Roshan Worlds: gunahon

knowledge islamic quotes articles poims islamic education tips and tricks apps and games for pc android apps latest news for information technology

google Search

Showing posts with label gunahon. Show all posts
Showing posts with label gunahon. Show all posts

Saturday, April 6, 2019

Sila Rahmi

April 06, 2019 0
Sila Rahmi




 صلہ رحمی

سید عزیز الرحمن

امیر المؤمنین خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی خدمات اور مقام و مرتبے سے کون واقف نہیں انہی کا واقعہ ہے کہ ایک بار ان کے ایک قریبی عزیز منافقین کی سازش کا شکار ہو گئے اور نادانستگی میں ایک ایسی عظیم غلطی سرزد ہوئی کہ مسلمانوںکے دلوں میں ان کے بارے میں بدگمانی پیدا ہوگئی ،واقعہ افک کا ذکر ہے چونکہ اس واقع سے براہ راست متاثر ہونے والوں میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ بھی شامل تھے اور وہ اپنے ان عزیز کی کفالت بھی کرتے تھے، اس لئے آپ کا رنج و غم فطری تھا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے قسم اٹھائی کہ اب میں ان کی کفالت نہ کروں گا، یہ واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک اہم واقعہ اور قرآنی احکام کا ایک حصہ بن گیا ہے اور اس طرح کہ آج قرآن حکیم کا مطالعہ کرنے والے ہر شخص کے سامنے جب یہ آیت کریمہ آتی ہے، جس کا ترجمہ آگے بیان ہو رہا ہے، تو اس واقعے کی پوری تاریخ اس کے سامنے پھر جاتی ہے، حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے قسم اٹھانے کے بعد قرآن حکیم میں اﷲ عز وجل کی جانب سے حکم نازل ہوا ’’تم میں سے جو لوگ صاحب فضل و قدرت ہیں، وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں کہ اپنے رشتے داروں، مساکین اور مہاجرین فی سبیل اﷲ کی مدد نہیں کریں گے، انہیں تو معاف کر دینا ہے اور در گزر سے کام لینا چاہئے، کیا تم نہیں چاہتے کہ اﷲ تعالیٰ ہمیںمعاف کرے اور اﷲ تو غفور و رحیم ہے۔‘‘ (سورۂ نور آیت ۲۲)
رحم و کرم تو حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کی خاص صفت تھی اور اس کے اظہار کے مواقع متعین نہ تھے، رحم وکرم کا معاملہ اور عفو و درگزر کا سلسلہ در بار نبوی میں عام تھا لیکن صلہ رحمی، دشمنوں سے حسن سلوک، اپنوں پر نوازشیں اور غیروں کو اپنا لینے والا احسان، جود و کرم کے مظاہر تو کسی اور مقام پر نظر آہی نہیں سکتے، پھر خصوصیت کے ساتھ صلہ رحمی پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بہت زور دیا ہے اور متعدد مقامات پر اس کی تاکید فرمائی ہے اور آج یہ صفت ہمارے درمیان سے کچھ اس طرح سے رخصت ہو رہی ہے کہ اس کے لوٹ جانے کا نشان تک نظر نہیں آتا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رحم انسانی، عرش الٰہی کو پکڑ کر کہتا ہے کہ ’’جو مجھے ملائے، اسے خدا ملائے اور جو مجھے کاٹے، اسے خدا کاٹے۔‘‘( مسلم، بروصلہ)
