Roshan Worlds: quran

knowledge islamic quotes articles poims islamic education tips and tricks apps and games for pc android apps latest news for information technology

google Search

Showing posts with label quran. Show all posts
Showing posts with label quran. Show all posts

Tuesday, April 26, 2022

phrases of islam

April 26, 2022 0
phrases of islam


  شش کلمے

اَوّل کلمہ طیّب

لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ.

’’اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔‘‘




دوسراکلمہ شہادت

اَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلاَّ اللہُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْکَ لَهٗ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهٗ.

’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بیشک محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘





تیسراکلمہ تمجید

سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُللہِ وَلَآ اِلٰهَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرُوَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِيِ الْعَظِيْمِ.

’’اللہ پاک ہے اور سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں اور اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیکی کی توفیق نہیں مگر اللہ کی طرف سے عطا ہوتی ہے جو بہت بلند عظمت والا ہے۔‘‘





چوتھاکلمہ توحید

لَآ اِلٰهَ اِلاَّ اللہُ وَحْدَهٗ لَاشَرِيْکَ لَهٗ لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْیِیْ وَيُمِيْتُ وَهُوَ حَيٌّ لَّا يَمُوْتُ اَبَدًا اَبَدًا ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ بِيَدِهِ الْخَيْرُ وَهُوَعَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيْرٌ.

’’اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہی ہے اور اسی کے لئے تعریف ہے، وہی زندہ کرتا اور مارتاہے اور وہ ہمیشہ زندہ ہے، اسے کبھی موت نہیں آئے گی، بڑے جلال اور بزرگی والا ہے۔ اس کے ہاتھ میں بھلائی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘





پانچواں کلمہ اِستغفار

اَسْتَغْفِرُ اللہَ رَبِّيْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ اَذْنَبْتُهٗ عَمَدًا اَوْ خَطَاً سِرًّا اَوْ عَلَانِيَةً وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ مِنَ الذَّنْبِ الَّذِيْ اَعْلَمُ وَمِنَ الذَّنْبِ الَّذِيْ لَآاَعْلَمُ اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ وَسَتَّارُ الْعُيُوْبِ وَغَفَّارُ الذُّنُوْبِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاﷲِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ.

’’میں اپنے پروردگار اللہ سے معافی مانگتا ہوں ہر اس گناہ کی جو میں نے جان بوجھ کر کیا یا بھول کر، چھپ کر کیا یا ظاہر ہوکر۔اور میں اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اس گناہ کی جسے میں جانتا ہوں اور اس گناہ کی بھی جسے میں نہیں جانتا۔(اے اللہ!) بیشک تو غیبوں کا جاننے والا، عیبوں کا چھپانے والا اور گناہوں کا بخشنے والا ہے۔ اور گناہ سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی قوت نہیں مگرا للہ کی مدد سے جو بہت بلند عظمت والا ہے۔‘‘




چھٹا کلمہ ردِّ کفر

اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ شَيْئًا وَّاَنَا اَعْلَمُ بِهٖ وَاَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَآ اَعْلَمُ بِهٖ تُبْتُ عَنْهُ وَتَبَرَّاْتُ مِنَ الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ وَالْکِذْبِ وَالْغِيْبَةِ وَالْبِدْعَةِ وَالنَّمِيْمَةِ وَالْفَوَاحِشِ وَالْبُهْتَانِ وَالْمَعَاصِيْ کُلِّهَا وَاَسْلَمْتُ وَاَقُوْلُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ.

’’اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں کسی شے کو جان بوجھ کر تیرا شریک بناؤں اور بخشش مانگتا ہوں تجھ سے اس (شرک) کی جسے میں نہیں جانتا اور میں نے اس سے (یعنی ہر طرح کے کفر و شرک سے) توبہ کی اور بیزار ہوا کفر، شرک، جھوٹ، غیبت، بدعت اور چغلی سے اور بے حیائی کے کاموں سے اور بہتان باندھنے سے اور تمام گناہوں سے۔ اور میں اسلام لایا۔ اور میں کہتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔‘‘




اِیمانِ مفصّل

 

اٰمَنْتُ بِاللہِ وَمَلٰئِکَتِهٖ وَکُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْقَدْرِ خَيْرِهٖ وَشَرِّهٖ مِنَ اللہِ تَعَالٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ.

’’میں ایمان لایا اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور قیامت کے دن پر اور اس پر کہ اچھی بُری تقدیر اللہ کی طرف سے ہے اور موت کے بعد اُٹھائے جانے پر۔‘‘

اِیمانِ مجمل

اٰمَنْتُ بِاللہِ کَمَا هُوَ بِاَسْمَآئِهٖ وَصِفَاتِهٖ وَقَبِلْتُ جَمِيْعَ اَحْکَامِهٖ اِقْرَارٌ  بِاللِّسَانِ وَتَصْدِيْقٌ بِالْقَلْبِ.

’’میں ایمان لایا اللہ پر جیسا کہ وہ اپنے اسماء اور اپنی صفات کے ساتھ ہے اور میں نے اس کے تمام احکام قبول کیے، زبان سے اقرار کرتے ہوئے اور دل سے تصدیق کرتے ہوئے۔







Friday, May 24, 2019

allah+ki+raza

May 24, 2019 0
allah+ki+raza


عید اس کی جس نے اللہ کو راضی کیا


اَلْحَمْدُلِلّٰہِ نَحْمَدُہ وَنَسْتَعِیْنُہ وَنَسْتَغْفِرُہ وَنُوْمِنُ بِہ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہ  ۔۔ وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّاٰتِ اَعْمَالِنَا  ۔۔ مَنْ یَّھْدِہِ اللّٰہُ فَلاَ مُضِلَّ لَہ وَمَنْ یُّضْلِلْہُ فَلاَ ھَادِیَ لَہ  ۔۔ وَنَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہ لاَ شَرِیْکَ لَہ   وَنَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہ وَرَسُوْلُہ  ۔۔
 اَمَّا بَعْد۔۔۔۔ُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ  ۔۔۔ قُلْ ھٰذِہ سَبِیْلِیْ اَدْعُوْا اِلَی اللّٰہ ۔۔۔ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ۔۔۔ وَسُبْحَنَ اللّٰہ وَمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْن۔۔۔وَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔ یَا اَبَا سُفْیَان جِئتُکُمْ بِکَرَامَۃِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃ 
زندگی کی قدر کرو
میرے محترم بھائیو… دوستو!
سال میں ایک دفعہ اکٹھے ہونے کا اللہ تعالیٰ موقع فراہم کرتا ہے…لیکن زندہ رہنے کے لئے اسکی توفیق وتائید بھی شامل حال رہے تو ہی یہ موقع نصیب ہوتا ہے۔
بہت سے لوگ پچھلی عید پر تھے… آج نہیں… وقت اپنی رفتار سے بہت تیز ہے اور عمر اپنے گھٹنے میں بہت تیز ہے اور موت کے پنجوں میں رحم کوئی نہیں اور گردش ایام میں تغیر نہیں…
وہ اللہ ہے جو ہر تغیر و تبدل سے پاک ذات ہے… اللہ ہے جس پر کوئی حالات کا اثر نہیں ہوتا۔
… لاتغیربالحوادث ولا یخشی الدوائر…
…اللہ ہے جو ماضی اور حال و مستقبل کے بندھن سے آزاد ہے…
لایشتمل علیہ زمان اللہ ہے… جو مکان کی قید سے آزاد ہے… اللہ ماضی… حال… مستقبل سے پاک ہے… ہم ماضی… حال… مستقبل میں بندھے ہوئے ہیں… ماضی کی یاد میں حال کے دلدل میں پھنس کر مستقبل کے سنہرے خواب دیکھتے دیکھتے انسان کی زندگی بیت جاتی ہے اور بہت سے ایسے ہیں جو اپنی خالی خواہشات کو اپنے سینوں میں دبائے مر جاتے ہیں…اللہ نے موقع دیا… زندگی دی… آج پھر اکٹھے ہوگئے…

اللہ سے دوری کی ویرانیاں 

میرے محترم بھائیو!بات بڑے فکر کی ہے… لمحہ فکر یہ ہے… آخرت کو سامنے رکھ کے چلنا تھا… اللہ کو راضی کرنا… اپنا مطلب و مقصود بنانا تھا… اس کے محبوب  ﷺ کے پیارے طریقوں میں ڈھل کر چلنا… یہ ہم سے مطالبہ تھا… ہم پٹری سے اترے… راہ سے بھٹکے…د نیا کی اندھی گلیوں میں گم ہوگئے… شہوتوں کے غلام بنے… لذتوں کے تابع ہوئے…
اس وقت ہم اس مسافر کی طرح ہیں جو بیچ صحرا میں گم ہوچکا ہے… دور دور تک جسے منزل کا نشان نہ ملے… رہبر نہ ملے… راہی نہ ملے اور ہر نشان کو صحرا کی بے رحم ہوا پل پل میں مٹا رہی ہو… پل پل میں بدل رہی ہو… وہ کسی راستے کو منزل سمجھ کر چلتا ہے… ہوا کا جھونکا وہاں سے ہٹا کر اس راستے کو دوسری طرف دکھا دیتا ہے چار قدم ادھر چلتا ہے… اک بگولہ سا اٹھتا ہے… اس راہ کو دوسری طرف دکھا دیتا ہے… وہ کبھی یوں چلتاہے… کبھی یوں چلتا ہے…
{اوکظلمٰت فی بحر للجی یغشہ موج من فوقہ موج من فوقہ سحاب ظلمت بعضھا فوق بعض اذا اخرج یدہ لم یکد یراھا}
پوری دنیا اس وقت اس آیت کے مطابق نظر آرہی ہے… گھپ اندھیرے میں ہے اوپر رات کی تاریکی کا اندھیرا ہے… نیچے سمندر کی کالی موجوں کا اندھیرا ہے اور اس کے اوپر پھر بادلوں کا اندھیر اہے… تین اندھیرے ہیں… جس کے اندر انسانی زندگی کاقافلہ گامزن ہے اور وہ عازم سفر ہے… تین اندھیروں میں …اذا اخرج یدہ لم یکد یراھا…وہ گھپ اندھیرے میں اپنا آپ دیکھنا چاہتا ہے تو اپنا آپ بھی نظر نہیں آتا تو راستہ کہاں سے نظر آئے گا… 

سود لینا ماں سے زنا سے زیادہ بڑا گنا ہ ہے

دنیا بھٹک چکی ہے بھائیو! ہم مسلمان وہموں کو جان کر بھی بھٹکے ہوئے ہیں… ہمیں پتہ ہے سچ میں نجات ہے… جھوٹ میں ہلاکت ہے… دنیا کے بازار سچ پہ نہیں چلتے…ہمیں پتہ ہے سود اللہ سے اعلان جنگ ہے اور حلال کمانے والا ہی اللہ کا دوست اور سچا فرمانبردار ہے… لیکن ہماری تجارت سود کے آہنی شکنجہ میں پھنسی ہوئی ہے…ہم اس سے نکلنے کو تیار نہیں…
پہلے تو بینک سود دیا کرتے تھے… سود لیا کرتے تھے… اب لوگوں نے بھی یہ کام شروع کردیا ہے… جن کے پاس چار پیسے ہیں وہ آگے سود پر پیسے دیتے ہیں… یہ وبا عام ہوچکی ہے۔
یہ اللہ کا کرم ہے کہ وہ توبہ کا انتظار کرتا ہے… بندوں کو مہلت اور ڈھیل دیتا ہے کہ وہ توبہ کرکے رجوع کرلیں… اگر اللہ کا رحیم ہونا اس کے قاہر ہونے پر غالب نہ ہوتا تو اس وقت ہم سب زمین کے نیچے جاچکے ہوتے…

ہم تو آگ اور پتھروں کی بارش کے مستحق ہیں مگر

مسجد و مندر کیا… کارخانہ و بازار کیا… مرد اور عورت کیا… دیہات اور شہر کیا… زمین ان سب کو نگل چکی ہوتی… بجلیاں ان پر ٹوٹ چکی ہوتیں… بادل ان پر برس چکے ہوتے یا آگ کے ساتھ … پتھروں کے ساتھ یا طوفانی بارشوں کے ساتھ یا سمندروں کی موجیں ان پر چڑھ چکی ہوتیں… یہ تو اللہ ہے:
{افامن الذین مکرواسیأت ان یخسف اللّٰہ بہم الارض اویاتیہم العذاب من حیث لا یشعرون اویاخذھم فی تقلبھم فماھم بمعجزین او یأخذھم علی تخوف فان ربکم لرؤوف الرحیم}
کیا خوبصورت بات ہے… اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں… میرے نافرمانو! تمہیں پتہ نہیں کہ میں تمہیں زمین میں دھنسا سکتا ہوں…
میرے نافرمانو!… تمہیں پتہ نہیں کہ میں ایسی جگہ سے عذاب دے کر تمہیں مارسکتا ہوں کہ تمہیںہوش بھی نہ رہے… وہم و گمان بھی نہ رہے… میں تمہیں اس طرح عذاب دوں کہ تم اپنے کام کاج کھیتوں… بازاروں اور دکانوں میں کھڑے کھڑے ہلاک ہوجائو… میں تمہیں اس طرح عذاب دوں کہ تمہیں پتہ بھی نہ چلے… میں تمہیں اس طرح عذاب دوں کہ تمہیں پہلے سے بتادیا جائے… میرا عذاب آرہا ہے… تیار ہوجائو… 
{اویإٔخذھم علی تخوف}
پھر بتائو تمہیں ڈرا ڈرا کے ماروں تو میں یہ سب کچھ کیوں نہیں کرتا ہوں… حالانکہ زمین پوچھ رہی ہے… یااللہ اجازت دے کہ میں انہیں نگل جائوں… آسمان کے فرشتے پوچھ رہے ہیں…یااللہ اجازت دے… ہم اتر جائیں… سمندروں کا پانی پوچھ رہا ہے… یااللہ اجازت دے ہم چڑھ جائیں… ہوائیں بے تاب ہیں طوفان بننے کو …بادل بے تاب ہیں طوفان بننے کو… زمین بے تاب ہے زلزلے لانے کو …پہاڑ بے قرار ہیں پھٹ جانے کو …لاوا بن جانے کو… تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے… پھر یہ سب کچھ میں کرتا کیوں نہیں؟
{ان ربکم لرؤوف الرحیم}
میرا مہربان ہونا… میرا رحیم و کریم ہونا مجھے روک لیتا ہے… اور میں پھر ان کو مہلت دے دیتاہوں کہ شاید توبہ کرلیں… شاید توبہ کرلیں…
ہمارا رب ہم سے ناراض ہے اس کو منالو
میرے بھائیو!مسئلہ بڑا بگڑا ہوا ہے… ہم اللہ کو ناراض کرچکے ہیں…
 اللہ کی کائنات کا تیور ہمارے حق میں بگڑ چکا ہے… 
زمین بھی تیور بدل رہی  ہے… فلک بھی آنکھیں دکھارہاہے… 
ساری کائناتی نظام کا ہمارے خلاف ہوجانا یہ اللہ کے ناراض ہونے کی بڑی واضح۔۔
 صاف اور روشن دلیل ہے… اس وقت ہمیں انفرادی طور پر… اجتماعی طور پر توبہ کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے اللہ کو راضی کریں… 
دنیا بھی بگڑ گئی… آخرت کے بگڑنے کے سارے اسباب پورے ہوچکے ہیں…
 دنیا کا بگڑ جانا کوئی مسئلہ نہیں… میری آپ کی ذات کے لئے تو یہ بھی بہت بڑا مسئلہ ہے
ہم تو دنیا کی بھوک بھی نہیں سہہ سکتے… ہلکا سا درد دو دن سے میرے جسم میں ہے…
 اس نے میری نیند حرام کی ہوئی ہے… یہ ہلکا سا درد ہے اور اگر پورے وجود کو اللہ تعالیٰ دردمند کردے… 

