Roshan Worlds: The story of Prophet Loot

knowledge islamic quotes articles poims islamic education tips and tricks apps and games for pc android apps latest news for information technology

google Search

Showing posts with label The story of Prophet Loot. Show all posts
Showing posts with label The story of Prophet Loot. Show all posts

Thursday, May 21, 2020

laylatul-Qadr+the+night+of+decree

May 21, 2020 0
laylatul-Qadr+the+night+of+decree







بسم الله الرحمن الرحيم
لیلۃ القدر یا شب قدر
لیلۃ القدر کا معنی قدر اور تعظیم والی رات ہے یعنی ان خصوصیات اور فضیلتوں  کی بنا پر یہ قدر والی رات ہے یا پھر یہ معنی ہے کہ جو بھی اس رات بیدار ہو کر عبادت کرے گا وہ قدر و شان والا ہوگا۔ اس رات کو شرف حاصل ہوا ہے کیونکہ اس میں نزول قرآن ہوا ہے، قرآن مجید کتابوں میں عظمت و شرف والی کتاب ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر یہ کتاب نازل ہوئی وہ تمام انبیا پر عظمت و شرف رکھتے ہے۔ اس کتاب کو لانے والے جبریل بھی سب فرشتوں پر عظمت و شرف رکھتے ہیں تو یہ رات لیلۃ القدر بن گئی۔
لیلۃ القدر یا شب قدرماہ  رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں (اکیسویں، تئیسویں، پچیسویں، ستائسویں اور انتیسویں) میں سے ایک رات جس کے بارے میں قرآن کریم میں سورہ قدر کے نام سے ایک سورت بھی نازل ہوئی ہے۔ اس رات میں عبادت کرنے کی بہت فضیلت اور تاکید آئی ہے۔ قرآن مجید میں اس رات کی عبادت کو ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا گیا ہے۔ اس حساب سے اس رات کی عبادت 83 سال اور 4 مہینے بنتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے ایک ہزار مہینے تک اللہ کے راستے میں جہاد کیا، صحابہ کو رشک آیا تو اللہ نے اس کے بدلے میں یہ رات عطا فرمائی۔ بعض روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پہلی امتوں کی عمروں کو دیکھا کہ بہت زیادہ ہوئی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت کی عمریں کم ہیں اگر وہ نیک اعمال میں ان کی برابری کرنا چاہیں تو ناممکن ہے تو اس پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رنج ہوا تو اللہ نے اس کے بدلے میں یہ رات عطا فرمائی۔
اللہ تعالی چند فرشتوں یعنی محرر فرشتوں کو آئندہ سال میں ہونے والے واقعات کے بارے میں مطلع فرما دیتا ہے اور انہیں لوح محفوظ سے لکھنے کا حکم دیتا ہے۔ اس کے علاوہ مزید تفصیلات کہ کس فرشتے کو کون سا نسخہ تھمایا جاتا ہے اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ واللہ اعلم.
فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ * فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ
ترجمہ: بیشک ہم نے اس [قرآن ]کو بابرکت رات میں اتارا ہے، بیشک ہم ہی ڈرانے والے ہیں، [3] اس رات میں ہر حکمت بھرے معاملے کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔[الدخان:  3- 4] مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی محرر فرشتوں کو لوح محفوظ میں سے آئندہ ایک سال کے معاملات لکھنے کا حکم دیتا ہے، یہ بات کچھ سلف صالحین سے بھی منقول ہے، اور مفسرین نے بھی اسے نقل کیا ہے۔
ابن ابی حاتم رحمہ اللہ اپنی تفسیر: (18527) میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ آیت: (فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ) کا مطلب یہ ہے کہ: "لیلۃ القدر کی رات لوح محفوظ  میں سے آئندہ سال  کے امور لکھ لیے جاتے ہیں جس میں رزق، اموات، ولادت، بارش وغیرہ سمیت تمام امور ہوتے ہیں حتی کہ یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ اس سال فلاں فلاں شخص حج کریگا"
اسی طرح امام حاکم رحمہ اللہ حدیث نمبر: (3678) میں  روایت کر کے اسے صحیح بھی کہتے ہیں کہ: ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: "تمہیں کوئی شخص بازاروں میں گھومتا پھرتا نظر آئے گا حالانکہ اس کا نام مرنے والوں میں لکھا جا چکا ہے، پھر آپ نے یہ آیات پڑھیں: ( إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ * فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ ) یعنی: لیلۃ القدر میں آئندہ لیلۃ القدر تک دنیاوی امور کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے"
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ لوح محفوظ سے آئندہ ایک سال تک کے معاملات محرر فرشتوں کے سپرد کر دیے جاتے ہیں، اس میں واقع ہونے والی اموات اور دیے جانے والے رزق کی وغیرہ ہر چیز کی تفصیلات دے دی جاتی ہیں، اس آیت کا یہی مفہوم ابن عمر ، ابو مالک، مجاہد، ضحاک اور دیگر متعدد سلف صالحین سے منقول ہے، اس آیت میں " حَكِيمٍ " کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ معاملات محکم  ہیں ان میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آ سکتی" انتہی
ماخوذ از: تفسیر ابن کثیر: (7/246) اسی سے ملتی جلتی بات الطاہر ابن عاشور نے "التحرير والتنوير" (6/422) شیخ ابن عثیمین رحمہم اللہ  نے اپنے "فتاوی" (20/344) میں بھی لکھی ہے۔
دوم:
غیب کے معاملات اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا، فرمانِ باری تعالی ہے:
 قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ
ترجمہ: آپ کہہ دیں: آسمانوں اور زمین میں اللہ کے سوا غیب جاننے والا کوئی نہیں ہے، ان [دیگروں] کو تو اپنے دوبارہ اٹھائے جانے کا ہی علم نہیں ہے![النمل:65]
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں :

"اللہ تعالی اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتے ہوئے فرما رہا ہے کہ: تمام مخلوقات کو سکھانے کیلیے بتلا دیں کہ: اللہ کے سوا کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا؛ کیونکہ غیب کا علم اللہ تعالی کی امتیازی صفت ہے، اس میں اللہ تعالی کا کوئی شریک نہیں " انتہی
"تفسیر ابن کثیر" (6 /207)
البتہ اتنا ہے کہ اللہ تعالی اپنی مخلوقات میں سے جسے چاہے غیب کی کچھ چیزوں پر مطلع فرما دے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا [26] إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا )
ترجمہ: وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو آگاہ نہیں کرتا  [26] سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کر لے لیکن اس کے بھی آگے پیچھے پہرے دار مقرر کر دیتا ہے [الجن:26-27]
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"غیبی چیزوں کے بارے میں علم رکھنا صرف اللہ تعالی کا خاصہ ہے، چنانچہ غیبی چیزوں کو اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا، چاہے کوئی جن ہو یا انسان، البتہ اللہ تعالی جسے  چاہے کسی فرشتے یا نبی کو وحی کر کے بتلا سکتا ہے" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (1 /346)
پورے سال میں رونما ہونے والے معاملات کا محرر فرشتوں کی جانب سے لکھنا  اس بات کا شاہد ہے کہ اللہ تعالی محرر فرشتوں کو آئندہ سال میں ہونے والے معاملات سے متعلق مطلع فرما دیتا ہے اور انہیں لوح محفوظ سے تفصیلات لکھنے کا حکم دیتا ہے۔

نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"لیلۃ القدر  کی وجہ تسمیہ یہ ہے  کہ فرشتے اس رات میں اموات اور رزق سمیت دیگر تمام ایسے امور جو آئندہ سال میں رونما ہونے ہیں ان سب کو لکھ لیتے ہیں، جیسے کہ اللہ تعالی کے فرمان میں واضح ہے:
(فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ )
ترجمہ: اس رات میں ہر حکمت بھرے معاملے کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔[الدخان:  4]
اسی طرح :
تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ
ترجمہ: روح اور فرشتے اس رات اپنے پروردگار کی اجازت سے ہر حکم لے کر نازل  ہوتے ہیں [القدر : 4] مطلب یہ ہے کہ آئندہ سال میں جو کچھ بھی ہونے والا ہے وہ فرشتوں کیلیے عیاں کر دیا جاتا ہے اور پھر ہر فرشتے کی ذمہ داری کے مطابق اسے کام کرنے کا حکم دیا جاتا ہے، نیز یہ سب معاملات اللہ تعالی کے علم اور تقدیر میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں" انتہی
"شرح مسلم" از نووی رحمہ اللہ:  (8/ 57)
سوم:کچھ علمائے کرام نے یہ ذکر کیا ہے کہ جب فرشتے آئندہ سال میں ہونے والے معاملات لکھ لیتے ہیں تو اللہ تعالی انہیں حکم دیتا ہے کہ ہر فرشتے کو اس کے متعلقہ امور تحریری شکل میں سپرد کر دیے جائیں ، تاہم انہوں نے اس کی کوئی دلیل ذکر نہیں کی۔
جیسے کہ شیخ محمد الامین شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس آیت کی مزید وضاحت یہ ہے کہ: اللہ تعالی ہر سال لیلۃ القدر  میں فرشتوں کیلیے آئندہ لیلۃ القدر تک کے تمام معاملات واضح کر دیتا ہے نیز فرشتوں کو یہ تمام امور تحریری شکل میں دے دیے جاتے ہیں۔
اس تحریر میں اموات، رزق، ناداری و مالداری، خشک سالی  و بارشیں، صحت و بیماری، جنگیں اور زلزلے الغرض آئندہ سال میں کچھ بھی ہونے والا ہے سب کچھ واضح کر دیا جاتا ہے۔
زمخشری اپنی تفسیر "الکشاف" میں کہتے ہیں:
" يُفْرَقُ" کا معنی ہے تفصیل سے لکھ دیا جاتا ہے، " كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ" سے مراد  یہ ہے کہ لوگوں کا رزق، اموات، اور آئندہ لیلۃ القدر تک جو بھی امور ہیں سب تحریر کر دیے جاتے ہیں۔

آگے چل کر انہوں نے لکھا کہ: رزق کے متعلق صحیفوں کا نسخہ میکائیل کو دے دیا جاتا ہے، جنگوں، زلزلوں، بجلی گرجنے اور دھنسائے جانے  سے متعلق نسخہ جبرائیل کو دے دیا جاتا ہے، اسی طرح اعمال کا نسخہ اسماعیل کو جو کہ آسمانِ دنیا  کا ذمہ دار ہے، وہ بہت بڑا فرشتہ ہے، مصیبتوں کا نسخہ ملک الموت کے سپرد کر دیا جاتا ہے"
ہمارا مقصد آیت کا مطلب واضح کرنا ہے مذکورہ فرشتوں کو تھمائے جانے والے نسخوں کی صحیح معلومات دینا مقصد نہیں ہے؛ کیونکہ ہمارے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے" انتہی ماخوذ از: "أضواء البيان" (7/271).