حضرت جبیر بن مطعم رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص صلہ رحمی نہ کرے یعنی قرابت داروں کا حق اداء نہ کرے، وہ جنت میں داخل نہیںہوگا۔ (بخاری، ادب) یہ تاکید، یہ مبالغہ پھر اس کے ساتھ ساتھ اس قدر سخت و عید کس لئے ہے؟ کیا ہم اپنے آس پاس، دائیں بائیں اور اڑوس پڑوس میں نہیں دیکھتے کہ بھائی بھائی سے لڑ رہا ہے، خاندان کے اگر چار کونے ہیں، تو چاروں باہم دست و گریباں ہیں، نہ ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت رکھی جا رہی ہے نہ اپنے اوپر عائد ہونے والے فرائض کا خیال ہے اور تمام تر جھگڑے کی بنیاد ان مادی چیزوں پر ہے جن کا وجود خود فانی ہے اور اس قدر عارضی ہے کہ خود انسان کی ذات کے مقابلے میں بھی ہیچ ہے، اس بناء پر اگر ان معاملات کو سلجھا لیا جائے، تو اس خطۂ آب و گل کی کتنی ہی رونقیں لوٹ سکتی ہیں، کتنے ہی مسائل ختم ہو سکتے ہیں اور کتنے ہی مصائب کے سوتے خشک ہوسکتے ہیں، تعلیمات نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک اہم حصے کا صلہ رحمی پر مشتمل ہونے کا یہی سبب ہے۔
آج انسان اپنے رزق اور عمر دونوں کی جانب سے غیر یقینی اور مسلسل پریشانی کا شکار ہے، در حقیقت یہ دونوں چیزیں انسان کی پسندیدہ چیزیں ہیں وہ اپنے رزق میں بھی وسعت کا خواہاں ہوتا ہے اور عمر طویل کا طلب گار بھی نظر آتا ہے، لیکن شاید اسے معلوم نہیں کہ اس کا اصل حل کیا ہے؟ حالانکہ اسے معلوم ہونا چاہئے اور خصوصاً ایک صاحب ایمان سے یہ حقیقت قطعاً پوشیدہ نہیں ہونی چاہئے کہ انسان کی عمر و رزق میں اضافے و برکت کا وظیفہ کیاہے؟ کیونکہ ہادی بر حق، ہادی اعظم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک زمانہ قبل اس حقیقت کے چہرے کی نقاب کشائی فرمادی تھی، یہ کہہ کر کہ جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کی روزی میں وسعت اور عمر میں برکت ہو جائے تو اسے چاہئے کہ صلہ رحمی کرے۔ (بخاری، ادب)
اب وہ کون شخص ہوگا جو یہ نہیں چاہے گا کہ اس کے رزق میں وسعت اور عمر میں برکت ہو، مگر اس کے حصول کے طریقۂ کار کی طرف آنے والے کتنے ہیں؟ ہم سب ہی اس باب میں اصلاح کے محتاج ہیں اور اس اعتبار سے ہماری جو کیفیت ہے، اس سے خود ہم سے زیادہ کون واقف ہوگا؟ اور سب سے افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس باب میں بھی اور اخلاقی کمزوریوں کی طرح ہم میں کسی طرح کی کوئی تخصیص نہیں، صاحب مسجد و مصلیٰ بھی اسی طرح پچھلی صفوں میں کھڑے ہیں، جیسا کہ ہم ایسے کم علم و بے عمل، وجہ صرف یہ کہ اخلاقیات کے اور عنوانات کی طرح اسے بھی ہم نے عبادت کے مفہوم سے خارج کر رکھا ہے، حالانکہ یہ دعویٰ بھی ہمارا ہی ہے کہ ہمارا دین، دین فطرت ہے اور ہر لحاظ سے کمال و جمال کا مرقع۔
اسی حوالے سے ایک اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ ہمارے ذہنوں میں صلہ رحمی کا تصور بھی حد درجہ ناقص ہے، ہم صلہ رحمی یہ سمجھتے ہیں کہ جو ہم سے ملے ہم اس سے ملیں، جو ہمیں بلائے، ہم اسے بلائیں، جو ہمیں تحائف دے، ہم اسے نوازیں، یہ بھی صلہ رحمی ہے، مگر اس کا صرف ایک حصہ ہے، اصل صلہ رحمی یہ ہے جسے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم نے یوں فرمایا ’’جو تم سے توڑے، تم اس سے جوڑو اور جو تم پر ظلم کرے، تم اسے معاف کردو، دینے والے کو تو سب ہی دیتے ہیں، ملنے والوں سے تو سبھی ملتے ہیں، مزا تو جب ہے کہ توڑنے والوں سے ملا جائے، نہ دینے والوں کو دیا جائے اور غریب و مستحق رشتے داروں کی اعانت اور حسب توفیق مدد بھی صلہ رحمی کا حصہ ہے اور ہم سب کا فرض ہے۔ خدا کرے کہ ہم سب اس فرض کو اداء کرسکیں، آمین۔