قیامت کا زلزلہ

پورے وجود میں اللہ تکلیف ڈال دے تو ہم کون سے تیس مار خان ہیں کہ ہم اللہ کی پکڑ کا مقابلہ کرسکیں… ہم تو دنیا کا غم بھی نہیں سہہ سکتے… چہ جائیکہ آخرت کا خوفناک آنے والا مرحلہ… جبکہ اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں:
… یوم یجعل الولدان شیبا  …جس دن بچہ بھی بوڑھا ہوجائے گا… 
… اسماء منفطربہ …آسمان بھی پھٹ جائے گا…
… وکان وعدہ مفعولا …اور اللہ اپنے وعدے کو کرکے دکھا دے گا…
… اذا دکت الارض دکاً دکاً …جس دن زمین ٹوٹ جائے گی…
… وجاء ربک والملک صفا صفا…اور اللہ خود اپنے فرشتوں کے ساتھ آجائے گا
… ویحمل عرش ربک فوقہم یومئذ ثمانیہ…جس دن اللہ کا عرش سروں پر آچکا ہوگا
اٹھانے والے آٹھ فرشتے ہوں گے…
… یومئذ تعرضون  …اور تمہیں بھی پیش کیا جائے گا…
… ویوم نسیرالجبال …پہاڑ کو ہٹا دے گا اللہ تعالیٰ
… وترالارض بارزہ …زمین ننگی کردے گا اللہ تعالیٰ…
… وحشرناہم  …سارے کلمہ والے اکٹھے کرے گا… سارے پاکستانی… ہندوستانی
۔۔۔۔۔۔عرب و عجم اکٹھے کرے گا… فلم نغادر منہم احداً … کوئی ایک بھی پیچھے نہیں رہے گا
… وعدھم عداً …ایک ایک کو گناہوا ہوگا…
… ماکان ربک نسیا …اللہ گنتی کرتے ہوئے بھولتا نہیں…
…کائنات کو سنبھالتے ہوئے بھولتانہیں… لایضل ربی …نہ اس سے کوئی بھٹک سکتا ہے نہ وہ بھٹک سکتا ہے… لابعزب عن ربک من مثقال ذرۃ…نہ اللہ سے کوئی چیز بھٹکی ہے… نہ وہ کسی چیز سے غافل ہے… لاتحسبن اللہ غافلا عما یعمل الظالمون …نہ اس سے کوئی چیز چھپ سکتی ہے…{سواء منکم من اسرالقول ومن جھربہ ومن ھو مستخفبالیل وسارب باالنھار}
وہ ایسا دن ہے جو تمہارے سارے کرتوتوں کو کھول دے گا
اندھیرا اجالا… خلوت جلوت… سراً وجھراً اعلانیہ اور خفیہ بول کو قول کو فعل کو دن کو … حرکت کو… سکون کو… یہاں تک کہ دل کے جذبات کو… دل کی دھڑکنوں میں پیداہونے والی آوازوں کو بھی اللہ سنتا ہے… دیکھتا بھی ہے… کائنات کو سنتا بھی ہے… سب کچھ اللہ کے سامنے کائنات سامنے اول و آخر سامنے عرب و عجم سامنے…
… وازلفت الجنۃ للمتقین  …جنت کو بلایا جارہا ہے…
… وبرزت الجحیم للغاوین …پھر جہنم کو بلایا جارہا ہے اور 
… ونضع الموازین القسط …پھر اللہ تعالیٰ ترازو کو قائم فرما رہا ہے…
{وان منکم الا واردھا واذالصحف  نشرت}پھر اللہ تعالیٰ ایک ایک کی کتاب کھول کر اسے دکھا رہا ہے… ایک ایک کا ورق رول ہوا ہے… اللہ یوں کھولے گا…
… واذا الصحف نشرت …آج ان کے اعمال کھولو…
… یوم تبلی السراء …آج ان کے پردے اٹھائو… آج ان کے پردے کھولو…
دنیا میں چھپائو… آخرت میں کھولو…دنیا میں ستاری کا معاملہ…آخرت میں حساب کتاب کا معاملہ…اذا زلزلت الارض  زلزالھا …
وہ دن جب زمین میں زلزلے آئیں گے … وہ دن جب جہنم موجود اور جنت موجود… انسان کی کیا کیفیت ہوگی… کلفراش المبثوت پروانوں اور پتنگوں کی طرح جمع ہونے کے دن کی کیا کیفیت ہوگی۔
دوستیوں کو دشمنی میں بدلنے والا دن
یوم یفرالمرأ من اخیہ وامہ وابیہ وصاحبتہ وبنیہ لکل امرء منہم یومئذ شأن یغنیہ
بھائی بھائی سے بھاگے گا… ماں بیٹی سے بھاگے گی… باپ بیٹے سے بھاگے گا… بیوی خاوند سے بھاگے گی… والدین اولاد سے بھاگیں گے… اولاد والدین سے بھاگے گی…
… الا خلاء یومئذ بعضہم لبعض عدو…آج دو ستیاں دشمنیوں میں بدل جائیں گی…… الا المتقین …صرف تقویٰ والے ہیں…
جن کو نجات ملنے کی امید ہے… باقی توسارے گرفتار بحساب ہیں… 
تو میرے بھائیو!ایک خوفناک گھاٹی … ایک خوفناک مرحلہ آنے والا ہے جب بچہ بوڑھا ہوجائے گا… انسان موت کی تمنا کرے… یا لیتنی کنت تراباً… موت کی تمنا کرے گا… لیکن موت خود مرگئی… آگے ایک چیز نے مرنا ہے باقی سب نے اٹھنا ہے…آج موت مرے گی اور سب کو زندگی ملے گی… انسان تین طبقوں میں تقسیم ہوں گے…
… وکنتم ازواجاً ثلا ثہ …تین طبقوں میں تقسیم ہوں گے…
… واصحاب المیمنہ مااصحاب المیمنہ …عام درجے کے جنتی
… واصحاب المشئمہ مااصحاب المشئمہ …جہنم کے لوگ
… السابقون السابقون اولئک المقربون …اونچی اعلیٰ شان والے جنت میں اوپر کے طبقے کے لوگ ۔ درمیانے لوگ… پھر جہنم والے لوگ… یہ تین طبقوں میں ساری انسانیت تقسیم ہورہی ہے۔{وامتاز الیوم ایھا المجرمون}
ایک پکار آرہی ہے… اے مجرموں کی جماعت… تم ایک طرف ہوجائو اور 
{فیومئذ لایعذب عذ بہ احد ولایوثق وثاقہ احد}
آج اللہ جیسی پکڑ کوئی پکڑ نہ سکے گا… اللہ جیسی مار کوئی مار نہ سکے گا… اللہ جیسا عذاب کوئی دے نہ سکے گا…




موت کا پنجہ 

میرے محترم بھائیو!
اس خوفناک گھاٹی… اس خوفناک دن سے انسانیت غافل ہوئی پڑی ہے… ان کو جھنجھوڑکے بتانے کی ضرورت ہے… ان کونہیں… اپنے آپ کو جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے…
  تو کہاں جارہاہے… تجھے خبر نہیں کہ موت تیرے پیچھے ہے… 
 حالات کا آہنی پنجہ تجھے لینے کو ہے اور موت تیرے سر پر سوار ہے…
 تو کن چیزوں میں لگا ہوا ہے… اس آنے والے خوفناک دن کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا ہے یہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے …اللہ کو راضی کرناہے … یہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ تھا
مائوں سے زیادہ مہربان اللہ 
میرے بھائیو!ہم نے اللہ کو ہی ناراض کردیا جو مائوں سے زیادہ شفیق… باپ سے زیادہ مہربان… مائوں سے زیادہ پیا رکرنے والا… ہماری ایک پکار پر ستر دفعہ لبیک کہنے والا… ہمارے اندھیرے کی سننے والا… تنہائیوں کا سننے والا… بیماری میں سننے والا… اجالے میں سننے والا… سب کی سننے والا… فرمانبردار کہے یا اللہ تو کہتاہے لبیک… نافرمان کہے یااللہ تو کہتا ہے… لبیک… ساری زندگی کا روٹھا ہوا ایک دفعہ کہہ دے یااللہ تو وہ انتظار میں ہوتا ہے کہ کبھی تو مجھے پکارے یااللہ… وہ کبھی نہ پکارنے والے کو بھی اتنی ہی خوشی سے جواب دیتاہے… لبیک…لبیک… لبیک… یا عبدی… میرے بندے میں تو کتنے سالوں سے انتظار میں تھا …کہ کبھی تو میرا نام بھی تیری زبان پہ آئے گا… میں تو کب سے منتظر تھا …کہ کبھی تو تو مجھے پکارے گا… میرا نام لے گا… لبیک … بول بول میں حاضرہوں… تجھے کیا چاہئے؟
ایسے مہربان اور ایسے کریم اللہ سے ٹکر لے کر ہم نے زندگیاں خراب کردیں…
عید اس کی ہے جس نے اللہ کو راضی کیا
میرے بھائیو!میں سارے بھائیوں کی خدمت میں گزارش کروں گا… عید اس کی ہے جس نے اپنے رب کو راضی کرلیا… عید اس کی نہیں ہے جس نے اپنے رب کو ناراض کردیا… عید اس کی ہے جس نے اللہ پاک کو راضی کرلیا… آج اپنی بخشش کا اللہ سے اعلان کروالیا… عید کیاعیدہے کہ اللہ بھی ناراض ہو… شریعت بھی ٹوٹ چکی ہو… احکام بھی ٹوٹ چکے ہوں… آخرت بھی بگڑ چکی ہو…
یہ کیسا نافرمان شخص ہے؟
میرے بھائیو!عید خوشی کا دن ہے …اللہ نے یہ خوشی کا دن بنایا ہے… یہ روزوں کی جزا کا دن بنایا ہے… لیکن میں کس بات پر خوش ہوں… 
ایسے ٹھنڈے روزے بھی ستر فیصد مسلمانوں نے نہیں رکھے…
مجھے کس بات کی خوشی ہو کہ ایسے چھوٹے رمضان کی تراویح بھی لوگوں نے نہیں پڑھی 
اور نمازیں نہیں پڑھیں… میں کیسے اس بدگمانی کو اپنے اندر سے نکالوں ؟
میں اپنی آنکھوں کو کیسے جھٹلائوں کہ رمضان گزر گیا… مگر انہیں سجدے کی توفیق نصیب نہ ہوئی
 رمضان گزر گیا… انہیں روزے کی توفیق نصیب نہ ہوئی
 ایسے ٹھنڈے روزے نصیب نہ ہوئے…… جمعہ جیسی نماز بھی نصیب نہ ہوئی
… رمضان کا جمعہ… جمعۃ الوداع بھی نصیب نہ ہوا… 
میں اپنے ان بھائیوں کو کیسے سمجھائوں… میں کس طرح ان کے دل میں اتر کے اپنی آواز داخل کروں اور میں کس طرح اس سارے مجمع کے رخ کو اللہ کی طرف پھیروں… میں تو اپنے دل کے اللہ کی طرف پھرنے  میں اللہ کا محتاج ہوں… ہم سب اللہ کے محتاج ہیں…

لٹا ہوا مسافر

میرے بھائیو!اپنے اس ہونے والے نقصان پہ آنکھیں کھولو… اپنی آخرت کی بربادی پر اپنے آپ کو سنبھالو… اللہ کے واسطے سنبھالو او رکوئی گرتے کو سہارا دے تو کہتا ہے …جزاک اللہ… تیری بڑی مہربانی… کوئی چوری ہوتے ہوئے پہنچ جائے اور چوری سے بچالے… تو کہتا ہے …جزاک اللہ… تیری بڑی مہربانی۔
ہائے ہم لٹ گئے… میرے بھائیو لٹ گئے… لٹ گئے… ایمان کے جنازے اٹھ گئے۔۔۔۔۔
٭… نظریں غلط ہوئیں ایمان لٹا…
٭…  کانوں نے گانے سنے ایمان لٹا…
٭… زبان نے جھوٹ بولا ایمان لٹا…
٭… ہاتھوں نے غلط تولا ایمان لٹا…
٭… قلم نے غلط لکھا ایمان لٹا …
٭… پائوں رقص گاہوں کو چلے ایمان لٹا…
٭…  موسیقی کی محفل میں بیٹھے ایمان لٹا…
حیاء کی چادر پہن لو 
 حیا کی چادر میں لپٹی ہوئی مسلمان بیٹی سے کہ جب فرشتے بھی ان سے حیا کرتے تھے…
 فرشتو ں کو بھی حیا آتی تھی…
 اسی امت کی بیٹی مسلمان ماں کی مسلمان بیٹی وہ پائوں میں گھنگھرو ڈال کر وہ رونق محفل بنی ہے
اگر اللہ پاک کی ستاری نہ ہوتی اور اس کی مہلت نہ ہوتی تو اس کے گھنگھروئوں کی چھن چھن
 ہمالیہ پہاڑ کو بھی چھلنی کرکے رکھ دیتی اور اسکے پائوں کی تھاپ جو زمین پرپڑتی ہے
 رقص کرتے ہوئے…… وہ تحت السریٰ تک زمین کو آگ لگا دیتی
 اور جو بیٹھے ہوئے ہیں ہماری محبت کی کمی کی وجہ سے ہمارے غافل بھائی
 جو اللہ کی اتنی بڑے نافرمانی کو… تفریح کا نام دے کر نظارہ کررہے ہیں۔
میں مجرم ہوں… میں نے انہیں نہیں سمجھایا… اگر اللہ کی رحمت کا دروازہ کھلا ہوا نہ ہوتا تو ان دیکھنے والوں پر بھی عذاب کی بجلیاں کڑک کے گرتیںا ور اللہ کا کوڑ ابرستا اور ان ناچنے والیوں سے ہمالیہ پہاڑ بھی پرزے پرزے ہوتا… تحت السریٰ تک زمین جل کے راکھ ہوتی او راللہ اس زمین پر ہی اپنی قدرت قاہرہ کے نظارے کروادیتا… لیکن اس اللہ پر قربان جائو… وہ ستار بھی ہے… وہ غفار بھی ہے… وہ مہلت بھی دیتا ہے… پردے بھی ڈالتا ہے۔