لیلۃ القدر کے اعمال
اول :نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں بہت زيادہ عبادت کیا کرتے تھے ، اس میں نماز ، اورقرات قرآن اوردعا وغیرہ جیسے اعمال بہت ہی زيادہ بجالاتے تھے ۔
امام بخاری اورمسلم رحمہم اللہ نے اپنی کتاب میں عائشۃ رضي اللہ تعالی عنہا سے بیان کیا ہے کہ :
( جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو بیدار ہوتے اوراپنے گھروالوں کو بھی بیدار کرتے اورکمر کس لیتے تھے )
اورمسند احمد اورمسلم شریف میں ہے کہ :
( رمضان کے آخری عشرہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنی زیادہ کوشش کیا کرتے تھے جوکسی اورایام میں نہيں کرتے تھے ) ۔
دوم :نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لیلۃ القدر میں اجروثواب حاصل کرنے کے لیے قیام کرنے پر ابھارا کرتے تھے ۔
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جو بھی لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ اجروثواب کی نیت سے قیام کرے اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں ) متفق علیہ ۔
یہ حدیث لیلۃ القدر میں قیام کی مشروعیت پر دلالت کررہی ہے ۔
سوم :لیلۃ القدر میں سب سے بہتر اوراچھی دعا وہی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ نے سکھائي ہے ۔
امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بیان کرتے ہیں کہ وہ کہتی ہیں میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا :
اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بتائيں کہ اگر مجھے لیلۃ القدر کا علم ہوجائے تومجھے اس میں کیا کہنا چاہیۓ ؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
تم یہ کہنا :
اللهم إنك عفو تحب العفو فاعف عني
اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے اورمعاف کرنا پسند فرماتا ہے لھذا مجھے معاف کردے ۔
چہارم :رہا مسئلہ رمضان میں لیلۃ القدر کی تخصیص اورتحدید کا تویہ دلیل کا محتاج ہے جس میں اس کی تحدید کی گئي ہو ، لیکن یہ ہے کہ رمضان کا آخری عشرہ میں اورپھر اس کے تاک راتوں اورستائسویں رات بھی ہوسکتی ہے اس پر احادیث دلالت کرتی ہیں ، ایک حدیث میں ہے کہ اسے آخری دس دنوں میں تلاش کرو ، لھذا اس کی تحدید نہیں ہوسکتی اتنا ہے کہ یہ آخری دس دنوں میں ہی گھومتی رہتی ہے ۔
پنجم :بدعت تورمضان کے علاوہ کسی اورمہینہ میں جائز نہیں توپھر رمضان کے مبارک ایام میں یہ کیسے جائز ہوسکتی ہے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا :
( جس نے بھی ہمارے اس دین میں کوئي نئی چيز پیدا کرلی جس پر ہمارا حکم نہ ہو تو وہ مردود ہے )
اورایک روایت میں کچھ اس طرح ہے :
( جس نے بھی کوئي ایسا عمل کیا جس پرہمارا حکم نہ ہو وہ مردود ہے )
توآج کل جورمضان کی بعض راتوں میں محفلیں منعقد کی جاتی ہیں ہمیں تو اس کی کوئي دلیل نہیں ملتی ، اورسب سے بہتر اور اچھا و احسن طریقہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اورسنت ہی ہے اورسب سے برا طریقہ بدعات کی ایجاد اوراس پرعمل ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی ہی صحیح اعمال کی توفیق بخشنے والا ہے ۔ .دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 10 / 413 )

