اور حرکت ارادیہ جو ظاہری علامت زندگی ہے وہ منقطع کردی جاتی ہے اور باطناً روح کاتعلق باقی رہتا ہے جس سے وہ سانس لیتاہے اور زندہ رہتاہے اور صورت اس کی یہ ہوتی ہے کہ روح انسانی کو جو عالم مثال کے مطالعہ کی طرف متوجہ کرکے اس موجودہ عالم سے غافل اور معطل کردیاجاتاہے تاکہ انسان مکمل آرام پاسکے اورکبھی یہ باطنی تعلق بھی منقطع کر دیاجاتاہے جس کی وجہ سے جسم کی حیات بالکل ختم ہوجاتی ہے 
 ان گزارشات سے معلوم ہواکہ نیند بھی موت کا ایک حصہ ہے جس کو حدیث شریف میں موت کی بہن کہاگیاہے ،جب بھی آدمی بیدار ہو تو اسے چاہیے کہ اﷲ رب العزت کی حمدوثناء کرتے ہوئے نئے دن کی زندگی کا آغاز کرے اور یہی سنت رسول ہے ۔ حدیث بالاکے دوسرے حصے میں فرمایاجب رسول اﷲا نیند سے بیدار ہوتے تویہ فرماتے الحمدﷲالذی أحیانا بعد ما أماتناوإلیہ النشور ترجمہ:…سب تعریفیں اﷲ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں جس نے زندہ کیا ہم کومرنے کے بعد اورہم سب کو اسی کی طرف رجوع ہونا ہے .

نیند سے بیدار ہونے کے بعد کی سنتیں

-1 نیند سے اٹھتے ہی دونوں ہاتھوں سے چہرے اورآنکھوں کو ملنا،تاکہ نیند کا خمار دور ہوجائے ۔
-2 جاگنے کے بعدیہ دعا پڑھنا :الحمدﷲالذی أحیانا بعد ماأماتناوإلیہ النشور۔
-3 سوکراٹھنے کے بعد مسواک کرنا۔
4 - وضو میں دوبارہ مسواک کی جائے گی سوکر اٹھتے ہی مسواک کرلینا علیحدہ سنت ہے
-5 کوئی بھی لباس زیب تن کریں تو پہلے دائیں طرف سے شروع کریں پھر بائیں طرف پرختم کریں اور ایسے ہی جوتا بھی پہلے دائیں پاؤں میں پھر بائیں پاؤں میں پہنیںاور جب اتاریں تو پہلے بائیں پاؤں سے اتاریں بدن پر کسی بھی چیز کے پہننے اور اتارنے کا یہی مسنون طریقہ ہے ۔
.6 آپ ا نے فرمایا کہ: جو شخص رات کو بیدار ہوتو یہ تسبیح پڑھے :لاالہ الااﷲ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر۔ سبحان اﷲ والحمد ﷲولاالہ الااﷲ واﷲاکبر ولاحول ولاقوۃ الاباﷲ۔ اور اس کے بعدیہ کہے رب غفرلی ( راوی کہتے ہیں یا یہ فرمایا کہ پھر (کوئی بھی )دعا کرے اس کی دعا قبول کی جائے گی)اور پھر وضو کرے اور نماز پڑھے تو اس کی نماز قبول کی جائے گی ۔
سونے کے بعد جاگنا نصیب ہو تو کیا ہی اچھاہے کہ ہم اس جاگنے کو سنت کے مطابق ڈھال لیں تاکہ ہمارے لئے آخرت کا ذخیرہ جمع ہوتا رہے اور جب ہمارا جاگنا سنت کے مطابق ہوگا تو رب العالمین کی ذات عالی سے امید ہے کہ ہمیں دن بھر بھی دیگر سنتوں پر عمل کرنے اور یہو د وہنو د کے غلط طریقوں سے بچنے کی توفیق نصیب ہوگی ۔اﷲ رب العزت ہم سب کو ان سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین




close