کس بات پر مسکراتے ہو

 میرے بھائیو! اس وقت ہم ایمان لٹاکے آئے بیٹھے ہیں… جس آدمی کی تل چوری ہوگئی ہو… اس کو آج عید مبارک کہنا بھی اچھا نہیں لگے گا… جس کا کل ڈاکہ پڑجائے… جس کے رات ڈاکہ پڑجائے… ساری محنت پونجی نہ جائے… لاکھ دو لاکھ … ہزار دو ہزار چلا  جائے… اس کو آج عید مبارک اچھی نہیں لگے گی… اسے لوگوں کا ملنا اچھا نہیں لگے گا… اسے لوگوں کا مسکرانا اچھا نہیں لگے گا۔بھائیو! ہم کس بات پہ مسکرائیں… 
 کس بات پر خوش ہوں کہ ہم توایمان پر ایک ڈاکہ نہیں لاکھوں ڈاکے ڈلواکے آئے بیٹھے ہیں
متاع ایمان لٹا کے آئے بیٹھے ہیں… پیٹ میں شراب گئی… ایمان لٹا…
 پیٹ میں رشوت کا روپیہ گیا………………… ایمان لٹا
 جھوٹ بول کے سودا بیچا… اس کی روٹی پیٹ میں گئی…   ایمان لٹا 
اور زبان نے غیبت کا بول بولا………………  ایمان لٹا
 زبان پہ گالی آئی………………………  ایمان لٹا
 زبان پہ چغلی آئی… …………………… ایمان لٹا
طبیعت میں تکبر آیا……………………    ایمان لٹا
 طبیعت میں دنیا کی رغبتیں پیداہوئیں…………… ایمان لٹا
 سرعام ایک دوسرے کو گالیاں دیںتو ……………ایمان لٹا
 جھوٹ بولا تو ایمان لٹا… کس کس بات پہ میں روئوں اور کس کس بات کی طرف میں اپنے کو اور اپنے بھائیوں کو متوجہ کروں کہ ہم پر ایک ڈاکہ نہیں ہم پر ڈاکوں کے ڈاکے پڑتے چلے گئے… ایمان لٹا کے آئے بیٹھے ہیں۔
میرے بھائیو! اللہ تعالیٰ نے یہ خوشی کا دن بنایا ہے… یہ روزوں کا شکرانہ ہے کہ … اللہ تو نے توفیق دی… ہم نے روزے رکھے … اس کے شکر میں ہم دو نفل پڑھ رہے ہیں… تیرے دربار میں حاضر ہیں… لیکن میرے محترم بھائیو دوستو!
جو غفلت سے نکل گیا عید اس کی ہے
عید… عید ہوگی جب یہ سار امجمع توبہ کرے گا… اگر یہ اسی طرح غفلت میں آکر… غفلت میں اٹھ کر چلا جائے اور اگریہ توبہ نہ کرے تو یہ ہماری عید کیا… عید ہے… ؟ہمارا جمع ہونا کیا جمع ہونا ہے… ؟ہمارا مبارک دینایا لینا یہ کیا مبارک ہے… ؟جب کہ سب سے بڑا سرمایہ ہم اپنے ہاتھوں سے لٹا بیٹھے ہیں۔
اللہ کے واسطے گناہ چھوڑ دو
تو میرے بھائیو! پتہ نہیں کون کہاں بازی ہار جائے… زندگی کا پتہ نہیں… کون کہاں… کس جگہ زندگی گنوا بیٹھے۔
میرے بھائیو! میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں…
 اس اللہ کے نام پر… ……جس نے ہمیں جمع کیا…
 اس اللہ کے نام پر ……جس نے ہمیں انسان بنایا … 
اس اللہ کے نام پر……جس نے ہمیں مسلمان بنایا…
 اس اللہ کے نام پر……جس نے ہمیں روزوں کی توفیق بخشی… 
وہ اللہ جو اس وقت روزہ رکھنے والوں کو محبت بھری نظروں سے دیکھ رہا ہے …
اور فرشتوں کو اتار چکا ہے …میں اس اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں… 
یہاں سے توبہ کرکے اٹھو… …………یہاں سے اللہ کو مناکے اٹھو…
 کب تک اپنی مانوگے… کب تک اپنی آنکھوں کو اپنے من چاہا دکھائوگے… 
ان کانوں کو کب تک اپنا من چاہا سنائوگے… اس زبان کو کب تک من چاہا پلوائوگے…
 ان ظالم قدموں سے کب تک غفلت کی محفلوں کو جائوگے… کب تک غلط تولوگے…
 کب تک سود سے کھیلوگے… کب تک جھوٹ کے بازار گرمائوگے… 
کب تک ناچ گانے کی محفل سے لذت اٹھائوگے…کیا موت نہیں آئے گی …
 کیا… وقت تھم گیا ہے… 
کیا… زمانہ رک گیا ہے… 
کیا… زندگی کا پہیہ چلتے چلتے رک گیا ہے… 
کیا …موت کو اللہ نے دھکیل دیا ہے… 
کیا… اللہ پاک کے فرشتے مجھ سے غافل ہوگئے ہیں… 
کیا… عزرائیل مجھے دیکھتانہیں…
 کیا …میری موت سے میرا چراغ بجھے گا نہیں؟
اپنے اوپر رحم کرو
یہ بولتی بلبل خاموش نہ ہوگی !یہ آنکھوں کی شمعیں بجھیں گی نہیں! یہ کانوں کی فون کی لائنیں کٹیں گی نہیں !کیا یہ چلتا ہوا وجود کیا خاک میں نہیں ملے گا ؟دیکھو میں ہاتھ جوڑتا ہوں اپنے اوپر رحم کرو… اپنے اوپر رحم کرو…یہ آپ کا اپنے اوپر رحم ہے۔
{ان اعدا عوک نفسک التی بین جنبیہ}
یہ اللہ تعالیٰ کے نبی کا فرمان ہے…میرا سب سے بڑا دشمن یہاں بیٹھا ہوا ہے… تیرے سینے میں چھپا ہوا ہے… تیرے دل میں چھپا ہوا ہے۔اللہ کا واسطہ دیتا ہوں… اس کو دشمن بنائو… شیطان دشمن ہے… اس کو دشمن بنائو…
اللہ بھی راضی ہو گا… اللہ کا رسول بھی راضی ہوگا… فرشتے بھی قربان ہوں گے… فدا ہوں گے… واری جائیں گے…
اگر اپنے آپ سے دوستیاں لگالیں… یہ اندر کا نفس پلید ہے… ………
یہ اندر کا نفس نافرمان ہے……… یہ کھینچ کر لے جارہا ہے جہنم کی طرف…
 شیطان نے لگام پکڑی ہوئی ہے…   وہ کھینچ کر لے جارہا ہے جہنم کی طرف… 
میرے بھائیو… انگارہ ہاتھ میں نہ رکھو…
 جلتی ہوئی آگ کے اوپر تھوڑی دیر کے لئے اپنے اپنے ہاتھ کو رکھوآگ نہیں اٹھنے والی…
 بھاپ کے اوپر تھوڑی دیر کے لئے اپنے ہاتھ کو رکھو…
 کوئی ہے… بھا پ کی تپش برداشت کرلے…  صرف بھاپ کی تپش …
جون کی دھوپ میں باہر کھڑے ہوجائو……… آپ کو اس مقدس جگہ…
 جو مسجد ہے اس کا فرش بھی جلادے گا ……اور آپ کھڑے نہیں ہوسکتے… 
بے قرار ہوکر اندر بھاگوگے……………… وہ دن کیا دن ہوگا… 

قیامت کی گرمی سے حفاظت کا بندوبست آج کرلو

یہ سورج اس وقت نو کروڑ تیس لاکھ میل کے فاصلے پر ہے… ا س میںسے آنے والی آگ کا بیس کروڑواں حصہ زمین پر گر رہا ہے… یہ سورج اگر ساڑھے چار کروڑ میل کے فاصلے پر آجائے تو ساری زمین بخارات بن کر ہوا میں اڑ جائے گی … وہ کیا دن ہوگا جب تن پہ کپڑا نہیں ہوگا … اس دن عورت بھی ننگی ہوگی… آج مرد بھی ننگا ہوگا… سر پر ٹوپی نہیں… پائوں میں جوتا نہیں… تن پہ کپڑا نہیں اور یہ سورج نوکروڑ میل نہیں… ساڑھے چار کروڑ میل نہیں … دو کروڑ میل نہیں…ا یک کروڑ میل نہیں… پچاس لاکھ میل نہیں… پچاس ہزار… پانچ ہزار… پانچ سو… ایک سو… پچاس میل نہیں… یہ سورج ایک میل کے فاصلے پر ہوگا۔
اور میری سنو تو سہی… میں کیا کہہ رہا ہوں… میری سمجھو تو سہی… میں کیا کہہ رہا ہوں۔۔۔۔
میرے بھائیو!…{انی لکم ناصح امین}
 میری سمجھو میں کیا کہہ رہا ہوں… میں ایک سوالی ہوں… میں ایک فقیر ہوں… میں بھکاری ہوں… میں آپ سے بھیک مانگ رہا ہوں… میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑ رہا ہوں… اپنے آپ کے دشمن نہ بنو… توبہ کی طرف آئو… اس سورج کی آگ جب گرمی میں تھوڑی تیز ہوتی ہے تو ہمیں تڑپا دیتی ہے… پنکھے چلاتے ہیں… غریب آدمی پیپل کی چھائوں کی طرف بھاگتا ہے… مالدار آدمی ایئرکنڈیشن چلاتا ہے… متوسط آدمی کو لر چلاتا ہے… برف کے کارخانے کھلتے ہیں… وہ کیا دن ہوگا… وہ کیا دن ہوگا جب زمین تانبا بن جائے گی… اور تن سے لباس اتار لیا جائے گا …اور سورج ایک میل کے فاصلے پر کردیا جائے گا …اور اس کے اندر کی حرارت ہے دو کروڑ ستر لاکھ فارن ہائٹ… ۱۳۰۰ سینٹی گریڈ پر لوہا پگھل جاتا ہے… ۱۵۳۰ سینٹی گریڈ پر جاکر ریت شیشہ بن جاتی ہے… ۱۳۰۰ سینٹی گریڈ پر لوہا پگھل جاتا ہے… پانی بن جاتا ہے… دو کروڑ ستر لاکھ درجہ جس کے اندر آگ ہو اور وہ سر کے اوپر ایک میل کے فاصلے پر ہو اور اللہ کے عرش کے سوا سایہ نہ ہو… تو سوچو کہ اس دن کیا حال ہوگا۔۔۔