Sunday, May 10, 2020

fazail+e+sahaba

May 10, 2020 0
fazail+e+sahaba



عدالت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین
علامہ، محدث، مفسر امام اھل السنۃ محمد بن احمد بن ابی بکر الانصاری القرطبی۔ رحمہ اللہ مندرجہ ذیل آیت کی تفسیر میں عدالت صحابہ کے حوالے سے خوبصورت ترین بحث فرماتے ہیں۔*
*مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ تَرٰىہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانًا ۫ سِیۡمَاہُمۡ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ ؕ ذٰلِکَ مَثَلُہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ ۚ ۖ ۛ وَ مَثَلُہُمۡ فِی الۡاِنۡجِیۡلِ ۚ ۟ ۛ کَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطۡئَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰی عَلٰی سُوۡقِہٖ یُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیۡظَ بِہِمُ الۡکُفَّارَ ؕ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡہُمۡ مَّغۡفِرَۃً وَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿29 الفتح)*
*محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں* *کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں تو انہیں دیکھے گا رکوع اور سجدے کر رہے ہیں کہ اللہ تعالٰی کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں ، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے ہے ، ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے مثل اس کھیتی کے جس نے اپنا انکھوا نکالا پھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹا ہوگیا پھر اپنے تنے پر سیدھا کھڑا ہوگیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگا تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے، ان ایمان والوں اور نیک اعمال والوں سے اللہ نے بخشش کا اور بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔*
*وضاحت: اس آیت سے تمام صحابہ کی عبادت وغیرہ کو مثالی کہا گیا ہے اور ان دلوں کی سچائی بیان کی گئی ہے کہ ان کا مقصد حیات رب العالمین کی رضامندی کی تلاش ہےاور بفضل اللہ معاویہ رضی اللہ عنہ اس لسٹ میں داخل ہیں۔*
*امام قرطبي رحمه الله اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:*
*قُلْتُ: فَالصَّحَابَةُ كُلُّهُمْ عُدُولٌ، أَوْلِيَاءُ اللَّهِ تَعَالَى وَأَصْفِيَاؤُهُ، وَخِيَرَتُهُ مِنْ خَلْقِهِ بَعْدَ أَنْبِيَائِهِ وَرُسُلِهِ. هَذَا مَذْهَبُ أَهْلِ السُّنَّةِ، وَالَّذِي عَلَيْهِ الْجَمَاعَةُ مِنْ أَئِمَّةِ هَذِهِ الْأُمَّةِ. وَقَدْ ذَهَبَتْ شِرْذِمَةٌ لَا مُبَالَاةَ بِهِمْ إِلَى أَنَّ حَالَ الصَّحَابَةِ كَحَالِ غَيْرِهِمْ، فَيَلْزَمُ الْبَحْثُ عَنْ عَدَالَتِهِمْ. صحابہ سارے کے سارے عادل ہیں اللہ کے ولی ہیں اور اس کے چنے ہوئے ہیں اور اللہ کی مخلوق میں انبیاء اور رسولوں کے بعد سب سے اعلی انسان ہیں، یہ اہل سنت والجماعت کا مذھب ہے اور اسی مذہب پر اس امت کے ائمہ کی جماعت تھی اور ایک چھوٹا سا گروہ جن کی کوئی پرواہ نہیں ( انکا کوئی شمار نہیں) اس موقف کی طرف گیا ہے کہ صحابہ کا حال بھی بعد والے افراد کی طرح ہے لہذا ان کی عدالت کے بارے میں تحقیق کی جائے گی.*