bad nazri sy bachna

April 06, 2019 0
bad nazri sy bachna





بدنظری سے پرہیز 



جب اللہ تعالیٰ نے شیطان کو جنت سے نکالا تو جاتے جاتے وہ دعا مانگ گیا کہ… یا اللہ مجھے قیامت تک کی مہلت دے دیجئے… اور اللہ تعالیٰ نے اس کو مہلت دے دی…اب اس نے اکٹر فوں دکھائی…چنا نچہ اس وقت اس نے کہا کہ…
لَاتِیَنَّھُمْ مِنْ بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ وَعَنْ اَیْمَانِھِمْ وَعَنْ شَمَائِلِھِمْ
یعنی میں ان بندوں کے پاس ان کے دائیں طرف سے … بائیں طرف سے…آگے سے …اور پیچھے سے آؤں گا …اور چاروں طرف سے ان پر حملے کروں گا…
حضرت والا فرماتے ہیں …کہ شیطان نے چار سمتیں تو بیان کردیں …تو معلوم ہوا …کہ شیطان انہی چار سمتوں سے کبھی بائیں سے آئے گا…کبھی دائیں سے…اور کبھی آگے سے … کبھی پیچھے سے آئے گا… لیکن دو سمتیں وہ چھوڑ گیا…ا ن کو نہیں بیان کیا…ایک اوپرکی سمت…اور ایک نیچے کی سمت… اس لئے اوپرکی سمت بھی محفوظ…اور نیچے کی سمت محفوظ ہے…اب اگر نگاہ اوپر کر کے چلو گے تو ٹھو کر کھا کر گر جاؤ گے… اس لئے اب ایک ہی راستہ رہ گیا …کہ نیچے کی طرف نگاہ کر کے چلو گے تو انشاء اللہ شیطان کے چار طرفی حملے سے محفوظ رہو گے … اس لئے بلا وجہ دائیں نہ دیکھو…بس اللہ اللہ کرتے ہوئے نیچے دیکھتے ہوئے چلو…پھر دیکھو…کہ اللہ تعالیٰ کس طرح تمہاری حفاظت کرتے ہیں…
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ …
قُلْ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَھُمْ، اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ O (النور:۱۳۰)
(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !) مسلمان مردوں سے کہو …کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں…یعنی کسی حرام چیز کی طرف مت دیکھیں) …اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں یعنی ناجائز استعمال سے بچائیں…نیزانہیں ڈھانپ کررکھیں…یعنی ان کے لیے جو کچھ کرتے ہیں اللہ ان سب سے باخبرہے…
اس آیت کے تحت مولانا سید شبیر احمد عثمانی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں …کہ بدنظری عموماً زناکی سیڑھی ہے… اس سے بڑے بڑے فواحش کا دروازہ کھلتا ہے …قرآن کریم نے بد کاری …اور بے حیائی کا انسداد کرنے کے لیے اول اسی سوراخ کو بند کرنا چاہا …یعنی مسلمان مرد و عورت کو حکم دیا …کہ بد نظری سے بچیں …اور اپنی شہوات کو قابو میں ر کھیں… 
اگر ایک مرتبہ بے ساختہ مرد کی کسی اجنبی عورت پر یا عورت کی کسی اجنبی مرد پر نظر پڑ جائے تو دوبارہ ارادہ سے اس طرف نظر نہ کرے…کیونکہ یہ دوبارہ دیکھنا اس کے اختیار سے ہوگا …جس سے وہ معذور نہیں سمجھا جاسکتا…اگر آدمی نگاہ نیچی رکھنے کی عادت ڈالے…اور اختیار وارادہ سے ناجائز امور کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھا کرے… تو بہت جلد اس کے نفس کا تز کیہ ہوسکتا ہے…
(تفسیر عثمانی،آیت ۳۰، صفحہ ۸، طبع مجمع الفہد، سعودی عرب)
غور سے ملاحظہ فرمائیں…کہ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے غض بصر کو حفاظت فرج کہا ہے…
اس لیے…کہ اللہ تعالیٰ نے آنکھ کو دل کا آئینہ بنایا ہے…جب آدمی اپنی آنکھ کو غلط کا موں سے جھکا لیتا ہے تو یقینا اس کا دل شہوت …اور تکمیل ارادہ کی طرف مائل نہیں ہوتا…
لیکن جب آدمی اسے آزاد چھوڑ دے تو دل بھی شہوت کے لیے آزاد ہوجاتا ہے…اس لیے دل ونظر کو حکم رب کا پابند بنانا ضروری ہے…
مذکورہ آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حکیم الامت تھا نوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا… کہ دیکھو توخود قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے نگاہ نیچی کرنے کا حکم فرمادیا…اور پھر آگے اس کا نتیجہ بیان فرمادیا …کہ اس کی وجہ سے شرم گاہوں کی حفاظت ہوجائے گی…اور پاک دامنی حاصل ہوجائے گی…
آنکھوں کی نعمت کا شکر یہ ہے…کہ آنکھوں کو حرام نظر سے بچایا جائے مرد کا غیر محرم عورتوں کو دیکھنا …اور عورتوں کا غیر محرم مردوں کو دیکھنا آنکھوں کا زنا ہے…
حضرت مولانا ذوالفقارنقشبندی دامت بر کاتہم نے ایک مجلس میں اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا…
دوسری بات یہ ہے…کہ اللہ رب العزت نے اس آیت میں للمؤمنین فرمایا… یہاں لبنی آدم یاللناس نہیں فرمایا…کہ بنی آدم سے کہہ دیں … یا انسانوں سے کہہ دیں… بلکہ یہ فرمایا…کہ ایمان والوں سے کہہ دیں …اس کا مطلب یہ ہے کہ…
 اے ایمان والو! …یہ کفار تو ہیں ہی جہنمی… 
ان کو اس بات کے کہنے کا فائدہ ہی نہیں ہے …اور تم تو ہو ہی جنتی… اس لئے گو یا یوں فرمایا…کہ اے جنت میں جانے والو!… ہم تمہیں ایک حکم اس تو قع پر دے رہے ہیں…کہ تم اس حکم کو جلدی پورا کردو گے…

شان نزول


قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمتہ اللہ علیہ نے تفسیر مظہری میں اس آیت کا شان نزول تحریر فرمایا ہے …کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا…کہ:
 ایک بار حضرت اسمار بنت مرثد رضی اللہ عنہا اپنے نخلستان (کھجور کے باغ) میں تھیں کچھ عورتیں ان کے پاس آئیں جو ازار پہنے ہوئے نہ تھیں اس لئے جو کچھ وہ پاؤں میں پہنے ہوئے تھیں وہ کھلا نظر آرہا تھا ان کے سینے …اور گیسو بھی کھلے ہوئے تھے… حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے فرمایا …
یہ کیسی بری ہیئت ہے…
اس پر مذکورہ آیت نازل ہوئی… (تفسیر مظہری، پارہ ۱۸)
close