مرنے والوں سے عبرت لو

میرے بھائیو! ہم کیوں نادان بن گئے… یہ ہمیں کیا ہوگیا… ہمیں سنائی کیوں نہیں دیتا
 ہمیں لوگوں کا مرنا دکھائی کیوں نہیں دیتا… ہمیں قبروں میں گم ہوجانا کیوں نہیں دکھائی دیتا
 مٹی میں رل جانا……… داستان بھی مٹ جانا… بھول بھلیاں ہوجانا… 
یہ ہمیں کیوں نہیں دکھائی دیتا…ہمیں رونے والیوں کے نوحے سنائی کیوں نہیں دیتے؟
 ہمیں حالات کا بدلنا …کیوں دکھائی نہیں دیتا؟… اس دنیا کا فریب …
اس غدار… اس مکار… اس بے وفا … اور اس دھوکے باز دنیا…کا فریب… 
 اس ڈائن اور جادوگرنی کا… دن بدن نئے نئے عاشق بنانا… پرانوں سے جفا…
 نئے سے وفا… ان سے جفا اور ان سے وفا… اس کو پھنسایا اور اس کو چھوڑا…
یہ دنیا مچھر کا پر ہے
 ایسی دنیا اورایسی مٹ جانے والی دنیا… دھوکے کا گھر… اور مچھر کا پر …اور مکڑی کا جالا …اور دارالغرور… ہمیں کیوں سمجھ نہیں آتا۔
{بقیعۃ یحسبہ الخ… وتفاخر بینکم وتکاثر فی الاموال والاولاد… کمثل غیث اعجب الکفار نباتہ ثم یھیج فترٰہٗ مصفراً ثم یکون حطاما وفی الآخرۃ عذاب شدید ومغفرۃ من اللّٰہ ورضوان وما الحیواۃ الدنیا الامتاع الغرور}
…{یہ دھوکے کا گھر ہے… یہ مچھر کا پر ہے… یہ مکڑی کا جالا ہے}…
مکان پر لڑنے والے بھائی! مکان بھی باقی رہے گا… اور تو اٹھا کے قبر میں ڈال دیا جائے گا…دکان پر آنے والے گاہک کو دھوکا دینے والے بھائی! 
تیری دکان کھڑی رہے گی…… اور تو جاکر قبروں میں سو جائے گا…
 کیڑا تجھے کھا جائے گا……… اولاد تجھے بھلا دے گی… 
جس اولاد کی خاطر تو نے……  جھوٹ بولا …غلط تولا…
 رشوت لی… ظلم کئے……… ڈاکے ڈالے……… 
وہی اولاد تجھے قبر میں ڈال کر پھر کبھی تجھے پوچھے گی بھی نہیں… کوئی باپ تھا…
 وہ مائیں جو اپنی اولاد کو کھلانے کے لئے اب ظلم کی حد تک آگے بڑھ جاتی ہیں…
 اوروں کا حق چھینو………… بچوں کو کھلائو…
 اوروں سے لے کر آئو میرے …   بچوں کو کھلائو…
 ان مائوں کا آج مرنا ہوگا……  کل بھولنا ہوگا…
 کوئی یاد نہیں رکھتا………… کون کب مرا… 
کہاں دفن ہوا…………  کس حال میں ہے؟
 کوئی نہیں… کوئی نہیں… کوئی نہیں… یہ دھوکے کا جہان ہے:
ٹک حرص و ہوس کو چھوڑ میاں
مت دیس بدیس پھرے مارا
قذاق اجل کا لوٹے ہے
دن  را ت  بجا کے  نقارا
کیا بھیا کیا بھینسا بیل شتر
کیا  گولی  بلا  سر  بھارا
کیا گیہوں چاول موٹھ مٹر
کیا آگ دھواں اور انگارا
سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا
جب لادچلے گا… بنجارا
{وماالحیواۃ الدنیا الامتاع الغرور}
اس دھوکے کے گھر میں بڑوں بڑوں نے دھوکا کھایا… سکندر بھی گیا… دارا بھی گیا… جمشید بھی گیا…انگریز بھی گیا… بنو امیہ بھی گئے… بنو عباس بھی گئے… عثمانی ترک بھی گئے… یہاں مغل بھی گئے… امریکہ بھی چلا جائے گا… روس بھی چلا جائے گا… کوئی نہیں رہا… کوئی نہیں رہا۔
ملے خاک میں اہل شاں کیسے کیسے
مٹے نامیوں کے نام کیسے کیسے
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمین کھاگئی آسمان کیسے کیسے
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
یہی تجھ کو دھن ہے رہوں سب سے اعلیٰ
ہو زینت نرالی ……  ہو فیشن نرالا
جیا کرتا ہے کیا… یونہی مرنے والا
تجھے حسن ظاہر نے  دھوکے میں ڈالا
جگہ جی لگانے کی دنیا  نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
تجھے پہلے بچپن نے برسوں کھلایا
جوانی نے پھر تجھ  کو مجنوں بنایا
بڑھاپے نے پھر آکے کیا کیا ستایا
اجل تیرا کردے گی   بالکل صفایا
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
میرے بندے تو مجھے چھوڑ کر کہاں جارہا ہے
میرے بھائیو! یہ مٹ جانے والا سامان … یہ چھوٹ جانے والی متاع… یہ دھوکے کا گھر… اس سے لوٹ آئو… لوٹ آئو… ادھر آجائو… ادھر آجائو… اللہ پکار رہا ہے…
{یاآیھا الانسان ماغرک بربک الکریم}
ارے میرے بندے… مجھے چھوڑ کر کہاں جارہے ہو؟اللہ کی پکار سنو… اللہ کی پکار سنو… میں کس طرح سمجھائوں… جیسے ماں نادان بچے کو سمجھاتے سمجھاتے جب عاجز آجاتی ہے… جب تھک جاتی ہے تو پھر کہتی ہے کہ:
 ہائے بیٹا تو کیسے سمجھے گا؟
 ارے بچے تو کیسے سمجھے گا؟
 تو کہاں …جارہا ہے؟
 وہ دیوانہ ہوتا ہے… پاگل ہوتا ہے…
 اسے جوانی نے انسانیت کے دائرے سے نکال کر جانوروں کے روپ میں بدلا ہوا ہوتا ہے… اس کی سمجھ ختم ہوچکی ہوتی…
 اس کی آنکھوں کا غلط دیکھنا……… اسے اندھا کرچکا ہوتا ہے…
 موسیقی کو سن سن کر اس کے دل پر پتھروں سے زیادہ سختی آچکی ہوتی ہے…
 غلط محفلوں نے اس کو برباد کردیا ہوتا ہے… کبھی مال کا نشہ… کبھی آنکھ کا نشہ… 
کبھی کان کا نشہ… کبھی جوانی کا نشہ… کبھی حکومت کا نشہ… کبھی سیاست کا نشہ… 
وہ بھول جاتا ہے کہ… وہ ………مجھے دیکھ رہا ہے…
 جس نے آنکھ دی تھی………… جس نے کان دیئے تھے… 
اس نے آنکھ اس لئے نہیں دی تھی کہ… اوروںکی بیٹیاں دیکھو…
 آنکھ اس لئے نہیں دی تھی کہ……… اوروں کی عزت کو دیکھو…
 کان اس لئے نہیں دیئے تھے کہ تم ……اس سے گانے سنو… 
یہ منہ اس لئے نہیں دیا تھا کہ………  اس سے گالیاں بکو…
 پیٹ اس لئے نہیں دیا تھا کہ اس میں حرام لقمے ڈالو اور اس میں شراب ڈالو…
اور اللہ نے شہوت اس لئے نہیں دی تھی کہ… تم زنا کے اڈے چلادو
اور زنا کے بازار گرم کردو………… نہیں… نہیں… نہیں…
 جیسے ماں آج رو کر کہتی ہے کہ اے بیٹا میں تجھے کیسے سمجھائوں… تو کیسے سمجھے گا؟ وہ دیوانہ سمجھتاہی نہیں… اللہ تعالیٰ کہہ رہاہے:
{یاایھا الانسان… یاایھا الانسان} … قرآن میں صرف دو جگہ آیا ہے…
 {یاایھا الانسان} او ر{یاایھا الانسان} مطلب کیا ہے کہ اللہ مجھے پکڑ رہا ہے
 اللہ تعالیٰ مجھے پکڑ رہا ہے… طارق جمیل…اللہ مجھے جھنجھوڑ رہا ہے کہ تجھے کیا ہوگیا ہے
… یہ جتنا مجمع بیٹھا ہے ان میں سے ایک ایک کواور جو آگئے ان کو اور جو آج عید بھی نہیں پڑھیں گے ان کو اور جو ساری دنیا کا قاتل ہے ان کو بھی… 
{یاایھا الناس}    نہیں {یاایھا المسلم}   نہیں    {یا ایھا المومن} نہیں
{یاایھا الموحد}نہیں  {یا ایھا المتقی}  نہیں  { یا ایھا المحسن}نہیں
  {یاایھا الانسان……… یاایھا الانسان} 
جیسے اللہ ایک ایک کے دروازے پر چل کے آچکا ہو اور ایک ایک کا کندھا پکڑ کر اس کو ہلا رہا ہو… ان سے کہہ رہا ہو…میرے بندے… میرے بندے… {یاایھا الانسان} … میرے بندے… {ماغرک بربک الکریم} …
 میں نے تمہیں بنایا تھا… میں نے تمہیں پالا تھا… میں کبھی تیرا بدخواہ نہیں ہوں۔۔
 تجھے دھوکا کس نے دیا…؟ تجھے مجھ سے دور کس نے کردیا…؟ 
جب بیٹا ہی ماں کے بارے میں بدگمان ہوجائے تو وہ ماں زندہ مرجاتی ہے … والدین کے بارے میں اولاد بدگمان ہوجائے… تو وہ ماں باپ زندگی میں زندہ رہ کر بھی موت کا ذائقہ چکھ لیتے ہیں…میرے بھائیو! میرے بھائیو! اللہ بلند و بالا ہے تمام تأثرات سے … لیکن اللہ نے اس آیت میں اسی قسم کا درد بتایا ہے…… ……میرے بندہ میں تیرا رب ہوں۔
… بربک الکریم… ………میں تجھ پر کرم کرنے والا…
… الذی خلقک …… ……میں تجھے بنانے والا…
… فسواک فعدلک ………تجھے برابر اعتدال سے بنانے والا…
… فی ای صورۃ ماشاء رکبک …پھر تجھے یہ سب کچھ دے کر …
شکل دے کر…آنکھیں دے کر… زبان دے کر… ہونٹ دے کر…
… الم نجعل لہ عنین …آنکھیں لگائیں…
… ولساناً …زبان دی……… وشفتین …ہونٹ دیئے…
… جعل لکم اسمع …………کان دیئے …
… والابصار …آنکھیں دی…… والافئدہ …دل دیئے…
وہ کون سی چیز ہے جو مجھ سے دوری کا سبب بنی
 اب مجھے بتا میں کبھی تیرا بدخواہ ہوسکتاہوں… میرے بندے تو مجھے کیوں چھوڑ گیا…
ماغرک بربک الکریم… میرے بندے تو مجھے کیوںچھوڑ گیا… کوئی جواب تو دے… تو مجھے کیوں چھوڑ گیا؟کس وجہ سے تو نے مجھے چھوڑا؟
کیا میں نے سورج کو چمکنے سے روک دیا… 
کیا میں نے زمین کو غلہ اگلنے سے روک دیا…
 کیا میں نے تیری نیند کو تجھ سے دور کردیا… 
تو نے میرے سامنے میری دی ہوئی آنکھوں سے غلط دیکھا… 
کیا میں نے تیری آنکھوں میں ………تیر برسادیئے… 
تو نے میرے سامنے میرے دیئے ہوئے کانوں سے موسیقی کی محفلوں میں جاجاکے سنا
 کیا میں نے تیرے کانوں کے پردے پھاڑ دیئے… 
تو نے غلط تولا……… ………کیا میں نے تیری ہاتھ توڑ دیئے… 
تیرے ہاتھ ظلم کو بڑھے…… ……تیرے قلم کے غلط فیصلے ہوئے…
 تو نے ہاتھوں سے رشوت کو لیا……… کیا میں نے تیرے ہاتھ کاٹ دیئے…
 تو غلط محفلوں کو چل کر گیا…… …… کیا میں نے تیرے پائوں توڑ دیئے…
 تیرے پیٹ میں حرام کے لقمے گئے…  کیا میں نے تیرے معدے کو چیر کے رکھ دیا
 تو اکڑ کے چلا… ……………  کیا میں نے تجھے زمین میں دھنسایا…
 مجھے بول تو سہی… میں نے کیا چیز روکی تجھ سے…
 کیا میرے سورج نے ………………چمکنا چھوڑا… 
کیا میرے سورج نے تیری کھیتیوں کو ………پکانا چھوڑا…
 کیا پانی نے برسنا چھوڑا… کیا دریائوں نے …   بہنا چھوڑا… 
کیا زمین نے خزانوں کو ………………اگلنا چھوڑا… 
کیا رات نے آنا اور …………………ڈھلنا چھوڑا… 
کیا صبح اور شام نے آنا اور ………………جانا چھوڑا… 
کیا موسم میں نے بدلے… کیا موسموں کو روکا …
یا پھلوں کی مٹھاس کو چھین لیا …یا زمین کی رگوں کو… بند کردیا …
یا غلوں کو نکالنا بند کردیا… تو کونسی نعمت اور رحمت تھی جس کا در میں نے تیرے لئے نہ کھولا ہو

اللہ کی غلامی اختیار کرلو

{یاایھا الانسان ماغرک بربک الکریم}
 ’’تو کیوں دھوکہ میں آگیا… تو کیوں مجھے چھوڑ گیا؟‘‘
َْمیرے بھائیو! اللہ کا نام دے کر سوال کرتا ہوں… اللہ کا واسطہ دے کر سوال کرتاہوں… یہاں سے توبہ کرکے اٹھو… 
کب تک اللہ سے لڑائی لڑنی ہے… کب تک اس سے جنگ کرنی ہے… 
کب تک اس کے حکموں سے باغی بن کے چلنا ہے… اس کی مان لو… 
میرے بھائیو! اس کے حکموں میں ڈھل جائو… یہی کامیابی کا راستہ ہے…
 ہم اولاد کے غلام نہیں ہیں………… بیوی بچوں کے غلام نہیں ہیں…
 حکومت کے غلام نہیں ہیں……… …ملک و قوم کے غلام نہیں ہیں…
 زمین… دکان……………… …جائیداد کے غلام نہیں ہیں…
 نوکری کے غلام نہیں ہیں … …………   ہم اللہ کے غلام ہیں… 
ہم اللہ کو منائیں گے… وہ راضی ہوگیا تو ہم کامیاب… وہ ناراض ہوگیا تو ہم ناکام…ہم اللہ کو راضی کرکے نہ جائیں… چاہے بادشاہ بھی بن جائیںتو بھی کامیابی نہیں ہے… اللہ کوناراض کرکے ہم ساری کائنات کے مالک بن جائیں تو ناکام ہیں… اللہ راضی میں کامیاب… اللہ ناراض… میں ناکام۔
اللہ مجھ سے خوش ہوگیا… …مجھے تخت پر بٹھادیا…… میرا کام بن گیا… 
مجھے منبر پر بٹھا دیا………… میرا کام بن گیا…
 مجھے جھونپڑے میں بٹھا دیا ……میرا کام بن گیا…
 مجھے گاڑی میں بٹھا دیا ………میرا کام بن گیا… 
مجھے ریڑھی پر بٹھادیا……… میرا کام بن گیا…
 مجھے ذلتوں میں گم کردیا……   میرا کام بن گیا… 
مجھے گمنام کردیا …………  میرا کام بن گیا…

اللہ ہی اللہ 

چونکہ نہ میں گمنامی سے ڈرنے والا نہ شہرت کا غلام… نہ پیسے کا غلام… نہ زندگی کا غلام… نہ سیم و زر کا غلام… میرا مطلوب اللہ …میر ا معبوداللہ…
 میرا مقصوداللہ … میرا مسجوداللہ… میرا مالک اللہ… 
میراخالق اللہ… میرا رازق اللہ… میرامولیٰ اللہ … 
میراعزیز اللہ… میرا جبار اللہ… میرامتکبر اللہ…
 میراخالق اللہ… میرا باری اللہ… میرا مصور اللہ…
 میرا غفار اللہ… میراقہار اللہ… میرا وھاب اللہ…
 میرارزاق اللہ… میرافتاح اللہ… میرا قابض اللہ…
 میرا باسط اللہ… میرا حافظ اللہ… میرا رافع اللہ…
 میرا معز اللہ… میرا معدل اللہ…میرا اللہ سمیع و بصیر… 
میرا اللہ لطیف و خبیر… میرا اللہ حکیم و غفور و شکور… 
میرا اللہ کریم و رقیب…میرا اللہ مجیب واسع… 
میرا اللہ مجید و باعث… میرا اللہ متین و ولی…
 میرا اللہ حمید و محصی…   میرا اللہ محی و ممیت… 
میرا اللہ حی القیوم…    میرا اللہ واجد وماجد… 
میرا اللہ صمد وقادر… …میرا اللہ مقدم و مؤخر…
 میرا اللہ اول و آخر…… میرا اللہ ظاہر و باطن… 
میرا اللہ والی متعال…… میرا اللہ منتقم…
 میرا اللہ غفور و رئوف…… میرا اللہ مالک الملک…
 میرا اللہ ذوالجلال والاکرام… میرا اللہ مقسط و جامع…
 میرا اللہ غنی و محی………   میرا اللہ رافع و نور… 
میرا اللہ حنان و منان…… میرا اللہ رشید و صبور…
 میرا اللہ ہی سب کچھ ہے… 