*آگے فرماتے ہیں:*
*وَمِنْهُمْ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ حَالِهِمْ فِي بُدَاءَةِ الْأَمْرِ فَقَالَ: إِنَّهُمْ كَانُوا عَلَى الْعَدَالَةِ إِذْ ذَاكَ، ثُمَّ تَغَيَّرَتْ بِهِمُ الْأَحْوَالُ فَظَهَرَتْ فِيهِمُ الْحُرُوبُ وَسَفْكُ الدِّمَاءِ، فَلَا بُدَّ مِنَ الْبَحْثِ. وَهَذَا مَرْدُودٌ، فَإِنَّ خِيَارَ الصَّحَابَةِ وَفُضَلَاءَهُمْ كَعَلِيٍّ وَطَلْحَةَ وَالزُّبَيْرِ وَغَيْرِهِمْ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ مِمَّنْ أَثْنَى اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَزَكَّاهُمْ وَرَضِيَ عَنْهُمْ وَأَرْضَاهُمْ وَوَعَدَهُمُ الْجَنَّةَ بِقَوْلِهِ تَعَالَى "مَغْفِرَةً وَأَجْراً عَظِيماً". وَخَاصَّةً الْعَشَرَةَ الْمَقْطُوعُ لَهُمْ بِالْجَنَّةِ بِإِخْبَارِ الرَّسُولِ هُمُ الْقُدْوَةُ مَعَ عِلْمِهِمْ بِكَثِيرٍ مِنَ الْفِتَنِ وَالْأُمُورِ الْجَارِيَةِ عَلَيْهِمْ بَعْدَ نَبِيِّهِمْ بِإِخْبَارِهِ لَهُمْ بِذَلِكَ. وَذَلِكَ غَيْرُ مُسْقِطٍ مِنْ مَرْتَبَتِهِمْ وَفَضْلِهِمْ، إِذْ كَانَتْ تِلْكَ الْأُمُورُ مَبْنِيَّةً عَلَى الِاجْتِهَادِ، وَكُلُّ مُجْتَهِدٍ مُصِيبٌ.*
*اور کچھ افراد نے صحابہ کے بیچ میں فرق کیا ہے ان کے ابتدائی معاملے کے اعتبار سے ان کا کہنا ہے :وہ پہلے عدالت پر تھے پھر ان کے احوال تبدیل ہوگئے اور ان کے بیج جنگیں ظاہر ہوگئی اور خون بہا لہذا ضروری ہے کہ تحقیق کی جائے لیکن یہ موقف مردود ہے بےشک افضل ترین اور اخیر ترین صحابہ جیسے علی،* *طلحہ ، زبیر رضی اللہ عنھم اجمعین اور دیگر صحابہ جن کی اللہ نے ثنا بیان کی ہے اور ان کو پاک فرمایا ہے اور ان کے لئے رضامندی کا فیصلہ کیا اور ان کے لیے جنت کا فیصلہ کیا ہے۔ اس آیت کے اندر ( اللہ نے ان کے لیے بخشش اور بڑا اجر تیار کر رکھا ہے) اور خاص طور پر دس یقینی جنتی صحابہ ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں خبر دی کہ وہ نمونہ ہیں۔ ساتھ ( میں یہ بات ذہن نشین کریں کہ) وہ ( صحابہ) بہت زیادہ علم رکھتے تھے فتنوں کے بارے میں اور نبی علیہ الصلوۃ وسلام کے بعد واقعہ پزیر ہونے والے معاملات کے بارے میں، کیونکہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے انہیں یہ خبر دی تھی۔*
*تو یہ (جنگیں وغیرہ) انہیں انکی فضیلت اور مترتبت میں ذرہ برابر کمی نہیں کر سکتی یہ سارے امور ان کے اجتہاد پر مبنی تھےاور ہر مجتہد مصیب ہی ہوتا ہے۔*


Sunday, June 9, 2019

Prophet+Lut+(pbuh)

June 09, 2019 0
Prophet+Lut+(pbuh)

Related image

Image result for prophet lut story

  حضرت لوط علیہ السلام


قوم: قومِ لوط

گناہ: بے حیائی

عذاب: پتھروں کی بارش


آپ کا نام و نسب یہ ہے، "لوط بن ہاران بن آزر" 

آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔ قرآن میں آپکا ذکر سترہ (17) مرتبہ آیا ہے۔ آپ اپنے چچا ابراہیم علیہ السلام کے حکم سے "سدوم" جا کر آباد ہوگئے تھے۔ اس شہر کی متعدد بستیاں تھیں جو کہ شام اور حجاز کے درمیان تھیں۔ انہیں "م٘وتفکات" کہتے ہیں۔

ان بستیوں کے لوگ انتہائی بدکردار تھے۔ راہ چلتے لوگوں کو لوٹتے، اور ہر گناہ کا کام کھلے عام کرتے۔
انہوں نے ایک ایسی بدکرداری ایجاد کرلی تھی جو اس سے پہلے کسی نے نہیں کی تھی، یہ مرد مرد آپس میں بدفعلی کرتے۔ اللّٰہ نے ان کے گھناؤنے افعال کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے۔