اللہ کا ہم سے مطالبہ

 میرا اللہ ہی سب کچھ ہے… وہ راضی تو میں کامیاب ہوں …وہ ناراض ہے تو میں ہلاک ہوں۔ غافل بن کے نہ سنو… میں فریاد کررہا ہوں… میں خطابت نہیں کررہا… میں فریاد کررہا ہوں… میں سوالی ہوں… میں سوالی ہوں… میری جھولی ہے آپ سے توبہ کا سوال ہے…یہ میرا سوال نہیں… میرے اللہ کا سوال ہے
{توبواالی اللہ جمیعا ایھا المؤمنون}
اے ایمان والو… توبہ کرو… میرے اللہ کا مطالبہ ہے میں تو درمیان میں واسطہ ہوں… اپنے اللہ کی بات پہنچا رہا ہوں… میں بھی توبہ کرتا ہوں… آپ کو بھی اللہ کا واسطہ ہے… توبہ کرو۔
ہائے ہائے! اس سے وفا کرو…… جو وفائوں کا حقدار ہے…
 اس کے طریقوں پر آئو ………جس کی برکت سے آج مسلمان ہو… 
اس کے طریقوں پر آئو ………جس کے طفیل آج عیدگاہ میں آئے بیٹھے ہو… 
اس کے طریقوں پر آئو ………جس کے طفیل آج انسان ہو…
اگر وہ  ا  رویا نہ ہوتا… اگر وہ تڑپا نہ ہوتا… اگر وہ مچلا نہ ہوتا…
 اگر اس نے اللہ کو منا نہ لیا ہوتا تو آج زمین میں انسان نظر نہ آتا…
 آج پاکستان میں انسان نظر نہ آتا… آج دھرتی میں کوئی مسلمان انسان نظر نہ آتا…  یا بندر ہوتا یا خنزیر ہوتا یا زیر زمین ہوتا…

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان

دعائیں دو… اس محمد عربی  ﷺ …کو جو یتیم پیدا ہوا… جو مسکین بن کے زندہ رہا… مسکنت کی موت مرگیا…
 جس کے لئے خزانوں کے ڈھیر ہوسکتے تھے… جس کے لئے قیصر و کسریٰ کیا چیز ہے ۔۔۔
 جس کے لئے جنت کو اتارا جاسکتاتھا… جس کے لئے دنیا کیا چیز ہے… 
جس کے لئے جنت الفردوس کو…… زمین پر رکھا جاسکتا تھا…
 جس کے لئے براق کی سواری اس کے در دولت پر باندھی جاسکتی تھی…
 جس کے لئے سونے چاندی کے گھر کھڑے کئے جاسکتے تھے… 
جو صبح شام نہیں صبح دوپہر شام ہر قسم کے اعلیٰ قسم کے کھانے کھا سکتا تھا… کھلا سکتا تھا…
 زرق برق لباس پہن سکتا تھا… ………پہناسکتا تھا…
 تخت سلیمانی کا وہ سلیمان سے زیادہ ………حقدار تھا …
 ذوالقرنین کے لشکروں سے زیادہ وہ لشکروں کا… حقدارتھا…
 وہ وہ ہستی جو دنیا میں رہتے ہوئے……… سب کچھ اللہ سے کرواسکتا تھا…
 اور سب کچھ اللہ اس کا کر بھی دیتا تو بھی… اس نبی کی رسالت میں کمی نہ آتی۔۔۔
 اور اس کی محبوبیت میں کمی نہ آتی… حبیب ہونے میں بال برابر بھی فرق نہ پڑتا…
 اگر وہ جنت زمین پہ اترواتا…………… سونے چاندی کے محل بناتا…
 حسن حسین رضی اللہ عنہم کے محل ہوتے… 
فاطمۃ الزہرا… زینب… رقیہ… ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے محل ہوتے… عائشہ… جویریہ… خدیجہ… ام سلمیٰ… حفصہ…میمونہ… زینب بنت خذیمہ… زینت بن حجش رضی اللہ عنہا ان سب کے محل کھڑے ہوتے… علی رضی اللہ عنہ کا محل ہوتا… جعفر کا محل ہوتا… عقیل کا محل ہوتا…عباس کا محل ہوتا … بنو ہاشم کے محل ہوتے… رسول اللہ  ﷺ کے محل ہوتے… زرق برق لباس ہوتے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا زہد

یہ سب کچھ اگر وہ مانگتا… اللہ کردیتا تو بھی اللہ کے خزانوں میں اس کے مقام میں حسن اور حسین کی جنت کی شہزادگی وسرداری کے مرتبہ میں کمی نہ ہوتی… 
فاطمہ کے سر سے جنت کی سرداری کا تاج اتارا نہ جاتا…
 حسن حسین کے سر سے جنت کی سرداری کا تاج اتارا نہ جاتا…
 وہ سب کچھ پالیتے… یہاں بھی وہاں بھی…
 لیکن اس کے باوجود اس نے پیٹ پہ پتھر باندھے… 
لوگوں نے ایک باندھا… اس نے دو باندھے…
 لوگوں نے ٹاٹ میں ٹاٹ کے پیوند لگائے…
اس نے ٹاٹ میں چمڑے کے پیوند لگائے…
 لوگوں نے صبح کھایا… شام کھایا…
 ا س نے ساری زندگی صبح کھایا تو شام نہ کھایا… شام کھایا تو صبح نہ کھایا…
 ایک دن کھایا… دو دن نہیں کھایا… تین تین دن گزر گئے اور اس کے منہ میں ایک لقمہ نہیں گیا

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی فاقہ کشی

آپ کی محبوب بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوئیں … حال پوچھنے گئے… اندر جانے کی اجازت مانگی… میری بیٹی میں اندر آئوں… میرے ساتھ ایک اور صحابی بھی ہے…
 بیٹی فاطمہ جنت کی سردار کہتی ہیں… یارسول اللہ ﷺ میرے گھر میں تو اتنا بھی رومال نہیں کہ میں چہرہ چھپا کے پردہ کرسکوں… اگر اجنبی میرے گھر میں آتا ہے تو پردہ کرنے کی چیز کوئی نہیں
یہ ادھر عیدگاہ والوں نے ادھر منبر پر بھی ایک پردہ ڈالا ہوا ہے… یہ منبر پر بھی کپڑا ڈالا ہوا ہے… اور دو جہاں کے سردارکی بیٹی کے گھر میں اتنا بھی نہیں ہے کہ وہ سر چھپالے… آپ  ﷺ نے اپنے کندھے سے چادر اتار کر اندر کردی… کہا اس سے پردہ کرلو… ابا کی چادر سے بچی نے پردہ کیا… اندر آئے صحابی کو بھی لے کر… بیٹی کیا ہوا؟۔۔۔۔
کہا… یارسول اللہ  ﷺ پہلے بھوک تھی تو روٹی نہ ملی… اب بیماری ہے تو دوا کوئی نہیں ہے اور رونے لگیں…اس سے صابر بیٹی کسی ماں نے جنی نہیں… اس سے مقدس بیٹی زمین آسمان نے دیکھی نہیں اور اس سے مقدس باپ کہاں سے کوئی لائے گا اور کون لائے گا اور کیسے لائے گا اور کیونکر لائے گا؟

باپ بیٹی کا رونا

مقدس ترین باپ مقدس بیٹی کے گلے لگ کر رورہے ہیں… اللہ کا نبی بھی رو پڑا… طائف کے پتھر کھاکے… احد کے پتھر کھا کے آنسو نہ بہا… بیٹی کے آنسوئوں نے پگھلا دیا… گھلا دیا… رلا دیا… دونوں باپ بیٹی مل کر رو رہے ہیں اور آپ  ﷺ کہہ رہے ہیں… میری بیٹی غم نہ کر… والذی بعثک باالحق مادمت من تلتۃ ایام ذوافہ… تین دن گزر چکے ہیں… تیرے باپ نے روٹی کا ایک لقمہ بھی نہیں کھایا…
دعائیں دو اس کملی والے کو… دعائیں دو اس محمد… عربی… ہاشمی قریشی کو… دعائیں دو اس …مکی… مدنی… مہاجر… کو… دعائیں دو اس طٰہٰ… ویٰسین … ابوالقاسم… فاتح…خاتم … شاہد … مبشر… نذیر کو جو خود اپنی اولاد کو تڑپا گیا… نیزوںپر چڑھوا گیا اور امت کے لئے در کھلوا گیا… اور امت کا مسئلہ حل کرواکے گیا اور میرے بھائیو تمہیں کیا ہوگیا… کس کے طریقوں کو قربان کرکے زندگی گزارتے ہو جو تمہارے لئے قربان ہوگیا… تم صبح صبح اسی کے طریقے قربان کرکے آئے بیٹھے ہو… کہاں جارہے ہو؟ شیو کرنے جارہاہوں… کیوں؟ عید کی نماز پڑھنے جانا ہے…
 تمہیں شرم نہیں آتی! نبی کی سنت کو ذبح کرتے ہوئے؟
میں تمہیں کیسے سمجھائوں… کہ تم کس کی سنت ذبح کرکے آئے بیٹھے ہو…
جو تمہارے لئے ذبح ہوگیا … خود ذبح ہوگیا… اس نے کیوں پوشاکیں چھوڑدیں…
 اس نے کیوں ٹاٹ میں چمڑے کے …پیوند لگائے…
 اس نے کیوں کھجور کی شاخوں کے گھر میں زندگی گزار دی…
 اس کے گھر کیوں نہ بستروں پر بستر بنے… اس کے گھر کیوں نہ چراغ جلے…
 وہ تو جس دن دنیا سے جارہا تھا اور بڑھاپے میں کچھ نہ کچھ آدمی اکٹھا کرلیتا ہے۔۔۔
 آج اس کی آخری رات ہے… کل اللہ کی ملاقات ہے اور عائشہ اماں کے گھر میں تیل نہیں تھا چراغ جلانے کے لئے… 
جس کے لئے سورج گھر میں اترسکتا ہو… جس کے لئے جنت کے گھر زمین پہ بنائے جاسکتے ہوں… وہ کیوں کھجور کی شاخوں کے گھر میں جان دے رہا ہے… ایک پرانی میلی سی چادر تھی جس میں اللہ کے نبی  ﷺ نے جان دی… ایک پرانی سی رضائی تھی جس میں اللہ پاک کا نبی رات کو سوتا تھا…

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا سے بے رغبتی

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک انصاری عور ت ملنے آئی… اس نے دیکھا کہ پرانی رضائی ہے میرے نبی کی… عورت نے کہا یہ پرانی ہے… میں ابھی نئی بھیجتی ہوں… وہ گھر گئی اور ایک نئی رضائی لے کر آئی… اتنے میں ہماری نبی ﷺ آئے… دیکھا پھول دار رضائی… کہا عائشہ یہ کہاں سے آئی؟
کہا یارسول اللہ ﷺ انصاری عورت آئی تھی… اس نے آپ کی پرانی رضائی دیکھی تو اس نے کہا میں نئی بھیجتی ہوں… یہ اس نے بھیجی ہے…آپ ﷺ نے کہا عائشہ… میں اس سے بہت زیادہ لے سکتا ہوں اپنے اللہ سے… جائو یہ اس کوو اپس کردو… یہ رضائی اور محمد ایک چھت میں نہیں جمع ہوسکتے… وہ لاڈلی بیوی تھیں… کہنے لگیں… یارسول اللہ ﷺ یہ بڑی اچھی لگ رہی ہے مجھے … میں نہیں واپس کروں گی…آپ نے کہا… عائشہ یہ چھت مجھے اور اس رضائی کو اکٹھے نہیں دیکھے گی… مجھے یہاں بٹھانا ہے تو رضائی کو باہر کردو… میں اس سے زیادہ اللہ سے لے سکتا ہوں… لیکن میں نے ٹھکرا دیا… وہی پرانی رضائی لی اور وہ نئی رضائی واپس کردی…
میرے بھائیو! ایک جوڑے میں زندگی گزاری… نماز کا وقت ہوتا… کپڑے خود دھوتے… سکھانے رکھتے پھر بیٹھ کے انتظار کرتے اتنے میں بلال آتے… یارسول اللہ  ﷺ نماز کا وقت ہوچکا ہے… آپ  ﷺ فرماتے میرے پاس تو اور کپڑے کوئی نہیں ہیں… میں کہاں سے نماز پڑھائوں… انتظار کرائومجمع کو …میرے کپڑے سوکھیں گے… پہن کر آئوں گا… پھر نماز پڑھائوں گا…نماز میں تاخیر ہوجاتی تھی کہ دوسرا جوڑا ان کے پاس کوئی نہیں ہوتاتھا
کائنات کا نبی اور ٹاٹ کی چادر
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ٹاٹ تھا اس کو رات کو دہرا کرتیں… صبح پھیلا دیتیں… ایک رات چار تہہ لگادیں… دوہرے کے بجائے چار تہیںکردیں…
آپ ﷺ نے صبح فرمایا… حفصہ میرابستر کیوں بدل دیا؟ 
کہا …جی بدلا تو نہیں… وہی ہے… میں نے چار تہیں کردیں…
کیوں؟کہا… ذرا نرم ہوجائے گا…کہا اٹھو… اسے ویسا ہی کردو…
 آج رات مجھے اٹھنے میں تکلیف ہوئی… اس کی نرماہٹ نے مجھے اٹھنے سے روکے رکھا… میں اللہ سے بات کرتا ہوں… میرا بستر ویسے ہی بنادو جیسے پہلے تھا۔
تم اس کی سنت کا مذاق اڑاتے ہو جو ۲۳ سال تمہارے لئے روتا رہا
میرے بھائیو! محسن کو تو دیکھو… یہ جنہوں نے ووٹ لئے ہیں پھر جو جیت گئے ہیں ان کا شکریہ ادا کرنے آئے ہیں۔ حالانکہ ان کو کرسی چاہئے… ان کو ٹیلیفون کے تار چاہئے… یہ اپنے غرض میں … وہ اپنے غرض میں… لیکن افطار پارٹی ہورہی ہے اور بلا کر شکریہ ادا کیا جارہا ہے
ارے اس کا شکریہ کیوں نہیں ادا کرتے ہو جو تمہارے لئے ۲۳ برس روتا ہی گیا… اور اتنا رویا کہ خود اللہ کو کہنا پڑا… میرے نبی اتنا تو نہ رویا کر… وہ آپ کے لئے اتنا تڑپا کہ خود بھی تڑپا… سارے گھر کو تڑپا دیا… جائو طائف کی وادی میں پوچھو …اس پہاڑ سے پوچھو … یہاں کیسے پتھر پڑے تھے… اس کو ذرا چشم تصور میں غور تو کرو کہ …جس کیلئے کائنات ہاتھ باندھ کے کھڑی ہوتی ہے۔

درخت کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا ایک منظر

ایک جگہ سوئے ہوئے ہیں… ایک درخت کونے سے دوڑا ہوا آیا… اور آپ ﷺ کے سر پر ایسے کھڑا ہوا… تھوڑی دیر کھڑا ہوا… پھر واپس چلا گیا… جب آپ ﷺ کی آنکھ کھلی تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بولے یارسول اللہ  ﷺ وہ درخت یوں آیا… یوں کھڑا ہوا… یوں چلا گیا تو آپ ﷺ نے اس کو ایک نظر دیکھا پھر ارشاد فرمایا… یہ مجھ سے دور تھا… مجھے دیکھ نہیں پارہا تھا تو اس نے اپنے اللہ سے عرض کی یااللہ تیرے حبیب کا دیدار کرنا چاہتا ہوں… مجھے زیارت کی اجازت چاہئے… تو اللہ نے اسے اجازت دی… وہ مجھے دیکھنے آیا تھا اور دیکھ کر واپس چلا گیا۔


…{واخر الدعوٰانا ان الحمداللہ رب العالمین}…

Tuesday, April 23, 2019

mout ki tayari

April 23, 2019 0
mout ki tayari



































موت کی تیاری قرآن کی روشنی میں 


(1) ارشاد رَبی ہے:
 …کل نفس ذائقۃ الموت …
ہرجاندار کو موت کا پیالہ پینا ہے۔۔۔۔۔ 
اسی بنا پر آنحضرت انے اپنی امت کو کثرت سے موت کو پیش نظر رکھنے کا حکم دیا ہے۔۔۔۔۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ا نے ارشاد فرمایا:
’’لذتوں کو توڑنے والی چیز یعنی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو۔۔۔۔۔ اس لئے کہ جو بھی اسے تنگی کے زمانہ میں یاد کرے گا تو اس پر وسعت ہوگی۔۔۔۔۔‘‘    ( رواہ البزار)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ موت کی یاد ہر حال میں نفع بخش ہے۔۔۔۔۔ مصیبت کے وقت اس کو یاد کرنے سے ہر مصیبت آسان ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔ اسی لئے قرآن کریم میں صبر کرنے والوں کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا گیا :-
’’یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں۔۔۔۔ ان ﷲ وان الیہ راجعون۔۔۔۔یعنی ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔۔۔۔۔‘‘
اسی طرح جب خوشحالی اور عافیت کے وقت موت کو یاد کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ تو اس کی وجہ سے آدمی بہت سے ان گناہوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔ جن کا داعیہ عموماً خوشحالی کے زمانہ میں قوت کے ساتھ ابھرتا ہے۔۔۔۔۔ اسی لئے حدیث بالا میں موت کو لذت توڑنے والی چیز قرار دیا گیا ہے۔۔۔۔
ایک حدیث میں ہے کہ آپ ا نے فرمایا :-
’’اگر جانوروں کو موت کے بارے میں اتنا معلوم ہوجائے جتنا کہ تم لوگوں کو معلوم ہے تو کبھی کوئی موٹا جانور تم کو کھانے کو نہ ملے۔۔۔۔۔ (یعنی موت کے خوف سے سب کمزور ہوجائیں)‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ا نے فرمایا :
’’ جو شخص دن رات میں بیس مرتبہ موت کو یاد کرے۔۔۔۔۔ تو قیامت کے دن شہیدوں کے ساتھ اٹھے گا۔۔۔۔۔ ‘‘
جناب رسول اللہ ا  کا ایک دفعہ ایک مجلس پر گزر ہوا۔۔۔۔۔ جہاں سے لوگوں کے زور زور سے ہنسنے کی آواز آرہی تھی ۔۔۔۔۔ 
اس پر حضور ا نے فرمایا کہ: اپنی مجلسوں میں لذتوں کو توڑنے اور ختم کردینے والی چیز کا تذکرہ شامل کرلیا کرو۔۔۔۔۔ 
صحابہ نے عرض کیا کہ: یارسول اللہا  لذتوں کو توڑنے والی کیا چیز ہے؟۔۔۔ 
آپ انے فرمایا : موت!۔۔۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ موت کو کثرت سے یاد کیا کرو۔۔۔۔۔ یہ گناہوں کو زائل کرتی ہے اوردنیا سے بے رغبتی پیدا کرتی ہے۔۔۔۔۔ 

موت کا وقت معین آنے پر کسی کو مہلت نہیں ملتی


(2) موت کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک دوسری جگہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ولن یوخر اﷲ نفسا اذا جآء اجلھا واﷲ خبیر بما تعملون‘‘
’’اور اﷲ تعالیٰ کسی کو ہر گز مہلت نہیں دیتا جب اس کی میعاد مقرر (موت کی گھڑی) آجاتی ہے۔۔۔۔۔ اور جو کچھ تم کررہے ہو اﷲ اس سے باخبر ہے۔۔۔۔‘‘
حکم ہورہا ہے کہ جب وقت موعود آجائے گا۔۔۔۔۔ تو تمام حسرت و تمنا دھری کی دھری رہ جائے گی۔۔۔۔۔ 
حضرت ابن عباس ص نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا: کہ جس شخص کے ذمہ زکوٰۃ واجب تھی اور ادا نہیں کی۔۔۔۔ یا حج فرض تھا ادا نہیںکیا۔۔۔۔۔ وہ موت آجانے پر اﷲ تعالیٰ سے اس کی تمنا کرے گا کہ میں پھر دنیا کی طرف لوٹ جاؤں۔۔۔۔۔ یعنی موت مؤخر ہوجائے اور مجھے کچھ مہلت مل جائے۔۔۔۔۔ تاکہ میں صدقہ و خیرات کرلوں اور فرائض سے سبکدوش ہوجاؤں۔۔۔۔۔
وہ مرنے کے وقت یہ بھی تمنا کرے گا کہ کچھ اور مہلت مل جائے۔۔۔۔۔ تاکہ میں ایسے نیک اعمال کرلوں جن کی وجہ سے صالحین میں داخل ہوجاؤں۔۔۔۔۔ اور جو فرائض و واجبات ادا نہ کرسکا ان کو ادا کرلوں۔۔۔۔۔ جن محرمات و مکروہات میں مبتلا رہا ہوں ان سے توبہ و استغفار کرکے سرخرو ہوجاؤں۔۔۔۔۔ حق تعالیٰ فرمائے گا کہ موت کے آجانے کے بعد کسی کو مہلت نہیں دی جاسکتی ۔۔۔۔۔ اب یہ تمنائیں لغو اور فضول ہیں۔۔۔۔۔ 
امام رازی ؒ فرماتے ہیں:
’’ویعض انا ملہ علیٰ فقد ماکان صتمکنا بہ‘‘
’’پھر وہ اپنی انگلیوں کو کاٹ کاٹ کر کھائے گا۔۔۔۔۔ اس وقت کے گزرنے پر جس پر اسے اس سے قبل اختیار تھا ۔۔۔‘‘ (تفسیر کبیر ج۲۹۔ ۱۹)
کہاں سے آئے؟ کیوں آئے؟ 
کہاں جائیں گے؟ کیا ہوگا؟

(3) یہ ایک نہایت اہم اور مقدم سوال ہے جس کا جواب ہر بالغ ذی شعور کے ذہن میں ہونا چاہئے۔۔۔۔۔ جس شخص نے اس سوال پر کبھی غور ہی نہیں کیا۔۔۔۔۔ اس سے زیادہ بے نصیب و بے شعور کون ہوگا؟
کیا تخلیق انسان کا مقصد صرف یہی ہے کہ کھایا۔۔۔۔۔ پیا اور سوگئے؟ او رکیا اس کے ذمہ یہی کام ہے کہ جائز و ناجائز طریقہ سے مال و دولت سمیٹتا رہے۔۔۔۔۔ کارخانے بڑھاتا رہے۔۔۔۔۔ کوٹھیاں۔۔۔۔۔ بنگلے تعمیر ہوتے رہیں۔۔۔۔۔ ہر لمحہ عیش و عشرت میں مدہوش رہے۔۔۔۔۔ اور اسی حال میں اچانک ایک دن موت اسے اچک لے۔۔۔۔۔ اور قبر میں داخل ہوجائے؟۔۔۔۔۔
’’افحسبتم انما خلقنٰکم عبثا و انکم الینا لا ترجعون‘‘
’’کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ ہم نے تمہیں عبث (بے مقصد) پیدا کیا ہے اور تم ہمارے پاس نہیں آؤ گے؟‘‘
نہیں نہیں ایسا نہیں ہے کہ یہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے بیکار بے فائدہ پیدا کیا گیا ہو۔۔۔۔۔ اس کے کچھ فرائض ہیں۔۔۔۔۔ اس کی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔۔۔۔۔ اس کی زندگی کا کچھ لائحہ عمل ہے۔۔۔۔۔ جو کہ قرآن کریم کی صورت میں اسے دیا گیا ہے۔۔۔۔۔ 
اگر اس نے اپنے فرائض پورے نہ کئے۔۔۔۔۔ اوراپنی ذمہ داریوں کو نہ نبھایا۔۔۔۔ اور اپنی زندگی قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف بسر کی۔۔۔۔۔۔ تو یہ مسکین انسان اس قدر نقصان اٹھائے گا۔۔۔۔۔ کہ اس کی تلافی کی کوئی صورت نہ رہے گی۔۔۔۔۔ اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کبھی نہ ختم ہونے والے عذاب الیم میں گرفتار ہوجائے گا ’’اللھم احفظنا منہ‘‘
بڑا کمبخت ہے جس نے کبھی یہ نہیں سوچا
کہاں سے آئے کیوں آئے کہاں جائیں گے کیا ہوگا؟
حضرت عبداﷲ بن عباس ص کے نزدیک۔۔۔۔۔ ایک اور آیت اس سے بھی افضل ہے اور وہ یہ ہے :
’’وان ربک لذو مغفرۃ للناس علیٰ ظلمھم‘‘ (قرطبی)
’’بے شک آپ کا پروردگار لوگوں کے گناہ معاف کرنے والا ہے۔۔۔۔۔‘‘
سورئہ انعام میں ارشاد ہے:
’’کتب ربکم علیٰ نفسہ الرحمۃ انہ من عمل منکم سوء بجھالۃ ثم تاب من بعدہ واصلح فانہ غفور رحیم‘‘
’’تمہارے پروردگار نے اپنے اوپر رحمت لازم کررکھی ہے ۔۔۔۔۔ بے شک تم میں سے جو کوئی نادانی سے بُرائی کر بیٹھے پھر وہ اس کے بعد توبہ کرلے اور اپنی حالت درست کرلے تو وہ (اﷲ) بڑا مغفرت والا بڑا رحمت والا ہے۔۔۔۔۔‘‘ (الانعام: ۵۴)
اس آیت میں بخشش و رحمت کے لئے ندامت و سچی توبہ کے ساتھ اصلاح احوال و اعمال شرط ہے۔۔۔۔۔ صرف زبان سے توبہ توبہ بجز اصلاح اعمال اﷲ کے ہاں کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔۔۔۔۔ بلکہ اپنے پروردگار کے ساتھ مذاق ہے ۔۔۔۔۔ 
جیسا کہ حضرت ابن عباس ص سے مروی ہے:
’’المستغفر من الذنب وھو مقیم علیہ کالمستھزیٔ بربہ‘‘ 
           (الترغیب ج۴ ص۹۷)
گناہ سے توبہ کرنے والا اور گناہ پر اصرار کرنے والا اس شخص کی طرح ہے (جو نعوذ باﷲ) اپنے پروردگار سے مذاق کررہا ہو۔۔۔  (از مولانا عبدالرحمن عاجز)
گناہ سے کوئی انسان پاک و صاف نہیں
گناہ کوئی بھی لیکن تو بار بار نہ کر
پہلی زندگی دنیا کی اور دوسری قبر کی

(4) سورۃ المومن میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’’ قالوا ربنا امتنا اثنتین واحییتنا اثنتین فاعترفنا بذنوبنا فھل الیٰ خروج من سبیل‘‘ (المؤمن:۱۲)
اے رب ہمارے! تو موت دے چکا ہمیں دوبار اور زندگی دے چکا دو بار۔۔۔۔۔ اب ہم قائل ہوئے اپنے گناہوں کے ۔۔۔۔۔ تو کیا اب بھی نکلنے کو کوئی راہ ہے۔۔۔۔۔ (تاکہ دنیا میں جا کر نیک اعمال بجا لائیں)
’’ان الامتۃ الاولیٰ فی الدنیا بعد الحیاۃ والثانیۃ فی القبر قبل البعث والاحیاء الآتی فی القبر للمسائلۃ والثانیۃ فی الحشر عن السدی وھو اختیار ابلخی ان الحیاۃ الاولیٰ فی الدنیا والثانیۃ فی القبر عن الجبائی‘‘
’’پہلی موت دنیا کی ہے زندگی کے بعد اور دوسری قبر میں قیامت سے قبل۔۔۔۔۔ قبر کی زندگی (منکر نکیر کے ) سوالات کیلئے ہے۔۔۔۔۔ دوسری زندگی حشر کی (حساب زندگی کیلئے) یہ قول حضرت سدی کا ہے اس کو ابلخی نے بھی اختیا رکیا ۔۔۔۔ پہلی زندگی دنیا کی ہے اور دوسری قبر کی ۔۔۔۔ یہ حضرت جبائی کا قول ہے۔۔۔‘‘        (مجمع البیان للطبرانی ج۸ص۵۱۶ حوالہ موت کے سائے)
موت کا وقت مقر رہے