"اور (اس طرح جب ہم نے لوط علیہ السلام کو پیغمبر بنا کر بھیجا) اسوقت انہوں نے اپنی قوم سے کہا تم ایسی بے حیائی کے کام کیوں کرتے ہو کہ تم سے پہلے سارے عالم میں ایسے بے حیائی کے کام کسی نے نہیں کیے۔" (الاعراف: 80)

اور فرمایا:

"اور مسافروں کو لوٹتے ہو اور اپنی مجلسوں میں بُرے بُرے کام کرتے ہو۔" (العنکبوت: 29)

یہ لوگ اپنی محفلوں میں ہر برا کام کرتے اور کسی کا لحاظ نہ کرتے۔ حضرت لوط علیہ السلام نے انکو اللّٰہ کا پیغام پہنچانے کی بہت کوشش کی، انکو غلط کاموں سے روکا، انکو سمجھایا لیکن یہ الٹا کہتے٬
"اے لوط! سچے ہو تو ہم پہ خدا کا عذاب لے آؤ۔" (العنکبوت: 29) اور آپس میں یہ طے کیا کہ چونکہ لوط علیہ السلام پاکیزہ رہنا چاہتے ہیں تو انکو بستی سے نکال دو۔
لوط علیہ السلام نے انکی سرکشی کے مقابلے میں اللّٰہ سے دعا کی:

" اے اللّٰہ! مجھے شریر لوگوں کے خلاف فتح دے۔"

قومِ لوط کی ہلاکت و بربادی:


جب اس قوم کی سرکشی اور بے حیائی عروج پر پہنچ گئی تو اللّہ تعالیٰ نے انکو عذاب دینے کے لیے خوبصورت فرشتوں کو بھیجا تاکہ انکی برائی پر شہادت قائم ہوکر انکی ہلاکت پر مہر لگ جائے۔
اللّٰہ تعالیٰ نے جبرئیل، میکائیل اور اسرافیل کو حکم دیا کہ وہ لوط علیہ السلام کی دعا پر انکی بستی جائیں لیکن پہلے ابراہیم علیہ السلام سے ملتے ہوئے جائیں۔ چناچہ فرشتے انکے گھر مہمان بن کر خوبصورت نوجوان لڑکوں کے روپ میں  اترے،  حضرت ابراہیم علیہ السلام آپکی خاطر تواضع کے لیے ایک موٹا سا بچھڑا بھون لائے، مگر وہ فرشتے تھے اسلئے کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا، تو ابراہیم علیہ السلام گھبرا گئے،اور پوچھا "کہ آپ کھاتے کیوں نہیں؟ تو انہوں نے اپنی حقیقت اور آنے کی وجہ بتادی۔ ابراہیم علیہ السلام نے کہا٬ "بھلا تم اس بستی کو کیونکر ہلاک کر سکتے ہو، وہاں تول چار سو مومن بھی ہیں؟" فرشتے بولے، "نہیں". 
کہا "تین سو؟"
بولے، "نہیں"
"دو سو؟"
بولے، "نہیں"
"سو؟"
بولے، "نہیں"
"چالیس؟"
بولے، "نہیں"
"چودہ؟"
بولے، "نہیں"
دراصل وہ تیرہ مومن تھے۔ آپ نے حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کو شمار کرکے چودہ کہا تھا۔ پھر فرشتے بولے۔ " جو لوگ وہاں رہتے ہیں، ہمیں سب معلوم ہے، ہم انکو اور ان کے گھر والوں کو بچا لیں گے، سوائے انکی بیوی کے وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔" (العنکبوت: 32)
پھر فرشتے"شہرِ سدوم" کی بستیوں میں پہنچے لوط علیہ السلام اپنی کھیتیوں میں کام کر رہے تھے، اللّٰہ نے پہلے کہہ رکھا تھا جب تک لوط علیہ السلام چار گواہیاں نہ دے دیں جب تک انکی قوم کو ہلاک نہ کریں۔ فرشتوں نے آپ سے رات رُکنے کی اجازت طلب کی، آپ پریشان تھے کیونکہ قوم کے حالات سے واقف تھے اسی لیے چاہا کہ مہمان جلد لوٹ جائیں، آپ نہیں پہنچانے تھے کہ یہ فرشتے ہیں۔ آپ نے کہا، "اللّٰہ کی قسم، رُوئے زمین پر اس بستی والوں سے بڑھ کر بدکردار اور خبیث کوئی نہیں۔" یہاں تک کہ چار دفعہ یہ بات دہرائی۔ 
آپ کی بیوی نے جا کر قوم کو مہمانوں کے متعلق بتادیا، وہ آپ کے گھر پر ٹوٹ پڑے کہ ان لڑکوں کو ہمارے حوالےکردو۔ آپ نے کہا: "میرے مہمانوں کے معاملے میں مجھے رسوا نہ کرو اور اللّہ سے ڈرو"، اور انہیں شرم دلائی. مگر وہ نہ مانے اور بضد رہے۔ پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اللّٰہ کے حکم سے اپنا پر پھیلایا اور وہ سب اندھے ہوگئے۔پھر فرشتوں نے بتایا ہمیں اللّٰہ نے بھیجا ہے اور آپ اپنے ساتھ ایمان والوں کو لے کر رات میں نکل جائیں صبح ان پر عذاب آنے والا ہے، اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھئے گا۔
غرض جب لوط علیہ السلام وہاں سے نکل گئے تو جبرائیل علیہ السلام نے اس بستی کو زمین کی آخری تہہ سے اٹھایا اور آسمان تک بلند کردیا اور پھر آسمان سے نیچے پٹخ دیا، اس کے بعد آسمان سے ہر ایک کے نام کا پتھر برستا اور اس شخص کو ہلاک کر دیتا۔ اس سب کے دوران جب لوط علیہ السلام کی بیوی نے دھماکے کی آواز سنی تو پیچھے پلٹ کر دیکھا اور بولی، "ہائے میری قوم!" یہ کہتے ہی ایک پتھر اسکو لگا اور وہ ہلاک ہوگئی۔ اس قوم کا عبرتناک انجام سورۂ ھود کی آیات (77-83) میں مرکوز ہے۔