(5) اﷲ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
’’ولکل امۃ اجل فاذا جاء اجلھم لا یستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون‘‘
’’اور ہر گروہ کا ایک وعدہ ہے جب ان کا وعدہ آئے گا تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہو نہ آگے۔۔۔۔۔‘‘
تفسیر صاوی نے اس کا ترجمہ اس طرح کیا ہے:
’’لکل فرد من افراد الامۃ وقت معین‘‘
’’افراد امت میں سے ہر فرد کے لئے ایک وقت معین ہے۔۔۔۔۔‘‘
واضح ہوا کہ یہ کہنا فلاںشخص کو جلدی ہی موت نے پالیا۔۔۔۔۔ بے وقت موت آگئی۔۔۔۔۔ وقت سے پہلے موت آگئی۔۔۔۔۔ ابھی اس کے مرنے کا وقت تو نہیں تھا۔۔۔۔۔ اور اس قسم کے تمام جملے جاہلانہ کلام ہے۔۔۔۔۔
موت کا ذکر قرآن حکیم نے مختلف انداز سے مختلف مقامات پر فرمایا ہے۔۔۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ حضرات کے سامنے موت کا ذکر اس ترتیب سے کروں جو آسانی سے آپ کو سمجھ آسکے۔۔۔۔۔ اﷲ تعالیٰ مجھے شرح صدر سے بیان کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔۔۔۔۔ 
موت بہر حال آنی ہے

(6) ایک اور جگہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’قل ان الموت الذی تفرون منہ فانہ ملاقیکم ثم تردون الیٰ عالم الغیب والشھادۃ فینبئکم بما کنتم تعملون‘‘ 
’’فرما دیجئے جس موت سے تم فرار کرتے ہو۔۔۔۔۔ وہ کہیں ضرور ملے گی اور تمہیں اس کی طرف لوٹنا ہے۔۔۔۔۔ جو سب ظاہر و باطن کا علم رکھتا ہے اور تمہارے اعمال سے تمہیں متنبہ کرے گا۔۔۔۔۔‘‘    (سورہ جمعہ)
حضرات گرامی! موت آپ سے اجازت لے کر نہیں آئے گی۔۔۔۔۔ جس وقت موت کے آنے کا وقت آگیا وہ آجائے گی۔۔۔۔۔ نہ تو اسے بادشاہوں کے قلعے روک سکیں گے۔۔۔۔۔ اور نہ ہی بلند و بالا دیواریں اس کی راہ میں حائل ہوں گی۔۔۔۔۔ موت  آئے گی۔۔۔۔

موت کا ذائقہ


(7) اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:
’’کل نفس ذائقۃ الموت ط ثم الینا ترجعون‘‘  (سورئہ عنکبوت)
’’ہر جاندار کو ایک نہ ایک روز ضرور موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔۔۔۔۔ پھر تم سب کو ہمارے پاس لوٹ کر آنا ہے۔۔۔۔۔(اور دنیا میں کئے ہوئے اپنے اپنے اعمال کا حساب دینا ہے)‘‘
اب ذائقہ یا تو کڑوا ہوتا ہے یا میٹھا ہوتا ہے۔۔۔۔۔ جس انسان نے اچھی زندگی گزاری ہوگی وہ جب موت کا پیالہ پئے گا تو اسے میٹھا ذائقہ محسوس ہوگا اور جس انسان نے غفلت کی زندگی گزاری ہوگی اس کے لئے وہ پیالہ اتنا کڑوا ہوگا کہ پینا مشکل ہوجائے گا۔۔۔۔۔ تاہم چارو ناچار اسے پینا ہوگا۔۔۔۔۔
دوستو! کبھی تم نے تنہائی و علیحدگی میں بیٹھ کر یہ بھی سوچا ہے کہ وہ دوست و یار جو پچھلے دنوں پچھلے ماہ و سال میں تمہارے ساتھ رہتے تھے۔۔۔۔۔ جن سے تمہاری مجلسیں قائم ہوتی اور سجتی تھیں۔۔۔۔۔ جن کے ساتھ رنگ رلیاں اور عیش و عشرت منائی جاتی تھیں۔۔۔۔۔ آج وہ سب کہاں گئے؟ 
جس طرح سے آج تم اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو۔۔۔۔۔ 
جس طرح سے آج تمہیں اپنے کام سے کسی وقت بھی کھانے کمانے اور دنیا طلبی سے فرصت نہیں ملتی۔۔۔۔۔ کل وہ بھی اسی طرح اسی طرح اس دنیا میں مشغول رہتے تھے۔۔۔۔۔ 
جس طرح تمہیں صبح و شام ۔۔۔۔۔ دن رات یہی فکر اور یہی بیماری ہے کہ مل جائے پیسہ۔۔۔۔۔ خواہ ہو کیسا۔۔۔۔۔ 
اسی طرح سے ان مرنے والوں کا حال تھا۔۔۔۔۔ ان کو کسی وقت بھی تھوڑا بہت وقت نکال کر عبادت الٰہی کرنے اور اپنی دل جمعی کرنے کی فرصت نہ ملتی تھی اور نہ ہی مل سکی۔۔۔۔۔ نتیجہ یہ کہ اپنی انمول زندگی (جو کہ سرمایہ آخرت تھی) دنیا کے جال اور عیش میں پھنس کر اس کے سمیٹنے اور جمع کرنے پر قربان کردی۔۔۔۔۔
یہاں تک کہ اس حالت میں موت نے انہیں آدبوچا۔۔۔۔۔ جب موت کے پنجے میں گرفتار ہوئے۔۔۔۔۔ تو سب آرزوئیں اور دل کے ارمان خاک میں مل گئے۔۔۔۔۔ اسی حالت میں کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر زمین کے نیچے جادبے۔۔۔۔۔
لہٰذا یہ دنیا عارضی ٹھکانہ ہے۔۔۔۔۔ جس نے یہاں خوشیوں کا گنج پایا۔۔۔۔۔ اسے موت کا رنج ضرور ملا۔۔۔۔ مگر افسوس ہے اس پر جو دنیا کی رنگینیوں میں یوں کھو جائے۔۔۔۔ کہ اپنی موت ہی سے غافل ہوجائے۔۔۔۔ افسوس! آج ہمیں موت یاد نہیں۔۔۔۔
اگر ہمیں موت یاد ہوتی۔۔۔۔ تو کیا ہم نماز سے جی چراتے؟ 
اگر ہمیں موت یاد ہوتی۔۔۔۔ تو کیا ہم فلموں ۔۔۔۔۔ ڈراموں میں وقت برباد کرتے؟ ۔۔۔۔۔
اگر ہمیں موت یاد ہوتی۔۔۔۔ تو کیا ہم گانے باجے سنتے؟ ۔۔۔۔۔
اگر ہمیں موت یاد ہوتی۔۔۔۔ تو کیا ہم تلاوت قرآن او راپنے پیارے نبی ا کے فرمان کو فراموش کرتے؟ ۔۔۔۔۔
اگر ہمیں موت یاد ہوتی۔۔۔۔ تو کیا ہم نیک اعمال سے دور ہوتے؟۔۔۔۔
آج گھر گھر میں بے سکونی ہے۔۔۔۔۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر روٹھ جانا۔۔۔۔۔ ہر بات پر اڑ جانا اور اپنی انا کا مسئلہ بنا لینا۔۔۔۔۔ دن رات دنیوی کاموں ہی میں مشغول رہنا ۔۔۔۔ سنتوں بھرے اجتماعات سے دور رہنا۔۔۔۔ صرف دنیاوی گھر ہی کو سجانے۔۔۔۔ سنوارنے میں لگے رہنا اورآخری گھر کی کوئی فکر نہ کرنا۔۔۔۔۔ موت سے غفلت کی نشانیاں ہیں۔۔۔۔۔ یقینا جو موت اور اس کے بعد والے معاملات سے آگاہ ہے۔۔۔۔ اسے دنیاوی آسائشوں اور راحتوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔۔۔۔۔
’’کل من علیھا فان ویبقیٰ وجھہ ربک ذوالجلال والاکرام‘‘
’’اے نبی! جتنی مخلوقات روئے زمین کی ہے۔۔۔۔۔ سب فنا ہونے کے لئے ہے اور باقی رہنے کے لئے صرف ایک تمہارے پروردگار کی ذات عالی ہے۔۔۔۔۔‘‘
خاتم الانبیاء جناب محمدرسول اﷲ ا نے ایک روز حضرت عبداﷲ ابن عمر ص کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔۔ اور فرمایا: عبداﷲ خبردار ہوجاؤ اور دیکھو دنیا میں اس طرح رہو جیسے کہ کوئی مسافر رہتا ہے۔۔۔۔۔ نہیں بلکہ جیسے کوئی مسافر رستہ چلتا ہوا رہتا ہے۔۔۔۔۔ اور اے ابن عمر! جب تم پر شام ہو تو صبح کا انتظار کرو۔۔۔۔۔ اور بیماری سے تندرستی کو غنیمت جانو ۔۔۔۔۔ نیز مرنے سے جینے کو غنیمت سمجھو۔۔۔۔۔        (صحیح بخاری)
غنیمت سمجھ زندگی اسے فنا

کہ تیر قضا چل چکا چل چکا
ادھر سانس دن گن رہے ہیں تیرے

ادھر قبر منہ اپنا پھاڑے ہوئے
مسافر ہے ملک عدم کا بشر

اور اس پر تیرا حیف یہ کروفر
ذرا کوچ کا حال معلوم کر

کہ آخر کو ہوتا ہے زیرو زبر
وہ کیا شان ہوگی مسافر تیری
کڑی تجھ پہ جب آئے گی موت کی
انسان خوشی کے شادیانے بجارہا ہوتا ہے۔۔۔۔۔ تو ناگہاں لقمہ اجل بن جاتا ہے۔۔۔۔ ملک الموت سمن گرفتاری لے کر آجاتے ہیں۔۔۔۔ کبھی انسان کسی دوسرے انسان کی بیمارپرسی کے لئے جاتا ہے تو واپس اس کی نعش آتی ہے۔۔۔۔۔ غرض انسان کچھ سوچتا ہے ادھر تقدیر الٰہی میں فرشتوں کو اس کی روح قبض کرنے کیلئے حکم مل چکا ہوتا ہے۔۔۔۔ 
موت کی خوفناک گھڑی

(8) چنانچہ ارشاد بار تعالیٰ ہے:
’’اذا جاء اجلھا لا یستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون‘‘
’’جب آپہنچے گا ان کا وعدہ(موت) پھر پیچھے سرک سکیں گے ایک گھڑی اور نہ آگے سرک سکیں گے۔۔۔۔۔‘‘
یعنی موت کا وقت مقرر ہے۔۔۔۔۔ کسی کو علم نہیں سوائے اﷲ تعالیٰ کے کہ کب موت کی گھڑی آپہنچے گی ۔۔۔۔۔ ایک لمحہ کی تاخیر و تقدیم نہ ہوگی۔۔۔۔۔ موت سے کسی کو مفر نہیں ۔۔۔۔۔ چاہے کوئی شاہ ہو یا گدا۔۔۔۔۔ غنی ہو یا فقیر۔۔۔۔۔ پہلوان ہو یا ناتواں۔۔۔۔۔ غرض ہر ایک کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔۔۔۔۔
مضبوط قلعہ بھی موت سے نہیں بچا سکتا

(9) لہٰذا ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اینما تکونوا یدرکم الموت ولوکنتم فی بروج مشیدہ‘‘
’’تم جہاں کہیں بھی ہو موت تمہیں پالے گی۔۔۔۔۔ اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں ہی کیوں نہ پناہ گزیں ہوجاؤ۔۔۔۔۔‘‘ (النسائ:۷۸)    
آتے رہتے ہیں پیش نظر دن رات جنازوں کے منظر
حیرت ہے کہ پھر کیوں اپنی اجل ہم دل سے بھلائے بیٹھے ہیں
یعنی کسی متنفس کو موت سے چھٹکارا نہیں ہے۔۔۔۔۔ قلعہ میں ہو یا جھونپڑی میں۔۔۔۔۔ خشکی میں ہو یا تری میں۔۔۔۔۔ سفر میں ہو یا حضر میں۔۔۔۔۔ امیر ہو یا غریب۔۔۔۔۔ بادشاہ ہو یا فقیر۔۔۔۔۔ کوئی بھی ہو۔۔۔۔۔ کسی جگہ بھی ہو۔۔۔۔۔ مقررہ وقت پر موت ضرور آئے گی۔۔۔۔۔ دنیا کی ہر چیز میں اختلاف تو ہے مگر مرنے میں سب کا اتفاق ہے۔۔۔۔۔ روزانہ اس کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔۔۔۔۔ قرآن و حدیث سے بھی یہی ثابت ہے۔۔۔۔۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:
’’کل من علیھا فان‘‘ جتنے یہاں ہیں سب فانی ہیں۔۔۔۔۔
موت کے بعد زندگی کا ثبوت: قرآن کی نظر میں

(10) ایک جگہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’الذین کفروا لھم عذاب شدید والذین آمنوا وعملوا الصٰلحٰت لھم مغفرۃ واجر کبیرO افمن زین لہ سوٓء عملہ فراٰہ حسنا ط فان اﷲ یضل من یشاء و یھدی من یشاء فلا تذھب نفسک علیھم حسرت ط ان اﷲ علیم بمایصنعونO واﷲ الذیٓ ارسل الریٰح فتثیر سحابا فسقنٰہ الیٰ بلد میت فاحیینا بہ الارض بعد موتھا ط کذالک النشورO‘‘
’’جو لوگ کافر ہوئے ان کے لئے سخت سزا ہے۔۔۔۔۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ان کے لئے بخشش ہے اور بہت بڑا اجر ہےo کیا پس وہ شخص جس کے لئے اس کے برے اعمال زینت دئیے گئے ہیں اور وہ انہیں اچھے اعمال سمجھ رہا ہے یقین مانا کہ اﷲ جسے چاہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہے راہ راست دکھاتا ہے۔۔۔۔۔ پس تجھے ان پر غم کھا کھا کر اپنی جان ہلاکت میں نہ ڈالنی چاہئے۔ یہ جو کچھ کررہے ہیں اس سے یقینا اﷲ تعالیٰ بخوبی واقف ہےo اﷲ ہی ہوائیں چلاتا ہے جو بادلوں کو اٹھاتی ہیں۔۔۔۔۔ پھر ہم بادلوں کو خشک زمین کی طرف لے جاتے ہیں اور اس سے اس زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کردیتے ہیں۔۔۔۔۔ اسی طرح دوبارہ جی اٹھنا بھی ہےo‘‘
امام ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں موت کے بعد کی زندگی پر عموماً خشک زمین کے ہرا ہونے سے استدلال کیا گیا ہے۔۔۔۔۔ جیسے سورئہ حج وغیرہ میں ہے۔۔۔۔۔ بندوں کے لئے اس میں پوری عبرت اور مردوں کے زندہ ہونے کی پوری دلیل اس میں موجود ہے۔۔۔۔۔ کہ زمین بالکل سوکھی پڑی ہے۔۔۔۔۔ کوئی تروتازگی اس میں نظر نہیں آتی۔۔۔۔۔ لیکن بادل اٹھتے ہیں۔۔۔۔۔ پانی برستا ہے کہ اس کی خشکی تازگی سے اور اس کی موت زندگی سے بدل جاتی ہے۔۔۔۔۔ یا تو ایک تنکا نظر نہ آتا تھایا کوسوں تک ہریاول ہی ہریاول ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔
اسی طرح بنو آدم کے اجزاء قبروں میں بکھرے پڑے ہوں گے۔۔۔۔۔ ایک سے ایک الگ ہوگا۔۔۔۔۔ لیکن عرش کے نیچے سے پانی برستے ہی تمام جسم قبروں میںسے اگنے لگیں گے۔۔۔۔۔ جیسے زمین سے دانے اگ آتے ہیں۔۔۔۔۔
چنانچہ صحیح حدیث میں ہے۔۔۔۔ ابن آدم تمام کا تمام گل سڑ جاتا ہے۔۔۔۔۔ لیکن ریڑھ کی ہڈی نہیں سڑتی۔۔۔۔۔ اسی سے پیدا کیا گیا ہے۔۔۔۔ اور اسی ترکیب سے دیا  جائے گا۔۔۔۔         (بخاری کتاب التفسیر)
یہاں بھی نشان بتا کر فرمایا کہ اسی طرح موت کے بعد کی زیست ہے۔۔۔۔۔ سورئہ حج کی تفسیر میں یہ حدیث گزر چکی ہے کہ۔۔۔۔
ابورزین ص نے رسول اﷲ ا سے پوچھا: حضورا  اﷲ تعالیٰ مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا؟۔۔۔۔ اور اس کی مخلوق میں اس بات کی کیا دلیل ہے؟ ۔۔۔۔
آپ ا نے فرمایا:
’’ اے ابو رزین! کیا تم اپنی بستی کے آس پاس کی زمین کے پاس سے اس حالت میں نہیں گزرے کہ وہ خشک بنجر پڑی ہوئی ہوتی ہے۔۔۔۔۔ پھر دوبارہ تم گزرتے ہوتو دیکھتے ہو کہ وہ سبزہ زار بنی ہوئی ہے۔۔۔۔ اور تازگی کے ساتھ لہرا رہی ہے۔۔۔‘‘
ابو رزین نے جواب دیا: ’’ہاں! حضورا! یہ تو اکثر دیکھنے میں آیا ہے۔۔۔ ‘‘
آپ ا نے فرمایا: بس اسی طرح اﷲ تعالیٰ مردوں کو زندہ کردے گا۔۔۔۔۔   (احمد حوالہ ابن کثیر)
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ان اﷲ عندہ علم الساعۃ و ینزل الغیث ویعلم ما فی الارحام وما تدری نفس ما ذا تکسب غدا وما تدری نفس بای ارض تموت ان اﷲ علیم خبیرO‘‘
’’قیامت کب آئے گی؟۔۔۔۔ بارش کس وقت ہوگی؟۔۔۔۔۔ ماں کے پیٹ سے بچہ پیدا ہوگا یا بچی؟۔۔۔۔۔ انسان اگلے دن میں کیا کرے گا؟۔۔۔۔ اور انسان کو کس جگہ پر موت آئے گی؟۔۔۔۔ ان پانچ چیزوں کا علم اﷲ رب العزت نے کسی کو نہیں دیا۔۔۔۔۔‘‘
حیات پر موت کی تقدیم کا راز

(11) حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر دامت برکاتہم نے ایک مجلس میں ارشاد فرمایا:۔۔۔۔ ۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:۔۔۔۔
’’الذی خلق الموت والحیوٰۃ ‘‘
’’وہ اﷲ جس نے موت کو پیدا کیا اور زندگی کو۔۔۔۔۔‘‘
شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوریؒ نے یہ آیت پڑھاتے ہوئے۔۔۔۔
فرمایا: اے اختر! بتاؤ موت پہلے آتی ہے یا زندگی؟ 
میںنے عرض کیا: کہ حضرت زندگی پہلے آتی ہے۔۔۔۔۔ 
فرمایا: کہ یہاں اﷲ تعالیٰ نے موت کو کیوں پہلے بیان کیا؟ آہ حضرت نے کیا جواب دیا سن لیجئے۔۔۔۔۔ 
فرمایا: کہ جس کی زندگی کے سامنے اپنی موت ہوگی اس کی زندگی اﷲ والی ہوجائے گی۔۔۔۔۔ وہ غفلت اور گناہ میں اپنی زندگی کو غارت نہیں کرے گا۔۔۔۔۔ جس زندگی کے سامنے اپنی روانگی اور اپنا وطن ہوگا۔۔۔۔۔ وہ پردیس کی رنگینیوں میں پھنس کر تعمیر وطن سے کبھی غافل نہیں ہوگی۔۔۔۔۔ اس لئے اﷲ تعالیٰ نے یہاں موت کو مقدم فرمایا:
’’لیبلوکم ایکم احسن عملا ‘‘
تاکہ اﷲ تعالیٰ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے۔۔۔۔۔ دنیا عالم امتحان ہے۔۔۔۔۔ عالم بلا ہے۔۔۔۔۔ عالم ابتلاء ہے۔۔۔۔۔ اﷲ نے اس عالم امتحان میں ہمیں اس لئے نہیں بھیجا کہ یہاں سانڈ کی طرح رہو۔۔۔۔۔ سانڈ کا مزاج ہوتا ہے کہ ہر کھیت میں منہ ڈالتا ہے اور کھیت والوں کی لاٹھی کھاتا ہے۔۔۔۔۔ اﷲ نے فرمایا: ہم نے تم کو آزاد نہیں پیدا کیا۔۔۔۔۔ امتحان کے لئے پیدا کیا ہے۔۔۔۔۔ یہ دنیا امتحان کی جگہ ہے۔۔۔۔۔
امیہ بن خلف کے اعتراض پر اﷲ پاک کا جواب

(12) ایک روایت میں ہے کہ حضورا کی خدمت میں امیہ بن خلف آیا۔۔۔۔۔ یا عاص بن وائل آیا۔۔۔۔۔ یا ولید بن مغیرہ آیا۔۔۔۔۔ تین قول ہیں۔۔۔۔۔ ہاتھ میں پرانی ہڈی تھی۔۔۔۔۔ اس نے آپ ا  کو دکھائی۔۔۔۔۔پھر اسے مسلا۔۔۔۔۔ پھر ہوا میں اڑاد یا۔۔۔۔۔   کہنے لگا:۔۔۔۔
’’اتزعم ان ربک یحی ھذہ وھی رمیم‘‘
’’کیا کہتا ہے تو اے محمد(ا) تیرا رب اسے بھی زندہ کرے گا۔۔۔ حالانکہ یہ بکھر گئی ہے۔۔۔‘‘
اﷲ تعالیٰ نے جبرائیل کو اتارا۔۔۔
’’وضرب لنا مثلا و نسی خلقہ۔۔۔ قال من یحی العظام وھی رمیم۔۔۔قل یحییھا الذی انشاھا اول مرۃ۔۔۔ وھو بکل خلق علیم۔۔۔‘‘
میرے ہاتھ سے پیدا ہوا مجھے مثالیں دیتا ہے اور کہتا ہے اس ہڈی کو کون زندہ کرے گا۔۔۔۔۔ اے میرے نبی! اسے کہو۔۔۔۔۔ تو وہ وقت یاد کر جب تو کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔۔ ھل اتی علی الانسان حین من الدھر لم یکن شیئا مذکورا۔۔۔۔ وہ دن یاد کر۔۔۔۔۔ جب تو کچھ بھی نہیں تھا اور میں نے تمہیں عدم سے وجود بخشا۔۔۔۔
من نطفہ۔۔۔۔ اس نطفے سے۔۔۔
من ماء مھین۔۔۔۔ ناپاک پانی سے۔۔۔
من نفطۃ امشاج۔۔۔۔ مرد عورت کے پانی سے۔۔۔
من سلالۃ من طین۔۔۔۔ کھنکتی ہوئی مٹی سے۔۔۔
جب میں نے تمہیں عدم سے وجود بخشا ۔۔۔۔۔ تو میں تیرے ذرات کو بھی جمع کرسکتا ہوں اور تجھے جمع کروں گا اور کھڑا کروں گا۔۔۔۔۔ 
حضور ا نے فرمایا: 
’’سن لے اے عاص! اﷲ اس ہڈی کو بھی جمع کرے گا۔۔۔۔ اور اسے بھی زندہ کرے گا۔۔۔۔ اور تجھے بھی زندہ کرے گا۔۔۔۔ اور تجھے جہنم کا عذاب چکھائے گا۔۔۔‘‘
اور ایک بات یاد رکھئے کہ موت کا علم کسی کو نہیں ہے کہ کب آئے گی۔۔۔۔۔ کتابوں میں ایک واقعہ لکھا ہے ۔۔۔۔۔
انسان کی زندگی ہوا میں رکھے ہوئے چراغ کی مانند ہے۔۔۔۔۔ بوڑھا آدمی اگر چراغ سحر ہے تو جوان آدمی چراغ شام ہے۔۔۔۔۔ جس طرح ہوا کے اندر رکھا ہوا چراغ ایک جھونکے کا محتاج ہوتاہے۔۔۔۔۔ ایسے ہی انسانی زندگی بھی ایک پل کی محتاج ہوتی ہے۔۔۔۔۔
زندگی کیا ہے ایک تھرکتا ہوا ننھا سا دیا
ایک ہی جھونکا جسے آکے بجھا دیتا ہے
یا سرمژگاں غم کا تھرکتا ہوا آنسو
پلک جھپکنا جسے مٹی میں ملا دیتا ہے
جس طرح پلک کا آنسو پلک جھپکتے ہی مٹی میں مل جاتا ہے۔۔۔۔۔ ایسے ہی انسان ایک لمحے میں اس جہان سے اگلے جہان کی طرف رخصت ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔ مقصد زندگی اﷲ رب العزت کی بندگی۔۔۔۔۔ صحیح معنوں میںبندہ وہی ہوتا ہے جس میں بندگی ہو ورنہ سراسر گندہ ہوتا ہے۔۔۔۔۔ جھوٹ اور فریب پلندہ ہوتا ہے۔۔۔۔۔ جو بھی اس دنیا میں آیا اس کو بالآخر دنیا سے جانا ہے:
’’وما جعلنا لبشر من قبلک الخلد‘‘ 
’’اے محبوب! ہم نے آپ سے پہلے بھی کسی کے لئے یہاں ہمیشہ رہنا نہیں لکھا۔۔۔۔۔‘‘ (سورۃ الانبیائ:۳۴)
ہر انسان کو بالآخر یہاں سے جانا ہے۔۔۔۔۔ چند دنوں کی مہلت ہے جو ہمیں عطا کی گئی ہے ۔۔۔۔۔ اس میں ہمیں آخرت کی تیاری کرنی ہے ۔۔۔۔۔ تو دنیا کی مختصر سی زندگی آخرت کی تیاری کے لئے عطا کی گئی ۔۔۔۔۔ 
اس لئے نبی اکرم ا نے ارشاد فرمایا:
’’کن فی الدنیا کانک غریب او عابر سبیل‘‘ (مشکوٰۃ)
’’تم دنیا میں ایسی زندگی گزارو جیسے کوئی پردیسی ہوتا ہے۔۔۔۔۔‘‘
پردیس میں انسان کو کتنی ہی سہولت کیوں نہ میسر ہو۔۔۔۔۔ اس کا دل اپنے بچوں کے لئے۔۔۔ اپنے والدین کے لئے۔۔۔۔ عزیز و اقارب کے لئے ہر وقت اداس رہتا ہے۔۔۔۔۔ سوچتا ہے کہ کب مجھے موقع ملے کہ میں وطن واپس چلا جاؤں۔۔۔۔۔
مومن کے لئے دنیا گزرگاہ ہے

(13) اسی طرح مومن کا اصلی وطن جنت ہے۔۔۔۔۔ دنیا اس کے لئے وطن اقامت کے مانند ہے۔۔۔۔۔ ہم تھوڑے دن کے لئے یہاں بھیجے گئے ۔۔۔۔۔ بالآخر زندگی گزار کر ہم نے اپنے وطن اور مستقر کی طرف لوٹ کر واپس جانا ہے۔۔۔۔۔ دنیا میں رہتے ہوئے ہم آخرت کی تیاری میں لگے رہیں۔۔۔۔۔ 
جس طرح مسافر اپنے سفر کے دوران تھوڑی دیر اپنے آرام کے لئے ٹھہرتا ہے۔۔۔۔۔ اس کے پیش نظر یہ بات ہوتی ہے کہ مجھے منزل پر پہنچنا ہے ۔۔۔۔۔ اسی طرح ہمارا سفر ’’کن‘‘ کے مقام سے شروع ہوا۔۔۔۔۔ عالم ارواح میں اﷲ رب العزت نے ہم سے وعدہ لیا:
’’الست بربکم‘‘        کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں۔۔۔۔۔ 
سب نے جواب دیا:
’’قالوا بلیٰ‘‘ کیوں نہیں۔۔۔۔۔
اور اس کے بعد پروردگار نے آزمائش کے لئے دنیا میںبھیجا۔۔۔۔ (از خطبات فقیر)

close