حضرت لوط علیہ السلام کی وفات: 


آپکی وفات اسّی سال کی عمر میں ہوئی، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے ہوئی۔ آپ کی قبر مبارک الخلیل کی ایک بستی "بریکوت" میں ہے۔ امام مقاتل نے ذکر ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام سدوم میں بیس سال سے زیادہ رہے۔

قصّہ لوط علیہ السلام سے سیکھنے کی باتیں:


1. بے حیائی سے بچنا:

اس قوم کی بے حیائی نے انکو کس عبرت ناک انجام کو پہنچایا، آج ہمارے معاشرے میں بے حیائی کس قدر عام ہوچکی ہے۔ ہمیں اللّٰہ کے عذاب سے ڈرنے کی ضرورت ہے اور ہمیں اس کی بتائی ہوئی حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے

2.دوسری برائ جو قوم ِلوط میں تھی آج ہمارے یہاں اس قدر پھیل چکی ہے، یعنی لوٹ مار، آج ہم باہر کیا اپنے گھروں تک میں غیر محفوظ ہیں۔

3. سرکشی سے بچنا:

یہ ہر برائی کی جڑ ہے، اگر ہم اپنے گناہوں اور غلطیوں کو تسلیم کرلیں اور سرکشی کے بجاۓ توبہ کریں تو ہم اللّٰہ کے غضب سے بچ سکتے ہیں، نہ کہ پچھلی قوموں کی طرح انبیاء کرام کی تعلیمات کو جھٹلا کر اپنے گناہوں پر ڈٹے رہ کر۔

close